پارلیمانی روایات کو برقرار رکھیئے

ہندوستان صدارتی نظام والا نہیں بلکہ پارلیمانی نظام والا ملک ہے۔ صدارتی نظام میں جیسا کہ امریکہ میں ہے، صدر کو زیادہ اختیارات ہوتے ہیں اور اس کے مقابلے میں پارلیمنٹ کو کم۔ لیکن پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ صدر ملک کے سب سے بڑے آئینی منصب پر تو فائز ہوتا ہے لیکن اس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ نمائشی ہوتے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کے قائد یعنی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن یہ اختیارات بھی بے نکیل نہیں ہیں بلکہ وہ آئین و دستور سے گورن ہوتے ہیں یعنی وزیر اعظم اور مرکزی کابینہ آئینی ضابطوں سے بندھے ہوتے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے توسط سے کابینہ کو حاصل ہے۔ حکومت اگر کوئی قانون وضع کرنا چاہتی ہے تو اسے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنا اور منظور کرانا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کی منظوری ملنے کے بعد اسے صدر کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اس کے دستخط کرنے کے ساتھ ہی وہ بل قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پارلیمانی اجلاس کے دوران اراکین پارلیمنٹ عوامی مفادات کے ایشوز اٹھاتے ہیں اور حکومت سے ان پر بحث کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اپوزیشن عوامی مفادات کے معاملات اٹھاتا ہے اور حکومت سے جواب طلب کرتا ہے۔ تاہم حکومت ان معاملات پر جن سے اس کی سبکی ہوتی ہو، بحث کرانے یا جواب دینے سے کتراتی ہے۔ جبکہ اپوزیشن اراکین حکومت کو جواب دینے کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پارلیمانی اجلاس کے دوران کسی بھی پالیسی معاملے کا اعلان ایوان کے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے ذمہ داران یا وزرا یا اراکین پارلیمنٹ ایوان کے باہر تو غلط بیانی کر سکتے ہیں بلکہ کرتے ہی ہیں لیکن وہ ایوان کے اندر نہیں کر سکتے۔ ایوان کے اندر غلط بیانی پارلیمنٹ کی توہین سمجھی جاتی ہے اور غلط بیانی کرنے والے کے خلاف مراعات شکنی کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات حکومت ایوان میں اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر ان بلوں کو بھی منظور کرا لیتی ہے جن پر اپوزیشن اراکین مطمئن نہیں ہوتے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کو وسیع اختیارات حاصل ہیں اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ وہ غیر جانبداری کے بجائے حکومت کی طرفداری کرتے ہیں۔ بہت کم اسپیکر ایسے گزرے ہیں جنھوں نے غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کی ہو۔ موجودہ حکومت کو لوک سبھا میں زبردست اکثریت حاصل ہے۔ راجیہ سبھا میں اسے اکثریت تو حاصل نہیں ہے لیکن وہاں بھی ایسے انتظامات کر لیے جاتے ہیں کہ اپوزیشن ہنگامہ کرتا رہے اور بل منظور ہو جائیں۔ متنازعہ زرعی قوانین، دفعہ 370 کے خاتمے، طلاق ثلاثہ اور سی اے اے جیسے قوانین اپوزیشن کی عدم رضامندی اور اس کے ہنگامے کے باوجود منظور کرا لیے گئے۔
یہ حکومت اپنے ایجنڈے پر اس طرح گامزن ہے کہ اکثر اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک پارلیمانی نظام کی کوئی اہمیت نہیں ہے یا یہاں کے جمہوری نظام میں وہ اپوزیشن کو وہ کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی جو اسے کرنا چاہیے۔ جس کے نتیجے میں ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن انتہائی کمزور ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کسی حد تک تو کمزور ہے لیکن اتنا کمزور بھی نہیں ہے کہ اپنا کردار ادا نہ کر سکے۔ لیکن حکومت دھڑلے اور ڈھٹائی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے۔ موجودہ مانسون اجلاس 19 جولائی کو شروع ہوا ہے اور اسے 13 اگست تک چلنا ہے۔ لیکن یہ تیسرا ہفتہ چل رہا ہے اور پارلیمنٹ کی کارروائی میں رخنہ اندازی کا سلسلہ جاری ہے۔ پارلیمنٹ میں کام نہ ہو پانے کی وجہ سے اب تک عوام کے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے برباد ہو چکے ہیں۔ اجلاس شروع ہونے سے ایک روز قبل یعنی 18 جولائی کی شام کو دہلی کے ایک ڈیجٹل میڈیا ادارے ’’دی وائر‘‘ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ اسرائیل کی ایک کمپنی این ایس او گروپ کی اسپائی سافٹ وئیر ’’پیگاسس سافٹ وئیر‘‘ کو ہندوستانی حکومت نے خریدا اور اس کی مدد سے اس نے تین سو سے زائد شخصیات کی جاسوسی کرائی۔ جن کی جاسوسی کی گئی ان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، صحافی، جج، کارپوریٹ اداروں کے نمائندے، سیاست داں اور یہاں تک کہ حکومت کے بعض وزرا بھی شامل ہیں۔ مذکورہ سافٹ وئیر کی مدد سے پوری دنیا میں پچاس ہزار ٹیلی فون نمبروں کو ٹارگیٹ کیا گیا۔ اس معاملے کی جانچ امریکی، یوروپی، خلیجی اور ہندوستانی میڈیا اداروں کے ایک بین الاقوامی کنسورشیم نے کی اور اس وقت اس معاملے پر پوری دنیا میں ہنگامہ ہے۔ فرانس اسرائیل اور بعض دیگر ممالک اس معاملے کی جانچ کروا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے ایک وزیر نے فرانس کا دورہ کرکے اس سلسلے میں فرانسیسی حکومت کو تفصیلات بہم پہنچائیں۔ این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی صرف حکومتوں کو فروخت کرتا ہے اور اس کے ذریعے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ لیکن ہندوستان میں اس کی مدد سے مبینہ طور پر دوسروں کی جاسوسی کرائی گئی۔ 
اپوزیشن چاہتا ہے کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ ملک کے ایک سینئر صحافی این رام سمیت تقریباً نصف درجن سینئر صحافیوں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کی ہے اور اس معاملے کی جانچ کے لیے حکومت کو ہدایت دینے اور اس سے جواب طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔ صحافیوں کی اعلی تنظیم ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے بھی سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کرکے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر سماعت جاری ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ چونکہ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہے اس لیے اس پر ایوان میں بحث کرائی جائے۔ اس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے یا پھر سپریم کورٹ کی نگرانی میں اس کی جانچ کرائی جائے۔ لیکن حکومت اس کا کوئی جواب نہیں دے رہی ہے۔ وہ اس سیدھے سادے سوال کا جواب دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ کیا اس نے پیگاسس اسپائی وئیر خریدا ہے اور اگر خریدا ہے تو کیا اس نے اس کی مدد سے دوسروں کی جاسوسی کرائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایسے الزامات عاید کیے گئے تھے جن کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ اس لیے اس بار بھی یہ الزامات غلط ہیں اور کوئی ثبوت ہے ہی نہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل یہ کوئی ایشو ہی نہیں ہے کہ اس پر بحث یا جانچ کرائی جائے۔ حالانکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر معزز اراکین پارلیمنٹ کسی معاملے پر تحفظات رکھتے ہیں اور وہ اس پر حکومت کا جواب چاہتے ہیں تو وہ جواب دے اور پارلیمنٹ میں بحث کرائے۔ لیکن حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اسی سے پتہ چل رہا ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کی تحریک، زرعی قوانین اور مہنگائی جیسے امور پر بھی اپوزیشن بحث کرانا چاہتا ہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کا یہ رویہ پارلیمانی روایات کے منافی ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں سوال پوچھنے دے اور وہ سوالوں کے جواب دے۔ اس سے پہلے جب بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل دیگر جماعتیں اپوزیشن میں تھیں تو وہ بھی پارلیمنٹ میں سوال پوچھتی تھیں اور حکومت ان کے جواب دیتی تھی۔ اگر حکومت ان کے سوالوں کا جواب دینے میں ذرا بھی تاخیر کرتی تھی تو بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کی کارروائی میں رخنہ اندازی کرتے تھے۔ اس وقت ان لوگوں کی دلیل ہوتی تھی کہ عوامی ایشوز کو ایوان میں اٹھانا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ لیکن آج وہی بی جے پی اپوزیشن کی اس ذمہ داری کو فراموش کر بیٹھی ہے اور اسے سوال پوچھنے اور انتہائی اہم امور پر بحث کرانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پارلیمانی روایات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس طرح پارلیمانی نظام کو کمزور اور اپوزیشن کے کردار کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ اس کی آمریت یا ڈکٹیٹرشپ ہے۔ پارلیمانی نظام میں ایسے رویے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت جان بوجھ کر پارلیمانی نظام کو کمزور کر رہی ہے۔ اپوزیشن کے اس الزام میں دم ہے۔ کیونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بہت سے رہنما بارہا پارلیمانی نظام یا کثیر جماعتی نظام کی مخالفت کر چکے ہیں۔ حکومت پارلیمانی روایات کا جنازہ نکال رہی ہے۔ یہ صورت حال ملک کے جمہوری نظام کے لیے شگونِ بد سے کم نہیں ہے۔
موبائل: 9818195929