پانی۔۔۔زندگی کی بنیاد اور ایک ہمہ گیر محلل

ٹھوس پانی یعنی برف کی ایک اور منفرد خصوصیت سامنے آتی ہے کہ یہ بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں اور وسط عرض البلد جہاں شب و روز سردی اور گرمی پڑتی ہے تو یہ موسم کے حوالے سے ایک طاقتور ایجنٹ بن جاتا ہے جسے ’’یخ زدگی‘‘Frost Actionکا عمل کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر شکست و ریخت کا ایک اہم کارندہ بن جاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب پانی صفر ڈگری سینٹی یا 32 فارن ہائٹ پر منجمد ہوتا ہے تو انفرادی طور پر پانی کے سالمات ایک قرینے سے قلمی ساخت میں ترتیب پاتے ہیں۔
چوں کہ برف کی قلمی ترتیب مائع پانی کے مقابلے میں زیادہ پھیلتی اور جگہ گھیرتی ہے، جس کی وجہ سے پانی کے حجم میں 9فی صداضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان علاقوں میں جہاں دن کے وقت شدید گرمی اور رات کو سخت سردی اور برف باری ہوتی ہے تو دن کے وقت گرمی سے چٹانیں پھیلتی ہیں اور رات کو سردی سے سکڑتی ہیں اس طرح بار بار تپشی پھیلائوCo-effecint of Thermal Expansionاور سکڑائوCo-effecient of thermal contraction سے چٹانوں کے جسم کی قدرتی بندش ڈھیلی ہو کر کمزور پڑنے لگتی ہیں ،چوں کہ چٹانیں مختلف کیمیائی اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہیں اسی وجہ سے وہ الگ الگ تپشی پھیلائو اور سکڑائو کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہیں جو چٹانی جسم کے اندرونی سالمات میں غیریکساں دبائو کا ذریعہ بنتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اندر تنائو اور کھنچائو کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح چٹانیں چٹخ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی سطح پر خلاء، دراڑ اور جوڑ نمایاں طور پر نظر آنے لگتے ہیں۔
رات کی نمی، شبنمی قطرے اور پھر بارش نئے برف کی تہہ کا وزن ان کمزور حصوں پر بُری طرح اثرانداز ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہ نہ صرف ملبے کا ڈھیر ہو جاتی ہیں بلکہ ایک طویل مدت کے بعد سنگ ریزوں میں منقسم بھی ہو جاتے ہیں چوں کہ ان کوہستانی علاقوں میں بعض چٹانیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی پیدائش کے بعد زمین کے اندر سے دھاتی عناصر میں خودکفیل محلول زبردست قوت کے ساتھ داخل ہوا اور پوری جسم میں نسوں (Veins) کا ایک جال بچھا دیا جو عام طور پر کوارٹز اور اس کے ساتھ بھاری کثافت والی دھاتی اجزاء مثلاً گولڈ کثافت 19.3 پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایسی چٹانیں بھی ’’یخ زدگی‘‘ کی زَد میں آ کر دیگر سنگ ریزوں کے ساتھ شامل ہو کر ملبے کا ڈھیر بن کر کوہستانی خطّوں کے اطراف جمع ہو جاتے ہیں لیکن ان سنگ ریزوں اور دھاتی اجزاء کی رسائی میدانی علاقوں تک آبی بخارات کے ’’تکثیف‘‘ کے بغیر ممکن نہیں۔ دراصل یہ وہی مائع پانی ہے جو سُورج کی حرارت کی وجہ سے دریائوں، جھیلوں، سمندروں اور گیلی زمین سے بھاپ بن کر فضاء بسیط میں تحلیل ہو کر زوردار بارش اور برف باری کا باعث بنتا ہے۔
یہ کائنات کا ’’آبی چکر’’Hydrological Cycleوتا ہے جو ہر لمحہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے، جس سے نالے، ندی اور بڑے بڑے دریا جنم لیتے ہیں۔ جب دریا کوہستانی علاقوں سے رواں دواں ہوتا ہے تو ابتداء میں یہ سرعت کے ساتھ بہتا ہے اور اس میں بڑی قوت اور توانائی ہوتی ہے ،جس کے زیرِاثر وہ اپنے ساتھ بھاری پتھر، کنکر، ریت اور دھاتی ذرّات کو آسانی سے بہا کر لے جاتا ہے۔ اپنے تمام بار Loadے ساتھ میدانی علاقوں کی جانب پیش قدمی ہوتی ہے۔ اب اگر کوہستانی علاقوں میں دریا کے راستے میں کوئی ایسی چٹان آ جائے ،جس میں کوئی خاص قسم کی دھات یا معاشی معاون موجود ہوں تو وہ ان بہنے والی چٹانی ٹکڑوں کے ساتھ ان ذرّات کے جُز یا ٹکڑے بھی پانی کے ساتھ بہا کر میدانی علاقوں تک ہمسفر ہو جاتی ہیں۔
