سرینگر //عالمی وبا ء کورونا وائرس کے باعث جاری لاگ ڈائون سے ملک بھر کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر با لخصوص وادی میں ٹرانسپورٹ شعبہ مکمل طور پر مفلوج ہوگیا ہے۔بس سٹینڈوں اور اڈوںمیں مکمل ویرانی چھائی ہوئی ہے۔پچھلے دو مہینوں سے اسی طرح کی صورتحال پورے ملک میں ہے ۔البتہ جموں کشمیر کیلئے مال بردار گاڑیوں کو آنے جانے کی اجازت دی جارہی ہے جیسا سبھی ریاستوں کو بھی ہے۔ وادی کے نجی ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مجموعی طور پر ابھی تک اڑھائی سے 3 ہزار کروڑ کانقصان ہوا ہے اور اس شعبہ کے ساتھ منسلک 1لاکھ 80ہزار کے قریب ڈرائیور ، کنڈیکٹر اور مالکان کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس شعبہ کے ساتھ منسلک انجمنوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ٹرانسپورٹ شعبہ کی مکمل بحالی ناممکن ہے اور سرکار بھی ان کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے، یا کورونا لاک ڈائون جاری رہتا ہے تو ٹرانسپورٹروں کا دیوالیہ نکل جائے گا اور اس کے ساتھ منسلک ڈرائیور اور کنڈیکٹر آنے والے دنوں میں سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔شعبہ ٹرانسپورٹ مجموعی طور پر 5اگست 2019سے خسارے پر چل رہا ہے کیونکہ پہلے جموں کشمیر تنظیم نو قانون کی وجہ سے کئی مہینوں تک ٹرانسپورٹ بند رہا اور جب کھلا تو سردیاں شروع ہوگئیں تھیں جن میں بہت کم لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے اور اب جبکہ موسم بہار شروع ہونے جارہا تھا تو کورونا کا قہر نازل ہوا۔فی الوقت جموں کشمیر میں ٹیکسی سٹینڈ اور بس اڈے بند پڑے ہیں اور 56روز سے گاڑیاں کھڑی ہیں۔ گاڑیوں کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر جو دن میں چار سے پانچ سو روپے کما کر اپنے اہل وعیال کیلئے دو وقت کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے ،2ماہ سے بیکار بیٹھے ہیں۔ ٹرانسپورٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری شیخ محمد یوسف نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’ ان کی حالت سب سے زیادہ بدتر ہے ،کیونکہ ٹرانسپورٹ سروس مجموعی طور پر 5اگست سے بند ہے ،پہلے ہمیں 5اگست نے کہیں کا نہیں چھوڑا اور رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کشمیر وادی میں 60ہزار سے70ہزار گاڑیاں جن میں بسیں ، منی بسیں ، ٹرک ، ٹپر، ٹرالر ، سومو ، تویرا اور دیگر چھوٹی مال او ر مسافربردار گاڑیاں شامل ہیں، اپنے اپنے علاقوں میں بیکار بیٹھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فی گاڑی کے ساتھ تین افرا د منسلک ہیں، جس میں مالک، ڈرائیور اور کنڈیکٹر ہیں اور پھر انکے ساتھ تین کنبے اور ان کنبوں میں شامل اہل خانہ ہیں، جن کا روزگار گاڑی چلنے پرہی منصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان 60ہزار گاڑیوں کا تناسب نکالا جائے تو 1لاکھ 80ہزار کے قریب افراد فی الوقت متاثر ہیں اور وہ فاقہ کشی کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک نقصان کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق نجی ٹرانسپورٹ سیکٹر کو ابھی تک اڑھائی سے تین ہزار کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گاڑی مالکان کے ذمہ کروڑوں روپے کا قرضہ بھی ہے جو وہ دو ماہ سے دینے سے قاصر ہیں۔انکا کہنا ہے کہ وہ نہ تو ڈرائیوروں و کنڈیکٹروں کی تنکواہیں دے سکتے ہیں، جو باضابطہ طور پر ماہوار تنخواہ پر کام کررہے ہیں اور نہ بینکوں کے قسط ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے گاڑیوں کے 10ہزار سے50ہزار کا انشورنس کیا تھا، وہ بھی ہزاروں گاڑیوں کا ختم ہوا ہے۔ٹرانسپورٹروں نے 4مئی2020 کو ایک خطہ بھی گورنر انتظامیہ کو لکھا ہے جس میں انہوں نے امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرانسپورٹروں نے گورنر انتظامیہ کو لکھے خطہ میں مالی معاونت سکیم کے تحت ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی مالی مدد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ٹوکن ٹیکس کو 50فیصد کم کرنے اور پسنجر ٹیکس میں بھی کمی لانے کامطالبہ کیا گیا ۔معلوم رہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے جو ا عداد وشمار 2018تک دئے گئے ہیں ان کے مطابق جموں وکشمیر میں رجسٹرڈگاڑیوں کی کل تعداد 16,57,433ہے جس میں کشمیر وادی میں6,60,627 اور جموں میں 9,96,806گاڑیاں ہیں ۔ جموں وکشمیر میں اس وقت 13,008 بسیں رجسٹرڈ ہیں اسی طرح 19,092 منی بسیں ، 1,09,261ٹرک اور ٹرالر،45,623ٹیکسی ،65,992تھری ویلر،4,71,812 کاریں، 15،371جیپ گاڑیاں،8,77,700ٹو ویلراور39,574دیگر گاڑیاں شامل ہیں۔ محکمہ میں موجود زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں ایسی ہیں جو مال برداد مسافر براد چھوٹی بڑی گاڑیاں ہیںجن کے ساتھ براراست لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے ۔