اُسے بس اتنا افسوس ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں وہ ہمیشہ ناکام رہا ۔ جب کہ اس کے بہت سے ساتھی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تھوڑے عرصہ میں ان کے رہن سہن کے نقشے ہی بدل گئے ۔ ایک وہ فرد واحد تھا کہ لاکھ جتن کر کے بھی ان کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ ہمیشہ اپنی قسمت کی لکیر پیٹتا رہ گیا ۔
یہ سوچتے ہوئے وہ اکثر اندر ہی اندر گیلی لکڑی کی مانند سلگتا رہتا ۔ کبھی اس دن کو یاد کر کے اپنی قسمت کو کوستا ، جس دن اس نے محکمہ پولیس میں ڈرائیور ی کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ حالانکہ یار دوستوں نے اسے کئی بار سمجھا یا بھی کہ اس کی نوکری میں ترقی پانے کی گنجائش آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ البتہ سال میں ایک بار برائے نام تنخواہ میں ضرور بڑھوتری ہوتی رہے گی۔ان کی باتوں سے وہ چپ ہوجاتا مگر دل ہی دل میں زہر کا گھونٹ پی لیتا تھا۔
انور علی پسماندہ طبقے کا معمولی پڑھالکھا آدمی تھا۔ بیس سال قبل محکمہ پولیس میں بحیثیت ڈرائیور بھرتی ہوا۔ تب سے اپنی ڈیوٹی دیانتداری اور جانفشانی سے نبھارہاتھا، جس کے باعث محکمے کے سبھی لوگ اُسے پسند کرتے تھے۔
مگر بدحالی اور تنگدستی اسے ورثہ میں ملی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ مشاہرے میں گاہے گاہے اضافہ ہونے کے باوجود اس کی زندگی کی گاڑی پٹری پر لڑ کھڑاتی رہی اور کسی طرح کی راحت حاصل نہ ہوسکی ۔ گھر میں ضعیف بوڑھا باپ، جس کو تین سال پہلے لقوہ مار گیا، بستر پر پڑا تھا۔ دو دو جوان بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں اور اکثر لوگ جہیز نہ ملنے کیلئے اس کی بیٹیوں کے رشتے مکان کی بنا پر ٹال دیتے تھے۔ ہر باپ کی طرح اس نے بھی ان کی شادی رچانے کی خواہش ضرور کی تھی مگر قلیل آمدن اور جہیز کی فرمائش کے سبب شادی کا بوجھ اُٹھانے کی بساط نہ تھی ۔ بدقسمتی کا عالم یہ تھا کہ لاکھ جتن کرنے کے بعد بھی بھولے سے ایک چھوٹی سی خوشی بھی اس کے گھر کے دہلیز چھو کر نہ گزری۔ ایسا لگتا جیسے گھر کے چراغوں کی روشنیوں اور سورج کے کرنوں پر اس کے لئے پہرہ بیٹھا دیا گیا ہو۔ گھر کی ساری اُمید میں اس اکیلی ذات سے وابستہ تھیں اور وقت بند مٹھی میں سے پھسلتی ریت کی مانند نگلتا جارہاتھا۔
قسمت کے لکھے کا کیا کرے کوئی ۔ اپنی بے بسی کی وجہ سے اس کے دل و دماغ پر ہمیشہ ایسا غبار چھایا رہتا کہ گھر کے اندر وہ اپنے سر کے اوپر ایک لٹکتی ہوئی برہنہ تلوار محسوس کرتا اور گھر کے باہر لوگوں کے طرح طرح کے طعنے سننا پڑ رہے تھے ۔کبھی کبھی ایک مبہم سا خوف پل پل اُسے اپنی بے بسی و لاچاری پہ آنسو بہانے پر مجبور کرتا اور اسے اذیت و اضطرابی لہروں سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔ مایوس ہو کر اس نے ان اندو ناک حالات کا فیصلہ اوپر والے پر چھوڑا، جو یقینا سب کا خالق اور مصبب الاسباب ہے۔
وقت کاپہیہ گھومتا رہا۔ موسم بدلتے رہے ۔ اچانک ایک دن ایک سرکاری حکم نامہ جاری ہوا، جس کے مطابق کسی مسلح تصادم آرائیوں کے دوران جان بحق ہونے والے اہلکار کے حق میں ایکس گریشیاریلیف میں بیس لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا اور زخمی ہونے والے پولیس اہلکار کے لئے معاوضے میں پانچ لاکھ کا مزید اضافہ کیا گیا۔