دریائی پانی کے کٹائو کے نتیجے میں یہ جتنا فاصلہ طے کرتی رہیں گی، اسی طرح عمل گھسائوAbrasion کے ذریعہ بڑے سے بڑا بلاک باریک سے باریک ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے رہیں گے اور سب سے آخر میں ریت سائز (2 سے 1/16 ملی میٹر قطر کے ساتھ یعنی انسان کے بال کی موٹائی کے برابر) جس میں ’’سونے‘‘ کے ذرّات بھی اسی سائز میں ریت کے ساتھ مخلوط حالت میں موجود ہوتے ہیں۔ جب دریا کا پانی ان اجزاء کو لے کر پہاڑی ڈھلوان سے میدانی علاقوں کی طرف بڑھتا ہے تو اس کی طغیانی کم ہو جاتی ہے۔ پانی کی ولاسٹی کم ہونے کی وجہ سے یہ سست اور دھیما ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پتھر اور کنکر نیچے تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی بھاری دھاتی ذرّات ریت کے ساتھ مقید ہو کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ریت اور اس میں شامل ’’سونے‘‘ اور دیگر بھاری دھاتی ذرّات پانی کی گزرگاہ میں ایک رُکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پانی کا بہائو اس رُکاوٹ سے منہ موڑ کر دُوسرے کنارے کی طرف خطِ منحنی Curve) طرز کی خمیدگی Folding پیدا کر کے آگے کی طرف سفر جاری رکھتے ہیں۔ مسلسل اس عمل کے جاری رہنے سے خمیدگیوں کا ایک طویل سلسلہ رُونما ہوتا ہے اسے دریا کا پیچ و خم Meanderکہتے ہیں۔
اسی راستے پر دریا ایک بل کھاتے ہوئے سانپ کی مانند رواں دواں رہتا ہے۔ انفرادی گہرائی والے حصوں میں ریت اور ریت نما سونے کے ذرّات تہہ نشیں ہو کر مرکوز ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے سونے کے ذخائر کو ’’پلیسر‘‘Placer ذخائر کہتے ہیں۔ بعض اوقات پیچ و خم کا حصہ کٹ کر الگ ہو جاتا ہے تو اس میں ریت کے ساتھ ’’سونا‘‘ اور دیگر دھاتی اجزاء کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔ جہاں سے رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ پیچ و خم کے اس کٹے ہوئے حصہ کو ’’بڑا کمانی دار خمیدہ جھیل‘‘ Oxbow Lakeکہتے ہیں۔ ایسے تمام دریا جو خمیدگی بناتے ہوئے خاص کر کوہستانی علاقوں سے بہہ کر آتے ہیں تو ان کی ریت کے ساتھ عموماً وہ دھات حاصل ہوں گے جو دریا بہا کر لایا ہو۔ جہاں جہاں سے دریا کا راستہ ہوگا۔ ان تمام گزرگاہوں میں دھاتی ذرّات کے نشانات حاصل ہوں گے۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ دریا کےپانی میں ’’سونے‘‘ کے معلق ذرّات تیرتے رہے ہیں تو ان کی موجودگی دریا کے بہائو کے کسی نہ کسی مقام یا خطّہ میں یقیناً ہوگی۔ چنانچہ ’’مائع پانی‘‘ کو سراغ رساں ایجنٹ تسلیم کر کے تلاش کاری مہم کا آغاز کیا جاتا ہے جو ذخائر کےماخذ تک رسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ سراغ رساں ذرّات کے توسط سے عام طور پر ’’سونے‘‘ کے بابت معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان عناصر کو ’’کھوجی دریائی تیراک‘‘River Float Tracing کہتے ہیں۔ ان کھوجی عناصر کی بنیاد پر جس تیکنیک کا اطلاق کیا جاتا ہے وہ خصوصی طور پر دھات اجزاء کی کثافت سے تعلق رکھتا ہے اسے پلیسر کانکنی یا چھنائو Panning کہتے ہیں۔ خمیدگی اورچشموں کے اطراف سے بیلچے (Shovel) کی مدد سے ریت کی گرویل کو ایک اَتھلے چھلنی میں رکھا جاتا ہے، پھر اس میں ’’مائع پانی‘‘ کو شامل کیا جاتا ہے۔ چھلنی کوایک طرف جھکا کر ’’دائری چکر‘‘ میں متحرک کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کم کثافت والے ہلکی دھات کو چھلنی کے کناروں پر جمع کر دیتا ہے۔ اس طرح ’’پانی‘‘ اپنی اہمیت برقرار رکھتے ہوئے بھاری کثافت کے سونے کے پیوست ٹکڑوں اور ذرّات کو چھلنی کی تہہ میں مرکوز کر دیتا ہے۔
ابتدائی اَدوار میں ’’پلیسر ذخائر‘‘ کو کمتر درجہ کا سمجھا جاتا تھا لیکن 1849ء میں یورپ نے اس کی طرف توجہ دی اورکیلی فورنیا میں بڑے پیمانے پر تلاش کاری کا سلسلہ شروع ہوا، پھر بہتر فنیات کی بدولت معاشی طور پر قابل حصول اور استعمال بن چکی ہے۔