پاسباں مل جائیں گے

اڈپی کرناٹک کا ساحلی ضلع ہے، پورے ملک میں برہمنوں کا سب سے بڑا مٹھ یہیں واقع ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ہندوستان کے تقریباً تمام صدور اوروزرائے اعظم کسی نہ کسی بہانے یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں۔یہاں کے مذہبی رہنما وشویشھ تیرتھ سوامی جی کے تعلق سے یہ بات عام ہے کہ کٹر متعصّب مذہبی رہنما ہیں۔ ۱۹۹۲ءکے آس پاس مخدوم گرامی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد کی مناسبت سے عوامی سطح پر ساحلی اضلاع پرمشتمل ’’پیام انسانیت‘‘ کا جلسہ تھا، مذکورہ سوامی جی کے نام سے عوام کی بھیڑجمع ہوسکتی تھی، اس لیے ہم نے ان کو بطورِ مہمانِ خصوصی اس میں مدعوکرنے کا فیصلہ کیا لیکن ہمارے بعض ساتھیوں کا خیال ہی نہیںبلکہ اصرار تھا کہ ان کو مدعونہ کیا جائے۔ اس لیے کہ وہ اگر جلسہ میں کوئی سخت بات کہہ دیں تو معاملہ الٹ سکتاہے،ہم نے اس امکانی ضرر سے بچنے کے لیے حضرت مولاناؒ سے اجازت لے کربی جے پی کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر چترنجن جو بعد میں ممبر اسمبلی بھی بنے ،خود ان کے گھر میں جلسہ سے پہلے مفکراسلامؒ کی سوامی جی سے خیر سگالی ملاقات کا اہتمام کروایا۔ وقت مقررہ پر عصر سے قبل خوشگوار ماحول میں یہ ملاقات ہوئی،اس میں سوامی جی کے سامنے حضرت مولانا نے ’’پیامِ انسانیت کی تحریک‘‘ پر روشنی ڈالی اور یہ بات صاف کردی کہ آج کے اس جلسہ عام میں ہماری گفتگو صرف انسانی واخلاقی پہلوؤں پر ہونی چاہیے، پھر حضرت مولانا نے ’’پیام انسانیت‘‘ کی تحریک کے پس منظر میں اسلام کا بھی مختصرتعارف کرادیا، اس سے سوامی جی بہت خوش ہوئے اور جاتے ہوئے خود حضرت مولانا سے پیر چھو کر آشیرواد لیا۔ ایک دو سال کے بعد ہم نے ان کو ایک اور جلسہ میں جامعہ اسلامیہ بلایا،ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کیا اورپورے مدرسہ کا دورہ کرایا،اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے ساتھ آنے والے اخباری نمائندوں نے دوسرے دن جامعہ دینی مدارس اور مسلمانوں کے تعلق سے جو رپورٹیں شائع کیں اور مثبت مضامین لکھے، وہ ہم لاکھوں روپیہ اشتہار دے کر بھی شائع نہیں کرسکتے تھے۔سوامی جی سے مسلسل اس رابطہ اور ان کو اپنے یہاں بلاکر اعزاز واکرام اور تقریر کروانے کا فائدہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال رمضان المبارک میں انھوں نے اپنے مٹھ میں مسلمانوں کو بلاکر افطار کی دعوت کی اور اپنے مندر میں ہی ان کے لیے مغرب کی نماز باجماعت کااہتمام کروایا۔ اس پرایک نہ تھمنے والا طوفان فرقہ پرستوں نے کھڑا کردیا لیکن سوامی جی نے صاف کہہ دیا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے بلکہ اگلے سال بھی مسلمانوں کو بلاکر اس سے زیادہ اکرام کروں گا اور عملاً اس سال بھی انھوں نے افطارکے لیے مسلمانوں کو دوبارہ مدعوکرکے دکھایا۔اب خود ان کے اپنے لوگوں کا کہنا ہے کہ سوامی جی کے بیانات پہلے کی طرح شدت والے نہیں رہے بلکہ مسلمانوں کے تعلق سے وہ ہمدردانہ وخیر خواہانہ خیالات کا اظہار کررہے ہیں ۔