بات بڑی اہم ، اور چونکا دینے والی تھی اور ساتھ ہی مہلوکین کے حق میں ایک حوصلہ افزا اقدام بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بات جنگل کی آگ کی طرح سارے محکمے میں پھیل گئی ۔ جس کسی اہلکار نے یہ خبر سنی یا پڑھی ، اس کی نچھیں کھل گئیں ۔ غرض ہر ایک نے اس حکم نامہ پر اپنی شادمانی و مسرت کا اِظہار کیا۔
ایسا ہی حال انور علی کابھی تھا۔یہ خبر سنتے ہی اس کا دل خوشی میں بلیوں اچھلنے لگا۔اس کی آنکھوں میں ایک طرح کی چمک پیدا ہوئی اور ہونٹوں پر مسرت آمیز مسکراہٹ کھل اٹھی۔
’’ یہ کوئی معمولی سی رقم تو نہیں ۔ اس سے ساری مشکلیں حل ہوسکتی ہیں۔‘‘
یہ سوچ کروہ دل ہی دل میں خوشیوں سے سرشار زیر لب بڑ بڑاتا رہا۔
پھرجیسے ہی اس کے دماغ میں یہ خیال کلبلانے لگا تو خود ہی اپنی بات کی تردید بھی کی۔
’’ کہتے ہیں نا۔ جیتا ہاتھی کو ڑی کا مرا سوا لاکھ کا۔ ’’ جب آدمی خود زندہ نہ رہے تو بیس لاکھ روپے کیا وہ اپنے ساتھ قبر میں لے جائے گا۔‘‘
دفعتاً ایک نامعلوم کرب دل و دماغ کے ویران گوشے سے اٹھ کر اسے بے قرار کرنے لگا۔ سرد آہ بھرتے ہوئے وہ پھر اپنے آپ کو سمجھانے لگا۔
’’ نہیں ! نہیں !مجھ جیسے نکمے اور نالائق آدمی سے جب کچھ بن نہیں پاتا تو وہ ایسی ہی اوٹ پٹا نگ باتیں کرنے لگتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کم از کم مرنے کے بعد یہ رقم اس کے لواحقین کے کام تو آئے گی۔‘‘
یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلی کئی وارداتوں کی تصویریں اُبھرنے لگیں اور ساتھ ہی زندگی کے نہ جانے کتنے واقعات پلک جھپکتے گزرگئے ۔ جس میں اس نے بڑی دلیری سے جان ہتھیلی پر رکھ کر کار ہائے نمایاں انجام دئیے تھے ۔لیکن بدلے میں کیا ملا؟ یہی کہ لوگ شاباشی اور داد و تحسین دیتے تھے ۔ جس سے نہ بنجر زمین سیراب ہوسکی اور نہ ہی گل بوٹے کھل اٹھے۔
کچھ دیر کے بعد اس کے من میں نہ جانے اتنی اداسی کہاں سے سمٹ آئی کہ چہرے پر یاس و حسرت کی لکیریں اُبھر آئیں اور اسے اپنی ناسمجھی پر حیرت ہوئی کہ اتنی چھوٹی سی بات اس کی سمجھ میں نہ آئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے خیالوں کے ریلے نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ اس میں دور بہت دور تک بہتا چلا گیا۔
پچھلے چند دنوں سے اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات اٹھ رہے تھے اور وہ انگاروں پر لوٹتا رہا کہ ایسی کونسی تدبیر اختیار کر ے کہ خاصی رقم بڑی آسانی کے ساتھ ہاتھ میں آسکے ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کرے بھی تو کیا کرے ۔؟
آخر کافی سوچ و بچار کے بعد اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، جو اس سے قبل اس نے سوچی تھی اور نہ ہی چاہی تھی۔ مگر دوسرے پل میں اس کا ضمیر چیخ اٹھا…
’’ چھی ! چھی! تو بہ!توبہ! … یہ کیسی واہیات ترکیب سوچنے لگا ہے تو … ایسا کرنا خلاف مذہب اور انسانیت کے اصولوں کے منافی ہے۔‘‘
اس کے منہ سے کوئی بات نکل نہ سکی ۔ اپنے آپ کا بھر پور جائز ہ لیتے وہ پھر سے بڑ بڑاتا رہا۔
’’ کہیں تیر ا دماغ تو چل نہیں گیا ہے کہ بہکی بہکی باتیں سوچنے لگا ہے تو۔‘‘
