مشہور و معروف ہستی رویندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے لیے ایسا نیشنلزم چاہتے تھے جو نہ صرف خوف سے پاک ہو بلکہ زندہ جاوید اور جاندار بھی ہو ؎
جہاں قلب بے خوف ہےاور سر بلند رکھا جاتا ہے
جہاں علم آزاد ہے
جہاں دنیا تنگ خانگی دیواروں (کے جھگڑوں) میں ٹوٹ کر
پرزے پرزے نہیں ہو گئے
جہاں الفاظ عمق صداقت سے نکلتے ہیں
جہاں سعی مستقل اپنے بازو تکمیل (کار) کی پھیلاتی ہے
جہاں عقل کا صاف چشمہ فضول مراسم کے خشک ریتیلے جنگل میں اپنا راستہ نہیں بھولا
جہاں تو نفس کو دائم الوسع تخیل و عمل کی طرف لے جاتا ہے
اے مالک اسی فردوس آزادی میں میرے ملک کو بیدار کر
(1931 میں شائع رابندر ناتھ ٹیگور کے مشہور زمانہ شعری مجموعہ ’گیتانجلی‘کی ایک نظم)
رویندر ناتھ ٹیگور نے ’ایک ملک یا ایک وطن‘ کے اپنے تصور کو انہی لفظوں میں ڈھالا تھا (حالانکہ سیاسی فلسفہ میں ملک اور وطن دو الگ الگ نظریہ ہیں لیکن ہم یہاں دونوں کو ایک ہی معنیٰ میں استعمال کریں گے)۔قومی ترانہ لکھنے والے گرو دیو کا تصور تھا کہ ہندوستان کو ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں ہر کسی کو اپنا سر اٹھا کر جینے کا حق ہو اور کسی کو، کسی سے، کسی طرح کا خوف نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ اپنے رول ماڈل ملک کے تصور میں رویندر ناتھ نے نیشنلزم سے متعلق خوف کی نفسیات پر اتنا زور کیوں دیا؟ اس سوال کا جواب ہم آگے تلاش کریں گے۔ فی الحال یہ مان لیتے ہیں کہ رویندر ناتھ ٹیگور پہلے ایسے نظریہ ساز تھے جنہوں نے حب الوطنی کے پس پشت خوف کی سیاست کے خطرے کو اس وقت سمجھ لیا تھا جب کہ ملک آزاد بھی نہیں ہوا تھا۔موجودہ سماجی اور ثقافتی ضمن کو دیکھنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ رویندر ناتھ نے جس خطرے کی آہٹ آج سے 100 سال پہلے ہی سن لی تھی، وہی خطرہ آج ہندوتوادی اور تنگ ذہن وطن پرستی کا لبادہ اوڑھ کر آ کھڑا ہوا ہے۔ یہ خطرہ ایسا ہے جو ملک یا قوم کے نام پر ایک ورغلانے والی اور جھوٹے خواب کو سچ کی طرح مشتہر کرتی ہے۔اس جھوٹے نیشنلزم پر رویندر ناتھ ٹیگور کے نظریات کیا تھے، اسے سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نیشنلزم کا خیال انسانی ثقافت کی تاریخ میں پہلی بار آیا کب؟مورخ لال بہادر ورما کہتے ہیں کہ ’’اس کا آغاز 15ویں اور 16ویں صدی کے دوران ہی یورپ میں ہو گیا تھا۔ اس وقت یوروپ قدامت پرستانہ نظام سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سرمایہ داری کی ترقی کے ساتھ ہی نیشن اسٹیٹ اور نیشنلزم کا نظریہ سامنے آیا ۔ یہ واقعہ پورے یورپ میں ہوا لیکن اس کو باضابطہ 18ویں صدی میں برطانیہ میں دیکھا گیا۔ 1704 میں برطانیہ کا قومی پرچم جسے یونین جیک کہتے ہیں، کو ابتدائی شکل میں اختیار کیا گیا۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)