ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی مخالفت کیونکر؟

   سرینگر// عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو ریاست کی صورتحال کے حوالے سے غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ان پر الفاظ کا کھیل کھیلنے کا الزام لگایا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اسمبلی کو تحلیل کئے جانے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹا کر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے نام نہاد گرینڈ الائنس کے پیچھے کارفرما اصل حقائق کو بے نقاب کردیا ہے۔ انجینئر رشید نے کہا کہ چونکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے دفعہ35-Aاور370کے دفاع کے نام پر پہلے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور پھر اتحاد کرکے سرکار بنانے کی کوشش جتلائی لیکن حکومت سازی کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش تک نہ کرنے سے انہوں نے ان دفعات کے تئیں جھوٹی ہمدردی اور سنجیدگی کو بے نقاب کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان پارٹیوں نے بھاجپا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے تحت اسمبلی کو تحلیل کراکے گورنر راج کو دوام بخشا ہے اور جب جنوری میں دفعہ35Aکے کی سماعت ہورہی ہوگی اسکے دفاع کیلئے ریاستی عوام کی چنندہ سرکار کی بجائے گورنر انتظامیہ سامنے ہوگی جسکا نتیجہ نا قابل فہم نہیں ہو سکتا ہے۔انجینئر رشید نے کہا کہ حکومت نہ بناکر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے سپریم کورٹ کے سامنے ریاستی عوام کی خواہشات کی ترجمانی کرنے کا موقعہ کھو دیا ہے اور دفعہ 35Aکو نئی دلی اور جموں کشمیر میں اسکی ایکسٹنشن ونگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔انجینئر رشید نے مزید کہا کہ محبوبہ مفتی کے اس بیان کی وضاحت ہونی چاہیئے کہ سپریم کورٹ کے بجائے جس عوامی عدالت میںوہ اکیلے جارہی ہیں یا پھر نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا گرینڈ الائنس بھی انکے ساتھ ہوگا۔عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمر عبداللہ نے ناروے کے سابق وزیر اعظم کے دورۂ کشمیر کی مخالفت کرکے اور اس حوالے سے نئی دلی کو کٹہرے میں لاکر کس کا کام آسان کرنا چاہا ہے۔انجینئر رشید نے کہا’’ہر کشمیری کو ٹریک ٹو ڈپلومیسی یا مسئلہ کشمیر کے کسی بھی محاذ پر ہونے والی کسی بھی سنجیدہ کوشش کا خیر مقدم کرنا چاہیئے کیونکہ یہ کشمیری ہی ہیں کہ جو دہائیوں سے مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔عمر عبداللہ نے ناروے کے وزیر اعظم کے جموں کشمیر کے دونوں اطراف کا دورہ کرنے پر سوال اٹھاکر نہ صرف ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ ایسا کرکے انہوں نے بھاجپا کو دفاعی پوزیشن کی طرف دھکیل دیا ہے اور ہندوستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں کو بھاجپا کو گھیرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے جسکے نتیجے میں کشمیر مسئلہ کی کوششوںسے بھاجپا پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔حیرانگی کا معاملہ ہے کہ ناروے کی سرکار کی کوششوں کا خیرمقدم کرنے کی بجائے عمر عبداللہ نے ،محض دلی میں کچھ حلقوں کی ہمدردی پانے کیلئے،کشمیر دشمن طاقتوں کو گولہ بارود مہیا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔انجینئر رشید نے مزید کہا’’بد قسمتی کی بات ہے کہ نیشنل کانفرنس نہ اٹانومی کی بحالی کے حوالے سے سنجیدہ ہے،حالانکہ یہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے،اور نہ ہی ناروے یا کسی اور کی طرفسے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کی جانے والی کوششوں کو ہی کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر نیشنل کانفرنس واقعہ کشمیریوں کو درپیش مصائب کو ختم کرنے میں رول ادا کرنے کی متمنی ہوتی تو اسے ناروے کی کوششوں کا خیرمقدم کرکے اس طرح کی کوششوں کو کامیاب کرنے کا ماحول بنانے میں مدد دینی چاہیئے تھی۔