یہ سوچ کر اس کا چہرہ مرجھا گیا ۔ ڈر و خوف سے سارا و جود سہم گیا اور آخرت کے تصور سے ایک انجانا سا خوف اس کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔ کچھ دیر تک وہ اپنے اندر اٹھتے ہوئے طوفان پر قابو پانے کی سعی کرتا رہا۔جب کوئی بات حل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی تو مایوس ہو کر زیر لب بڑبڑانے لگا…
’’ مجھے اب کوئی ترکیب ڈھونڈنا پڑے گی ورنہ یہ آفت ایک نہ ایک دن میری جان کھا جائے گی۔ آخر کب تک میں گھر کی بربادی پر ماتم کر تار ہوں…‘‘
وہ اپنے من کو شانتی دینے کے لئے دھیرے دھیرے اپنی انگلیاں بالوں میں ڈال کر سر کو کھجلانے لگا اور آنکھیں بند کئے ذہنی کشمکش سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ۔ اس طرح کچھ دیر تک اس کی الجھن ختم تو نہیں ہوئی البتہ کچھ ماند ضرور پڑ گئی۔
آج اچانک نہ جانے اس پر کونسا بھوت سوار تھا جو کسی نہ کسی بہانے اسے اپنی سوچی ہوئی ترکیب آزمانے پر بار بار اُکسا رہا تھا، جب کہ اس نے اسکو اپنے ذہن سے جھٹک دیا تھا مگر وقت کی گردش اور حالات کے تھپیڑوں نے اس کے وجود کو چاٹ کر اندر ہی اندر کھوکھلا کردیا تھا۔ ابھی چند منٹ افراتفری میں گزرے کہ اچانک بے بس ہو کر اس نے نئے سرے سے دوبارہ اپنی سوچی ہوئی ترکیب پر سوچنا شروع کیا اور آخر سمجھاتے ہوئے اپنے دل کو منالیا۔
’’یہ دنیا کسی جہنم سے کم نہیں ۔ آخر یہ دنیا تو فانی ہے ۔ موت کا ایک دن معین ہے چاہئے خودکشی کرے یا قدرتی موت مرے ۔ ایک دن سبھوں کو مرنا ہے ۔ آج مرے یا کل ۔ بات ایک ہی ہے ۔ میں نے کونسا شوق پال رکھا ہے۔ میرے حالات ہی ایسے ہیں کہ جو مجھے ایسا کرنے پر اُکسا رہے ہیں۔ باقی اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ۔ وہ بڑا رحیم و کریم اور گناہوں کو بخشنے والا ہے۔‘‘
یہ سوچ کر اس کے دل کو تھوڑی سا سکون ملا۔ چہرے پر پھیلی اداسی چند لمحوں میں دور ہوئی اور جو آنکھیں ویران اور پرنم ہوئی تھیں،فرط مسرت سے پھیل گئیں ۔ اسے شادمانی سی محسوس ہونے لگی۔ اسے لگا کہ اس کے وجود میں جو خلا تھا وہ پُر ہو گیا۔
گزشتہ بیس سالوں سے پورا شہر فساد کی آگ میں جل رہا تھا۔ کب کیا ہوگا کہ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ پھر جب کہیں نہ کہیں کسی نہ دن شہر یا ملحقہ بستیوں میں تصادم آرائیوں کی وارداتیں رونما ہو تی تھیں تو اُن تصادموں میں بہت سی انسانوں کی قیمتی جانیںچلی جاتیں اور کچھ گولیوں کے تبادلے میں بُری طرح گھائل ہوجاتے ۔ جنہیں انور علی کو اپنی ایمبولنس گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے جانا پڑتا ۔ کبھی کبھی وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں سے گزرتے موت کے منہ سے بچ کر نکل جاتا ۔ ایسے میں بسا اوقات اسے لگتا تھا جیسے ماں کی کوکھ سے دوبارہ جنم لیا ہو۔ انور علی کو ایسی صورتحال سے اکثر واسطہ پڑتا تھا۔
مارے خوف سے گاہے گاہے نیند میں عجیب عجیب سے خواب آتے رہتے اور وہ دل تھا م کر رہ جاتا ۔ ابھی اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہ ہوا جب اس نے رات کے آخری پہر ایک ایسا خواب دیکھا جس نے اس کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس کے اوسان خطا ہوئے تھے۔
اسے یاد آیا۔
