ریچارڈ مل نکسن(Richard Mill Nixon) امریکا کے سینتالیسویں صدر ہ چکے ہیں۔ اُن کی صدارتی مد ت۱۹۷۴-۱۹۶۹ ء تک تھی۔ موصوف سے ایک اہم سیاسی نظریہ منسوب کیا جاتا ہے، جسے ’میڈ مین تھیوری ‘ (madman theory) کہا جاتاہے۔گو کہ یہ کوئی مستقل بالذات فلسفہ نہیں ہے، لیکن اس کو رچرڈ نکسن نے اختیار کیا تو ماہرین ِسیاسیات نے اسے ایک نظریہ جتلانا شروع کر دیا۔ اس نظر یہ کا لب لبا یہ ہے اپنے حریف یا کسی کمزور کو دیوانہ ٹھہرایا جائے، اس کی موقع بے موقع بے حد نقطہ چینی کی جائے، اس کے خلاف پے درپے بیان دئے جائیں، اس کے خلاف بے تحاشہ پروپگنڈا کیاجائے، اس کے خلاف رائے عامہ کو بہکایا جائے وغیرہ وغیرہ۔انہی مطالب ومقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے بعد اپنے دور اقتدار میں نکسن اور اس کی انتظامیہ نے حریف کمیونسٹ بلاک ،خاص کر اُن کے چوٹی کے رہنمائوں کو چاروں شانے چت گرانے کے لئے یہی ابلیسی فلسفہ اپنایا تاکہ وہ غیر معیاری سوچ اور سیاسی بچگانہ پن اختیار کرجائیں۔ اس فلسفے کی رُوسے حریف ومخالف کے اذہان میں اس قسم کے شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں کہ وہ امریکا کے خلاف کچھ بُر ا سوچنے سے پہلے سو بار یہ سوچے آیا اُس کا ردعمل صحیح ہے یا غلط۔ اب چونکہ یہ فلسفہ امر یکہ کی سرکردگی میں عالمی سیاست کا چہرہ بناہوا ہے ،اس لئے اب کسی حریف یا مدمقابل ملک وقوم کے خلاف یہ فارمولہ آزماتے ہوئے بہت سارے وسائل اور ذرائع بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ معتوب قوم کے خلاف بے سروپا جھوٹ کی تشہیر کے لئے ذرائع ابلاغ کا بے دریغ استعمال اور ساتھ ہی ساتھ تلخ تیکھی سیاسی بیان بازیاں اور ڈراؤنی دھمکیاں دیناوقت کے دجالی جعل سازوں کا بہت ہی محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ اس منظم نفسیاتی جنگ سے اپنے حریف کے قلوب و اذہان میں یہ مفروضہ پیوستہ کیا جاتا ہے کہ اس کی بساط اب اُلٹنے والی ہے ، وہ بالغ نظر نہیں ، اس کی کوئی حیثیت وا ہمیت نہیں ، اس کی حکمت ِعملی میں دم نہیں۔ بالفاظِ دیگر دجالی قوت اپنے حریف یا شکار کو سیاسی لا ٹھی چارجوں اور سفارتی کذب بیانیوں سے دنیا میں failed state یعنی مدفضول کے طور پیش کرتا ہے۔ ٹرمپ اسی فارمولے کو شدومد سے اسلام آباد کے خلاف آزما رہاہے مگر اس بار پاکستان نے’’ڈو مور ‘‘ کا جواب ’’نو مور‘‘ سے دے کر امریکہ کو دال آٹے کے بھاؤ بتائے ہیں ۔ بہر حال اس فسطائی یا گوبلزی طرزعمل سے بدنصیب قوم عالمی برادری سے الگ تھلگ ہو جاتی ہے ، اس پر بدنامی کاٹھپہ لگ جاتا ہے، اُس کی بلاوجہ تھو تھو ہوتی ہے ،اس پر معاشی بندشیں عائد کی جاتی ہیں، اس کی ترقی میں رکائوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں ،اس کے اندر اور باہر زرخرید ایجنٹوں کا ٹولہ کھڑا کر دیا جاتاہے ۔اس ساری کارستانی کا لیکھا جوکھا بالعموم یہ ہوتا ہے کہ کم نصیب قوم اندر ہی اندر گھٹتی چلی جائے تاکہ اوروں کے اشاروں پر ناچنا اس کا مزاج ثانی بن جائے۔ واضح رہے کہ اس ساری پراسس کے اندر حق شناسی یا روشن ضمیری کی کوئی گنجائش نہیں رکھی جاتی ہے بلکہ ہر فورم پر سچ کو بالائے طاق رکھا جاتاہے۔ یوں دنیا کی توجہ بس ایک مفروضے کے نذر کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اس قسم کے حملے صرف وہی ممالک اور اقوام بول سکتے ہیں جن کے پاس سیاسی بالادستی کے ساتھ ساتھ میڈیائی پر اچھا خاصا کنٹرول بھی ہو۔
سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مغرب نے بالعموم اور امریکا نے با لخصوص مذکورہ بالا شیطانی پالیسی خاص کر یہاں کی اسلامی تحریکات کے خلاف شروع کر دیا۔منصوبہ بند و غیر منصوبہ بند طریقے سے اس پالیسی کو مختلف النوع اوچھے مقاصد حاصل کر نے کے لئے استعمال میں لایا گیا۔ پچھلی ایک صدی کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالئے تو اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا کہ جانے انجانے مسلم ممالک بھی اپنے طور مغرب کی اسی نامعقول پالیسی سے لڑ تے جا رہے ہیں، خاص کر ایسے ممالک جہاں ابھی مذہبی رجحانات باقی ہیں اور مغرب بیزاری کا جذبہ موجود ہے۔ بہر صورت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی پالیسی متذکرہ نظریے کے گرد گھومتی ہے۔ امریکہ کا صدر بننے کے بعد موصوف کی مسلم مخالف سیاسی بیان بازیوں پر اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو اس نظریے کی عملی صورت بالکل نمایاں ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کا معیارِگفتار اس حد تک گرا کہ جہاںشمالی کوریا کے صدر کو’ ’میڈ مین اورمیزائل مین‘‘ کے جھڑکی سے پکارا ، وہاں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو ’’خود ساختہ سلطان‘‘ کے نام سے موسوم کیا،جب کہ روس کے صدر پوتین کو ’’نیوکلیائی چھپا رستم‘‘ کہہ کر اس کا مضحکہ اُڑا یا ۔
موجودہ دور میں اس بات کا فی الحال دوردور بھی کوئی بھی امکان نظر نہیں آتا کہ کوئی کیمیائی جنگ کہیں چھڑ جائے ۔ یہ سخت ترین قدم نہ امریکا اٹھا سکتا ہے ، نہ ہی شمالی کوریا اورنہ ہندوپاک وغیر ہ ۔ ایک ملک میں جوہری جنگ سے پوری دنیائے انسانیت پر کیا کیا اثرات مرتب ہو ں گے ، اُ س امر واقع سے دنیا کا ہرباشعور با خبر ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ولیج بنی ہے ،اس لئے آج کی تاریخ میں نیوکلیائی جنگ محض دو ملکوں کی جنگ نہیں رہ سکتی ، وہ اقوامِ عالم کو آناًفاناً اپنی گرفت میں لے سکتی اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی تباہیاں کسی قیامت کبریٰ سے کم نہ ہوںگی ۔ سوال یہ ہے کہ پھر امریکا دنیا کی کمزور قوموں کو کاہے کو جنگ وجدل سے ڈرا دھمکارہاہے ؟ بہ نگاہ ِ تجزیہ دیکھئے تو دنیا کا سپر پاور اپنی سیاسی بالادستی ، عالمی پولیس مین شپ،غنڈہ گردانہ چودھراہٹ اور کیمیائی طاقت کے زعمِ باطل میں چلتے چلتے اب سیاسی ، معاشی، سفارتی طور کھوکھلا ہوچکاہے ،اس کے اثرورسوخ کی دوکان سمٹ رہی ہے ( جیسا کہ تنازعہ ٔیروشلم کے معالے پر دنیا کی تمام اقوام بشمول انڈیا نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے میں واضح طور ثابت کردیا کہ انکل سام کوئی مجازی خدا نہیں ،اس کا کروفر اب قصہ ٔ پارینہ ہے ، یہ اپنی آخری سانسیں بلکہ ہچکیاںلے رہا ہے۔ ہاں ، رقص بسمل کے طوراب اس کے پاس ایک ہی کام بچاہے کہ یہ جنون کی زبان میں باتیں کرتا رہے ، کمزورقوموں کے خلاف غراتارہے ، اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے اپنی حریفوں کے خلاف وہی فلسفہ عملاتارہے جس کی طرف اس کالم کی ابتداء میں اشارہ کیا گیا ۔ دوایک سال سے ٹرمپ اسی نظریۂ ضرورت کی آغوش میں پلی بڑھی سیاست وسفارت سے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہاہے ، پاکستان کے خلاف الفاظ کی جنگ اور بھارت اور اسرائیل کی پیالہ برداری اس کا قومی ترانہ بناہوا ہے ۔ امریکی صدر کی طفلانہ بیان بازیوں اور مجنونانہ سیاست کاری سے صاف لگتا ہے کہ امریکہ بھی اپنے ایک گورباچوف کا متلاشی ہے جو اس ملک کا بڑے وقارا ور حقیقت پسندی سے وہی حشر کرڈالے جو سوویت یونین کا گورباچوف نے کیا اور دنیا کی اس دوسری طاقت کو خارجی وداخلی حالات کے سبب توڑ ہی ڈالا۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کی شخصیت میں نجی زندگی کی بھول بھلیوں ، نفسیاتی بیماریوں اور دماغی امراض کی کہانیاں اُسے جب مشکوک ٹھہراتی ہو ں تو دنیا کے واحد سپر پاور کا سٹیٹس تحلیل ہونے میں کاہے کو زیادہ دیر لگے گی ۔ شعور و آگہی اورپیش بینی کی نگاہ سے دیکھئے تو امریکہ خود اپنے کرتوتوں کے بوجھ تلے دبتا جارہاہے ،اس کا فکر وفلسفہ بھی ملبے میں بدل رہاہے ، اس لئے وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم یہ خبر سنیں گے کہ ا مر یکہ اپنے پیداکردہ حالات کی سونامی میں سر سے پاؤں تک ڈوب گیا ۔
…………………………..
ای میل [email protected]