دارالحکومتی شہروں جموں اور سرینگر سمیت پورے جموںوکشمیر میں ٹریفک نظام کی بدحالی ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔ ٹریفک نظام کی تباہی اور بربادی کے مسائل وہی ہیں ، جو کئی سال پہلے تھے لیکن ان مسائل کو مکمل طور حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ سڑکوں کی تنگ دامانی، گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ، عوام کی جانب سے قوانین و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں، محکمہ ٹریفک میںا نفراسٹرکچر اور افرادی قوت کی قلت جیسے مسائل کو حل کرنے کی جانب جب تک توجہ نہیں دی جاتی ، ٹریفک ہفتے تو کیا ’ ٹریفک سال ‘ منانے سے بھی کچھ نہیں بدلے گا بلکہ مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتے جائیں گے۔ پہلے تو ٹریفک جامنگ کا مسئلہ صرف شہر کے بالائی علاقوں تک محدود تھا ، اب ہائی ویز پر تمام قصبہ جات میں ٹریفک جامنگ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔
بدقسمتی سے حکومتی سطح پر اس مسئلے کے تئیں اتنی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جارہی ہے ، جس کا یہ مسئلہ متقاضی ہے۔چند سال پہلے جموںوکشمیر سرکار نے ٹریفک نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کیلئے اسمبلی میں ایک ’’ہائوس کمیٹی ‘‘ قائم کی تھی۔ اس کمیٹی نے کئی ماہ تک کی تحقیق اورعرق ریزی کے بعد حکومت کو ٹریفک نظام ٹھیک کرنے کیلئے جو تجاویز پیش کیں ان میں ’’ٹریفک انضباطی اتھارٹی ‘‘ قائم کرنے کی صلاح بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے پورے جموںوکشمیر میںمناصب فاصلوںپر ٹریفک پولیس چوکیاں قائم کرنے اور حساس مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے ، محکمہ ٹریفک کو مزید افرادی قوت اور جدید مواصلاتی نظام سے لیس کرنے ، ڈرائیونگ سیکھنے کیلئے جدید سکول قائم کرنے جیسی سفارشات حکومت کو پیش کی تھیں۔متمدن معاشروں میں عوامی مسائل کے حل کیلئے ماہرین کے صلاح و مشوروں کو عملانے میں کوئی تاخیر نہیں کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں کروڑوں روپے کے صرفے پر کمیٹیاں قائم کرانے اور تحقیق کرانے کے بعد ان کمیٹیوں کی رپورٹوں کو دھول چاٹنے کیلئے الماریوں میں ڈال دینے کی روایت ہے۔ ٹریفک نظام کے بارے میں متذکرہ ہائوس کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کا بھی یہی حشر ہونا تھا اور یہی ہوا۔اندازہ کیجئے کہ جہاںجموںوکشمیر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں کا اضافہ ہوجاتا ہے وہیں صرف سرینگر اور جموں شہروںمیں روزانہ 300سے زائد نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے جس کامطلب یہ ہے کہ ہر ماہ صرف ان دودارالحکومتی شہروںمیں9ہزارگاڑیوں کا اضافہ ہوجاتا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹریفک دبائو کس قدر بڑھ گیا ہوگا۔دونوںشہروں کی وسعت میں اگر چہ کافی اضافہ ہوا ،نئی کالونیاں وجود میں آگئیں، نئی نئی بستیاں آباد ہوئیں لیکن سڑکیں وہی رہیں جو کئی دہائیاں قبل تھیں۔ جہاں پہلے دنوں میںان شہروں کی تنگ سڑکوں پر اکا دکا پرائیویٹ اور مسافر گاڑیاں چلتی تھیں وہاں اب کئی جگہوں پر سڑک پار کرنا بھی مشکل بنتا جا رہا ہے ،اگرچہ فلائی اوور بھی بن گئے لیکن ٹریفک جام کے جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔عام لوگوں کا کہنا ہے کہ گاڑی اب ایک لازمی ضرورت بن گئی ہے۔المیہ یہ ہے کہ ٹریفک قوانین و ضوابط کی یہ خلاف ورزی محکمہ ٹریفک کی ناک کے نیچے ہورہی ہے۔ لیکن اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی محکمہ ٹریفک ایسے افراد کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سرینگراورجموں شہروں میں ٹریفک نظام کی ابتر حالت کی ایک اہم وجہ یہاں کے فٹ پاتھوں پر چھاپڑی فروشوں اور دکانداروں کا ناجائز قبضہ ہے۔شہر کے تما م کاروباری علاقوں میں یہ صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔فٹ پاتھوں پر ناجائز قبضے کی وجہ سے راہگیر فٹ پاتھوں کے بجائے سڑکوں پر چلنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے ٹریفک کو سسک سسک کر چلنا پڑتا ہے۔اس مقام پر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتاہے کہ کہیں اس سارے عمل سے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والوں کے مفادات تو نہیں جڑے ہیں۔ جستہ جستہ اس کی مثالیں روزمرہ بنیادوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں ،لیکن جس پیمانے پر فٹ پاتھوں پر قبضوں کی بلواسطہ حوصلہ افزائی ہورہی ہے ، اْس سے یہ عندیہ ملتاہے ،کہیں نہ کہیں دونوں کے مفادات گڈمڈ ہورہے ہیں ، جو سماجی مستقبل کے لئے نہایت ہی نقصان رساں ہے، کیونکہ ہرایسا متواترعمل ،جس سے حکومت اپنی آنکھیں موندلے،ایک غیر تحریری قانون کا روپ اختیار کرتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر مسئلے کا کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جاسکتا ہے لیکن اسکے لئے احساس ذمہ داری کا ہونا ضروری ہے۔ کیا ٹریفک کے سنگین بحران کو حل کرنے کیلئے متعلقہ ادارے احساس ذمہ داری کا ثبوت دیں گے؟