ایمبولنس گاڑی میں زخمیوں کو لے کر وہ سڑک پر جارہا تھا ۔ اچانک سڑک پر دو نامعلوم بندوق بردار کہیں سے نمودار ہوگئے اور گاڑی کو گھیرے میں لے کر بے تحاشہ گولیاں برسانے لگے ۔ ایک گولی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر سیدھے اس کی کنپٹی کو چھو کر گزر گئی جس سے ہلکی سی خراش آ گئی۔اس کے منہ سے چیخ نکلی۔ جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی تو خوف کے مارے دل دھک دھک کر رہا تھا اور وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔ پھر زور زور سے بد بدانے لگا۔
’’ توبہ! توبہ! کیسا منحوس خواب تھا۔ کتنا ڈرایا مجھ کو کہ میری جان نکل ہی گئی۔‘‘
پھر چور نگاہوں سے پاس پڑے بستر پر اپنی شریک حیات کی جانب دیکھا جو نیند میںمست زور زور سے خراٹے لے رہی تھی۔
اتفاق سے ایک دن شہر کی ایک ملحقہ بستی میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپ شروع ہوئی ۔ دراصل فورسز نے کسی مخر کی اطلاع پر اس بستی کا محاصرہ کر لیا۔ یہ دیکھ کر جنگجوئوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنچانے کے لئے بندوق کے دہانے کھول دئیے ۔ شام تک دونوں جانب سے ایک دوسرے پڑتا پڑ توڑ گولیاں برسانے کا عمل جاری رہا۔
ہر طرف ایک انجانا سا خوف منڈ لارہا تھا ۔ ڈر کے مارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے رہے کیونکہ باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا ۔ سڑکیں سونی اور گلیاں ویران پڑی تھیں۔
بتایا جاتا کہ جنگجوئوں نے بستی میں ایک گھر میں پناہ لی ہے ۔ نہ جانے کتنے لوگ ہیں وہ ؟ کسی کو معلوم نہ تھا اور ان کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ البتہ رات بھر گولیوں کی صد ائیں گونج رہی تھیں ۔ جس نے سارا ماحول پر خوف کا عالم برپا کر رکھا تھا۔
جب دونوں جانب سے گولیوں کی گن گرج تھم گئی تو فورسز نے دوسرے دن پوٹھتے ہی اس گھر پر ہلہ بول دیا اور آتشیں گولے داغ کر اس کو خاکستر کر دیا ۔ بعد میں معلوم ہو گیا کہ اس کمین گاہ میں جو دو عسکریت پسند نوجوان چھپے تھے ، ان میں ایک بہت سرگرم اور نامور، جس کے زندہ پکڑنے یا مارنے پر حکومت نے پانچ لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا ۔
اس مڈ بھیڑ میں فورسز کے تین اہلکار بھی ہلاک ہوچکے تھے اور چار کی حالت نازک بنی ہوئی تھی۔ لہٰذا انہیں اسپتال لے جانے کی اشد ضرورت تھی۔ یہ کام انور علی کے سپرد کیا گیا جو وارِدات کی جگہ پر تیار کھڑا تھا۔
انور علی اپنی ایمبولنس گاڑی میں ان زخمیوں کو لے کر اسپتال کی اور جارہا تھا ۔ آج وہ برسوں کے بعد خلاف توقع کافی مطمئن اور سمارٹ لگ رہا تھا۔ ایک عرصہ سے اس نے اپنی ترکیب کا جو خاکہ ترتیب دے رکھا تھا ۔ موقع پاتے ہی وہ اس میں اپنی پسند کا رنگ بھرنے کے لئے پر تول رہا تھا۔ راستے بھر وہ سوچتا رہا ۔ کیا پتہ آج کے بعد اب یہ موقعہ اس کی زندگی میں آسکے۔کیوں کہ وہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں گھر جارہا تھا۔ اس لئے اسے کچھ کرنا چاہیئے۔
راستے میں اس نے تہیہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو۔ وہ اپنے ارادے سے باز نہ آئے گا اور اگلے موڈ پر پہنچ کر اپنے منصوبے کو انجام دے گا ۔ اپنے فیصلے پر اسے ذرّہ بھر افسوس نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی جنت و جہنم کے ڈر سے وہ ہر اسان و پریشان تھا۔ اس کی دھنستی ہوئی آنکھوں میں بس ایک وحشیانہ چمک تھی اور دل میں منزل پانے کی جستجو…!