چارسال قبل ہمارے شہر میں ملک کی ایک اہم تفتیشی ایجنسی کی ایک ٹیم مقیم تھی، ہمارے بعض ساتھیوں کے اصرار پر سابق مہتمم جامعہ حضرت مولانا عبدالباری ندوی ؒ کے ساتھ ہماری ان سے ملاقات ہوئی،دوسرے دن ہم نے ان کو جامعہ آنے کی دعوت دی، خصوصی طور پر شعبۂ حفظ لے گئے اور وہاں موجود نابینا استاد حافظ محمد اشفاق صاحب سے وہ آیتیں پڑھوائیں جس میں کسی بھی ناحق انسان کو مارنے پر پوری انسانیت کو مارنے کی بات کہی گئی ہے۔پھر ان کے سامنے ترجمہ کر کے اس کی تشریح بھی کی،اس پر اس پوری ٹیم کا کہنا تھاکہ اسلام میں ہرانسان کے احترام کے تعلق سے یہ حیرت انگیزباتیں ہم نے پہلی دفعہ سنیں۔اس کے بعد ان کی تفتیشی کاروائی میں اس ملاقات کا صاف اثر ہمیں نظر آیا۔
تیسرا واقعہ ابھی تین چار سال قبل کا ہے۔اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری صاحب کی صدارت میں دہلی میں ایک بین المذاہب سیمینار تھا جس میں پڑوسی ممالک سری لنکا، بھوٹان اور نیپال وغیرہ کے مذہبی پیشوا بھی شریک تھے۔ میں بھی مقالہ نگار کی حیثیت سے اس میں مدعو تھا لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ پورے سمینار میں مدعو دوسرے مسلم نمائندوں سے زیادہ اچھی ترجمانی اسلا م کی سوامی لکشمی شنکر اچاریہ نے کی،انھوں نے توحید ورسالت کا تعارف کرتے ہوئے جہاد سے متعلق قرآنی آیات کی ایسی د ل نشیں تشریح کی کہ اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کابڑی حدتک ازالہ ہوگیا۔یاد رہے کہ یہ وہی سوامی لکشمی شنکر اچاریہ تھے جنھوں نے دس بارہ سال پہلے قرآن مجید کی انیس یا بیس جہاد کی آیتوں کا حوالہ دے کر اسلام کے خلاف ایک سخت ترین کتاب لکھی تھی لیکن بعد میں کچھ اللہ کے بندوں نے ان سے ربط کرکے پورا قرآن مجید پڑھنے اور سیرت کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی تووہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کے سب سے بڑے وکیل بن کر سامنے آئے اور خود اپنی گزشتہ کتاب کی تردید کرتے ہوئے دوسری کتاب اسلام کے حق میں لکھ کر اپنے رجوع کا اعلان کیا، آج بھی جگہ جگہ وہ اسلام سے متعلق غلط فہمی دورکرنے والے  بڑے مقرر بن کرہمارے درمیان موجود ہیں، جس کا اندازہ یوٹیوب پر موجود ان کی تقاریر سے بھی ہوسکتاہے۔
چوتھا واقعہ بھی ابھی دو تین ماہ قبل کا ہے،دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن سے میرے ایک شناسا کا فون آیا کہ برطانوی نائب سفیر کرناٹک کے ساحلی اضلاع کے سرکاری دورہ کے دوران مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی میں بھی حاضر ہوناچاہتے ہیں ،میں نے ان سے درخواست کی کہ جب شہر آہی رہے ہیں تو ہمارے مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں بھی ہم ان کو لے جائیں گے اور ایک استقبالیہ جلسہ رکھ کر مدرسہ اور اسلام کا بھی تعارف کرائیں گے، ہماری درخواست پر انھو ں نے دوگھنٹے کے بجائے چھ گھنٹہ کا وقت دیا۔ اکیڈمی اور علی پبلک اسکول کے دورے کے بعد ہم نے جامعہ کا دورہ کرایا، پورے کیمپس، مسجد اورکتب خانہ وغیرہ کے معائنہ کے بعداخیرمیں کانفرنس ہال میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ جلسہ رکھاگیا، اس تاریخی ودعوتی موقع سے فائدہ اٹھانے کی جب الحمدللہ ذہن میں بات آئی تو خود میں نے استقبالیہ کلمات کے دوران ان سے مخاطب ہوکرکہا: جناب !