ٹوئیٹر پر ایک ٹوئٹر ہینڈل کی جانب سے کشمیری خواتین کے متعلق تذلیل آمیز تاثرات پوسٹ کرنے کےخلاف سوشل نیٹ ورکنگ سے جڑے لوگوں اور عوامی حلقوں میں زبردست غم وغصہ پایا جا رہا ہے کہ کس طرح انتہا پسند نظریات کے حامل بددماغ لوگ کشمیری خواتین کو درپیش مصائب اور مشکلات پر خوشیوں کا اظہا رکررہے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مذکورہ شخص کشمیری پنڈت طبقے سے تعلق رکھتا ہے، جو اجتماعی طور پر بذات کود اُس صورتحال کا گزیدہ ہے، جس کی وجہ سے کشمیر گزشتہ تین دہائیوں سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ظاہر بات ہے کہ من حیث الجموع کوئی قوم ایسی بد دماغی اور انتہا پسندی کو قبول نہیں کرسکتی، لہٰذا کشمیری پنڈتوں کا طبقہ بھی اسے قبول نہیں کرسکتا ہے، تاہم انکی اُس قیادت کی جانب سے ، جو اکثر میڈیا میں چھائے رہتے ہیں، کی طر ف سےردعمل آنا ابھی باقی ہے۔ بہرحال ریاستی پولیس نے جس مستعدی کے ساتھ اس بدماغ ٹوئیٹر ہنڈل کےخلاف کیس درج کر لیا ہے، اُسکی عوامی حلقوں کی جانب سے بھر پور سراہنا کی جارہی ہے، اور اسکے ساتھ ساتھ یہ امید کی جارہی ہے کہ پولیس اس کیس کی تفیش ترجیحی بنیادوں پر ہاتھ میں لیکر ایسی انسانیت سوز زہنیت رکھنے والے شخص کو زیر تعزیر لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگی تاکہ یہ ذہینت ایک روایت کی صورت اختیار نہ کرسکے۔چونکہ عام حالات میں یہاں معاملات کو طول دیکر سردخانوں کی نذر کرنے کی روایت موجودرہی ہے، جسکی وجہ سے تفتیشی اداروں کی اعتباریت اکثر موضو ع بحث بنی رہتی ہے لہٰذا یہ اُمید کی جارہی ہے کہ پولیس اس معاملے کی فوری تحقیقات کرکے صنف نازک کے تئیں بدترین جرم کے مرتکب ایسے شخص کو کیفر کردار پہنچانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لے گی۔ اس طرح ایسی ذہینت رکھنے والے طبقے کے حوصلے ٹوٹ جائینگے اور اُنہیں دوبارہ اس طرح کی حرکت کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔ بصورت دیگر ایسے عناصر کے عزائم مزید جارحیت اختیار کرکے انسانیت کے تانے بانے بکھیرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک خوش آئند اقدام ہے کہ ڈائمنشنیز انٹرنیشنل نامی کمپنی ، جس میں یہ بددماغ شخص نوکری کرر ہا تھا،نے انسانیت دشمن نظریات رکھنے پر اسے نوکری سے برطرف کر دیا ہے۔ اس ادارے نے تنازعات کو پُر امن طریقوںپر حل کرنے کےاپنے نظریات کا اظہار کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ انسانیت کو تار تار کرنے کے اس نوعیت کی فرقہ وارانہ سوچ کو نہ تو تسلیم کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسا کرنے پر کسی کو بخش سکتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں انسان دوستی اور اعلیٰ انسانی نظرئیات کے فروغ کی سوچ موجود ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور ہمارے ارباب حل و عقد کو اس سوچ سے تحریک حاصل کر ایسے عناصر کی سرکوبی کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا چاہئے۔ چونکہ آج کل جموںوکشمیر کے حوالے سے مختلف میڈیا چینلوں پر بھی ایسے مباحثے چھیڑے جاتے ہیں، جو جذبات کو انگیخت کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت ایسے عناصر کی کوششوںکو ناکارہ بنانے میں اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے۔ مذاہب اور طبقوں کے درمیان نفرتوں کو فروغ دینے والے لوگ انسانیت کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے اور خاص کر خواتین کے خلاف ایسے حالات میں بدگوئی کرنا، جب مرکزی حکومت کی جانب سے سارے ملک میں خواتین کی با اختیاری کے لئے منظم مہم چلا رہی ہے، ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ مرکزی ور یاستی حکومتوں کو ایسے عناصر کےخلاف منظم اور متحد ہو کر کاروائی کرنی چاہئے، جبھی خواتین کو عزت واحترام سے ہمکنار کرنے کے سرکاری وعدوں کا ثبوت مل سکتا ہے۔
ٹوئیٹر پر بدگوئی……..سنجیدہ کاروائی کی ضرورت