پھر جیسے ہی وہ اس موڑ کے قریب آگیا جو دو سو گز کی مسافت پر اس کی منزل کا آخری پڑائوتھا ۔ یکایک اس کے دماغ میں خیال آیا اور اسے لگا جیسے اس کی نگاہ سامنے سڑک کے کنارے ایک بھاری چٹان پر جاٹکی۔ جس کی دوسری جانب ایک گہری کھائی تھی۔ اتفاق سے گاڑی اسی چٹان سے ٹکرائی تھی اور ٹکراتے ہی کئی جھٹکے کھا کر ایک بڑے درخت سے جالگی ۔ ایسے میں کیبن کادروازہ کھلا اور وہ کھلے ہوئے دروازہ سے باہر ہوا میں تیرتے ہوئے چارو ں شانے چت ہوکر سڑک پر آگرا۔ ادھر ایمبولنس گاڑی درخت سے ٹکراکر گہرے گڈھے میں جاگری ادھر اس کا بدن کا دھڑاک سڑک پر اور کٹاہوا سر ٹوٹی ہوئی کمند کی طرح پاس ندی میںجاگرا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ بھو نچکا سارہ گیا اور بدن پسینہ سے تر ہوگیا تھا۔
ابھی وہ اپنی سوچوں اور خیالوں کے قفس میں پھڑ پھڑ ا رہا تھا کہ اچانک اس کی آنکھوں میں زخمی نو جوانوں کے چھوٹے چھوٹے معصوم ہنستے مسکراتے چہرے کلکاریاں کرتے ہوئے دکھائی دئیے یہ دیکھتے ہوئے اس کا دل بھر آیا اور چہرہ مغموم پڑ گیا ۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر جونہی اس نے بڑی عجلت گیئر بدل کر اپنا دایاں پائوں بریک پرجمادیا تو گاڑی قابو میں آنے کی بجائے آگے نکل کر ٹھیک اس مقررہ چٹان سے ٹکراگئی جسے اس نے اپنی سوچ میں نشانہ بنائے رکھا تھااور اس کی ترکیب کا آخری کلائمیکس تھا۔
کرنا خدا کا… دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہی جھٹکے میں گاڑی الٹ گئی اور اس کا ہینڈل اس کے سینے میں سیدھے جاگھسا۔ اتنا خون بہہ نکلاکہ اس کا بدن خون سے لت پت ہو کر اب وہ موت اور زندگی کے درمیان لٹکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر بھی شاید اس میں بچنے کی رمق ابھی کچھ باقی دکھائی رہے رہی تھی۔
کیا پتہ وہ بچ بھی پائے گا؟
زندہ رہا تو اس کی سوچی ہوئی ترکیب پر پانی پھیر گیا اور شاید دوبارہ اُسے کوئی اور دوسری ترکیب سوچنا پڑے گی یا نہیں …… !!!
���
رابطہ؛ٹینگہ پورہ نواب بازار سری نگر
موبائل نمبر؛9858989900