آج کی یہ کتنی خوبصورت، پُررونق اور یادگار تقریب ہے جس میں اکرام واعزاز کرکے آپ کی عزت افزائی کی جارہی ہے، کاش! مرنے کے بعد بھی جنت میں آپ کی اسی طرح عزت افزائی ہواور ہم اور آپ سب اسی طرح جنت میں بھی استقبالیہ تقریب میں شامل رہیں ، پھر میں نے کہا جناب: مرنے کے بعد اس طرح کے اعزاز کے لیے آپ ہمارے سامنے صرف یہ مختصر جملہ دہرائیں کہ اللہ تعالی ہی خالق بھی ہے اور مدبّر بھی یعنی کائنات کے ذرہ ذرہ کے پیدا کرنے میں جس طرح وہ تنہاہے، اس کو چلانے میں بھی وہ اکیلاہے، الوہیت اور عبادت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ،آپ صرف یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ  اللہ کے رسول ہیں۔ اگر اس جملہ کو آپ ہمارے سامنے دہرائیں گے تو آپ کے حق میں کل مرنے کے بعد ہم خود گواہی دیں گے اور ہم سب جنت میں ان شاء اللہ ایک ساتھ ہوں گے، میں نے یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے مڑ کر ان کی جانب دیکھا تو وہ زیرِ لب مسکرارہے تھے اور سرہلاکر تائید کررہے تھے۔جلسہ کے بعد اخباری نمائندوں نے جب اس دورہ کے تعلق سے ان سے سوالات کیے تو انھوں نے صاف کہا:  یہاں آکر اسلام اور دینی مدارس کے تعلق سے میری غلط فہمیوں کا بڑی حد تک ازالہ ہوا،کسی بھی مدرسہ کا یہ میرا پہلا دورہ تھا۔ واپسی میں ہم نے ان کو توحید ورسالت پر انگریزی میں کتابیں بھی دیں جس کو انھوں نے بڑی ممنونیت کے ساتھ قبول کیا اور مطالعہ کا وعدہ بھی کیا، کچھ اسی طرح کلمہ طیبہ کے اقرار کی دعوت ہم نے آج سے پندرہ سال پہلے ہمارے ملک کے نامور شاعر جگن ناتھ آزاد کو بھی ہمارے شہر میں ان کی آمد اور ان کے اعزاز میں جامعہ اسلامیہ میں منعقدہ جلسہ میں دی تھی۔
 دعوتی پہلو سے امت کی عمومی غفلت:
اس طرح کے خوش کن ہزاروں واقعات کی روشنی میں جو پورے ملک میں وقتاً فوقتاًمختلف اداروں اورشخصیات وتحریکات کے ذریعے روز سامنے آرہے ہیں ، ملت اسلامیہ ہندیہ کو اپنی اس اہم دعوتی ذمہ داری کا جائزہ لینا چاہیے جس کی طرف سے اب بھی عمومی غفلت برتی جارہی ہے، عالمی سطح پر بالعموم اور ملکی سطح پر بالخصوص  دعوتی میدان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑے پیمانہ پر بہت اچھے کام ہورہے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل سے اس کے بڑے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں لیکن افسوس کہ ایک اہم اور بنیادی دعوتی پہلو کی طرف ابھی  ملت اسلامیہ کی توجہ بالعموم مبذول نہیں ہوئی ہے اور وہ ہے  سربراہانِ مملکت اور امت کے حکمرانوں تک دعوتِ دین پہنچانے کا فریضہ، سیرت نبوی میں مکاتیب نبوی ایک مستقل باب ہے۔ عہد نبوی میں مسافت کی بے پناہ دوری کے باوجودرحمت عالمﷺ نے اس وقت کے اکثر حکمرانوں اورعرب وعجم کے مختلف بادشاہوں  کے نام دعوتی خطوط کے ساتھ اپنے وفودبھی بھیجے اور ان تک براہِ راست توحید ورسالت اور آخرت کا پیغام پہنچایا،بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ اس طرح کے جو دعوتی خطوط روانہ کیے گئے ان کی تعداد سو سے زائد تھی، جن میں سرفہرست ایران، روم، مصر،حبشہ،یمامہ،بحرین اور یمن وشام وغیرہ کے حکمراں تھے جو عیسائی،یہودی اورمجوسی مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے، اس کے علاوہ مشرکین عرب کے قبائلی سرداران کوبھی آپ ﷺ  نے دعوتی خطوط لکھے،ان خطوط کو لے جانے والے نمایاں سُفراء وقاصدین میں حضرت دحیہ کلبیؓ، حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ،حضرت سلیط بن عمرو اورحضرت شجاع بن وھبؓ اسدی وغیرھم کے نام ملتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ براہِ راست آپﷺ  کے ان دور دراز علاقوں اور ملکوں میں نہ جاسکنے کے باوجود  عالمی سطح پر اسلام کا تعارف ہوگیا اور ان میں سے ایک بڑی تعداد نے اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں داخل بھی کیا۔