اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قبلہ اول آج بھی کسی فاروق اعظم ؓ یا پھر کسی صلاح الدین ایوبی ؒ کا منتظرہے۔961 ق م میں حضرت سلیمان ؑ نے اس مسجد کی تعمیر و تجدید کی۔ اسی لئے یہود اسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔شاہ بابل بخت نصر نے ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 میں مسمار کیا اور ایک لاکھ یہود کو قید کرکے عراق پہنچایا۔کچھ مدت کے بعد جب حضرت عزیر ؑ کا وہاں سے گزر ہوا تو اس شہر کی بربادی دیکھ کر تعجب کرنے لگے کہ کیا یہ شہر پھر آباد ہو سکتا ہے؟ اسی اثنا میں اللہ نے ان کی روح قبض کر لی اور سو سال بعد جب انہیں زندہ کیا گیا تو انہوں نے اس شہر کو پھر آباد اور پر رونق دیکھا۔انشا اللہ اس گھر کی وہ روحانی رونق پھر پلٹ کے آئے گی!!! مگر اللہ کے دشمن یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے پیغمبروںؑ کے تئیں کیا گمان رکھتے ہیں ،وہ بھی ہمیں معلوم ہے۔نصاریٰ تو یہود کے پیغمبر حصرت عزیر ؑ خدا واسطے بیر رکھتے ہیں اور یہود نےتو نصاریٰ کے پیغمبر حضرت عیسٰی ؑ کی تنگ طلبی کی ہر ممکن ملعون و مذموم حرکت کی۔اس قدرر آپسی بغض و عناد اور نفرت وغیریت کے باوجود یہ دو قومیں امت مسلمہ کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹانے میں شانہ بہ شانہ مستعد بھی رہیں اور متحد بھی لیکن امت مسلمہ جسے اللہ نے چودہ سو سال پہلے یہ وعید سنا دی ہے کہ مسلمانوں سے کنارہ کرکےیہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ آج آپسی دشمنی ورقابت کو تقاضائےایمان سمجھ کر یہود و نصاریٰ کی دوستی میں گم گشتہ راہ ہیں اور لگتا ہے کہ گالے ڈوب رہے ہیں اور پتھر تیر رہے ہیں۔آج جب دنیا میں کسی بھی تصفیہ طلب مسئلے کی بات آتی ہے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ثالثی کا تذکرہ آتا ہے مگر تاریخ کے اوراق کو پلٹ کے دیکھئے تو دنیا کا سب سے زیادہ حل طلب دیرینہ مسئلہ فلسطین کا ہے اور یہ مسئلہ بھی اسی عا لمی تنظیم کا پیدا کردہ ہے ۔پہلی جنگ عظیم کے دوران جب انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر لیا تو جنرل اسمبلی نے کھلی دھاندلی سے کام لے کر اسے یہودیوں اور عربوں میں تقسیم کردیا اور چودہ مئی 1948 کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔اپنے جارحانہ عزائم کو جاری رکھتے ہوئے اور نصرانیوں کی پشت پناہی سے فی الحال اسرائیلی فلسطین کے اٹھہترفی صدعلاقوں پرقابض ہیں۔ فلسطین کے پشتینی باشندے مسلمانوں کی پانچویں نسل خیموں میں جوان ہورہی ہے اور عرب دنیا کے تیل کے سمندروں کے ملکیت کے ساتھ عیاشیوں میں مست ومحواور اپنی ذمہ داریوں سے بھی غافل ہیں۔آزمائشوں اور ابتلاؤں کےنہ تھمنے والے اس سیل رواں کو آخر امت مسلمہ کہاں روک سکتی اور اس میں وہ قوت مدافعت کہاں پیداہوسکتی ہے جب ہماری روح و قلب مغربی تہذیب کی غلام ہوچکی ہے ، جب کہ حال یہ ہے ؎
ہرروز سورج یہ پیغام ہمیں دیتا ہے
کہ مغرب کو جاوگے تو ڈوب جاؤگے
پوری دنیا کے اندر مسلمان قوم کا شیرازہ بکھرا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات اور تاریخ سے ہمارا اجتماعی تغافل ہے۔اُمت مسلمہ میں انا و لاغیری کے وبائی ا مراض نے مسلمانوں کے وجود کو جسد بے روح بنا کر رکھا دیا ہے۔دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی آج ذلت و نا کامی سے دوچار ہے۔قبلہ اول ہا تھوں سے نکل چکا ہے اور حاکم بدہن حرمین تک کے نشانے پرہیں۔امریکہ کے ابرہہ نے قبلہ اول کو یہودیوں کی راجدھانی قرار دے کرے پوری مسلم دنیا کی ناراضگی مول لی مگر کیا وہ اس ناراضگی اور شدید ردعمل سے بے خبر تھا؟نہیں بے خبر نہیں ،البتہ بے نیاز ضرور ہے۔اس سے بڑھ کر ہمارے ضمیر وایمان کو اورکس طرح للکارا جا سکتا ہے؟ اس قوم کے پاس سوائے احتجاج کے اور کون سی قوت ہے،سوائے اس کے ہم کہ عبد المطلب کی تقلید میں وقت کے ابرہہ سے کہیں کہ حرم القدس کی حفاظت اس گھر کا مالک کرے گا اور انشا اللہ آسمان سے ابابیل سنگریزے برسا کر با طل کی تکابوٹی کریں گے مگر کیا ہمارے پاس عبدالمطلب جیسا جرأت اظہار ہے ؟ جس دن بھی ہمار ے غیور وجسور نوجوان اپنی سوچ اور اپنےکو اسلامی سانچے میں ڈھالیں گے ،اسی روز ہماری عظمت رفتہ میں نئی روح پھونک دی جائے گی اور ہمارے اسلامی اخلاق اور خدا کے پسندیدہ طرز حیات سے عملاً اغیار کی صفوں میں اضطراب کی بجلیاں کوندجائیں گی۔اس ہدف کو پانے کے لئے ایمان وعمل ، وحدت افکاراور جدت کردار بنیادی ضروریات ہیں ۔ یہی چیزیں مسلمانیت کے فرض ِاعلائے کلمتہ اللہ کا نچوڑہے۔
رابطہ :نیل چدوس۔ تحصیل بانہال
فون نمبر 8493990216