لیکن افسوس کہ اس وقت امت کی طرف سے ہرطرح کے طبقات میں دعوتی کام کے باوجود یہ ایک اہم ترین شعبہ مجموعی طورپر پورے عالمِ اسلام میں تقریباًخالی ہی نظر آرہاہے۔ جب تک خلافت قائم رہی اور عثمانی ترکوں نے اپنی سادگی سے خلافت کی قباکو چاک نہیں کیا تو اس وقت تک عالمی سطح پر امت کی عمومی قیادت کے منصب پرفائز ہونے کی بِناپر یہ فریضہ ان ہی خلفاء سلطنت عثمانیہ کاتھا جس کو انھوں نے انجام نہیں دیا۔ لیکن اب تو عالمی سطح پر خلافتِ اسلامیہ کے نہ ہونے کی بنا پر مسلم وغیرمسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ وہاں موجود علمااور دُعاۃ کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی دعوتی حکمت کو اپنا کر عالمِ انسانیت کے ایک ایک حکمرانِ وقت،صدرِ مملکت اور وزیر اعظم و بادشاہ وغیرہ تک اسلام کی دعوت پہنچائیں ۔
خود ہمارے ملک میں علماء اور دینی ومذہبی قیادت کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم اپنے ملک کی حد تک ملکی وصوبائی سطح پر موجود سربراہوں ،وزراء ،گورنروں اور اعلیٰ سطحی قیادت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مل کران کو توحید کے پیغام سے آشناکرائیں ۔کم از کم اپنے ملک کی سطح پر ہی مذکورہ بالا دعوتی پہلوکے تعلق سے ہم غورکریں تو مجموعی طور پر پوری امتِ مسلمہ ہندیہ کو ہم قصوروار پائیں گے، سال بھر میں مختلف مناسبتوں سے اپنے ملک اورصوبہ کے حکمرانوں ،وزراء اورممبرانِ پارلیمان وممبرانِ اسمبلی وغیرہم سے ہم یا ہمارے قائدین و علماء ملتے ہیں۔ اپنے مسائل لے کر ان کے پاس جاتے ہیں ، مختلف اداروں کی طرف سے ان کے پاس جاکر اپنے مطالبات پر مشتمل میمورنڈم دیے جاتے ہیں ، حتیٰ کہ ہمارے بعض قائدین وعلماء کے ذاتی طور پر بڑے مناصب پرفائز ان حکمرانوں اور وزراء سے ایسے گہرے ذاتی تعلقات بھی ہیں کہ ان کے گھر شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات تک میں ا ن کی آمد ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے ذاتی مسئلہ یعنی آخرت میں ہمیشگی کی آگ سے ان کو بچانے کی خاطر ان کی ہمدردی وخیرخواہی میں کبھی ہم نے ان سے ملاقات کی ہے؟ ہمارے ادارہ کی طرف سے کبھی خالص دعوتی مقصدلے کر کوئی وفدان کے پاس پہنچاہے؟ کبھی بھول کر بھی ہم نے ان کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی ہے؟ کبھی ان سے مل کر اسلام کے فطری پیغام سے براہِ راست آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے، محشر کے میدا ن میں ہمارے یہی حکمراں اورقائدین اگر ہمارے علما ء اور دعاۃ کا گریباں پکڑ کر اللہ کے دربار میں یہ سوال کریں کہ اے اللہ! یہ حضرات دسیوں مرتبہ ہمارے دربار میں اپنے اور اپنی قوم کے ذاتی اورملّی مسائل کو لے کر حاضر ہوتے تھے، متعدد بار ان کی دعوت پر ہم خود ان کے اداروں میں بھی گئے تھے لیکن آپ کے  ان بندوں نے کبھی بھول کر بھی ایمان واسلام کی حقانیت اور کفر وشرک کی قباحتوں کا ہمارے سامنے ذکر نہیں کیا،ہمارے پاس اس وقت کیا جواب ہوگا؟ اور کس طرح ہم اپنی اس غفلت اور کوتاہی کی تاویل کرسکیں گے؟ یہ سوال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اس کے جواب کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
(جاری)