ٓٓاَذان

صبح چاربجے کے قریب نینداوربھی پُرکیف ہوگئی تھی ۔ایک نشہ سا تھاجواترنے کانام نہیں لیتاتھا۔چھوٹے چھوٹے خواب یکے بعددیگرے اسطرح آرہے تھے جیسے کہ دماغ کے سکرین پرکوئی خوشنمافلم چل رہی ہو۔پھرجیسے جیسے سحرکے آثارقریب نظرآنے لگے تودِ ل کی کوئی آرزوبڑی بے بسی سے کہہ رہی تھی،
’’کاش ! یہ دلفریب لمحات کچھ اورطویل ہوجاتے حسین خوابوں کاسلسلہ تو مکمل ہوجاتا‘‘
مگروقت آرزُوں کے روکے کہاں رُکتاہے ۔وہ بادشاہ ہے،اپنی رفتارسے چلتاہے۔زمانہ ہے ،خالق ِ کائنات جسکی قسم کھاتاہے۔ابھی میں بحرِ غفلت میں اِسی طرح غوطہ زن تھاکہ توحیدورسالت کی ایک صدابلندہوئی ۔یہ مسجدسے مؤذن کی آوازتھی۔بے خبروں کوخبردارکیاجارہاتھا۔غافلوں کوجگایاجارہاتھا۔حق کیاہے ،بتایاجارہاتھا۔مگرمیں بِسترپرلیٹاوہی کروٹوں پرکروٹیں بدلتے جارہا تھا ۔ اُٹھنے کوجی ہی نہیں چاہ رہاتھا ۔سچ کہومیں تو’جی ‘کاگرفتارتھا۔اپنے نفس اورخواہشوں کاتابعدارتھا۔من موجی کاپرستارتھا۔موذن بڑی ہی دلسوزآوازمیں پکارے جارہاتھا۔
’’اللہ بہت بڑا ہے ۔اللہ بہت بڑاہے 
میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سِوائے کوئی معبودنہیں ہے۔
میں گواہی دیتاہوں کہ بیشک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے رسُول ہیں۔
آئونمازکی طرف۔آئوکامیابی کی طرف 
اللہ سب سے بڑا ہے ۔اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں ،
نمازنیندسے بہترہے ‘‘۔
اذان کے ان کلمات کاہمہ گیر پیغام کوئی میرے جیسا غافل سمجھتاتوکیاسمجھتا۔ان میں تورازحیات تھا ۔اِن میں دنیوی اور اُخروی زندگی کی کامیابی کارازتھا۔ زندگی کی حقیقتوں کاسوزوسازتھا۔انہیں سُنابھی تو سن کرکیاحاصل تھا۔میں بیک وقت ایک نہیں کئی کشتیوں کاسوار تھامگران میں سے نہ توانکے ملاحوں کوکچھ منزل کاادراک تھا نہ ہی انکے ہاتھوں میں کوئی مضبوط پتوارتھا۔ یہ کسی کاسہارا کیابنتے ،خودسہاروں کے محتاج تھے۔
زبانی حدتک تومیں اللہ کی بڑائی اورکبّریائی کابڑاقائل تھا مگردِ ل کسی اورہی جانب مائل ِ پرواز تھا۔ میرے کہنے اورکرنے کے درمیان منافقت کے ایک نہیں بلکہ انیک ہمالے حائل تھے۔ماننے کوتومیں خداکوبڑے زوروں سے مانتاتھا مگریہاں احکامِ خداوندی میری خواہشات ِنفسی کے آڑے آتے ،وہاں میںخداکی مانناچھوڑدیتاتھا ۔میں نے اپنی خواہشات واغراض کے بیشمارلات ومنات تراش رکھے تھے ۔میں اصلی خدا کے بجائے ان نقلی خدائوں کاکہیں زیادہ پجاری تھا۔ان نقلی خدائوں میں پیسہ سب سے بڑامداری تھا،جسطرح چاہتاتھا مجھے نچالیتاتھا ۔پیسے کی خاطرمیں کسی بھی حدسے گذرجاتاتھا۔ سچ تویہ ہے کہ میں گفتارکاغازی تھا ۔لبوں سے اللہ کی بڑائی کااقراری تھا مگرعملی طورپرحق کے راستے کافراری تھا۔
میں جب اپنے سنِ شعورکوپہنچاتو میں نے اپنے ماں باپ ،دادادادی اورگھرکے دیگربڑوں کویہ گواہی دیتے سناتھاکہ بیشک محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ان کی دیکھادیکھی میں بھی یہ گواہی دینے لگا تھااورآج تک دیتاآ رہاہوں مگرمیں نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ آخرمیں یہ گواہی دے کیوں رہاتھااوراگردے رہاہوں تواِس گواہی کے تقاضے کیاہیں ۔اس کی حدود کیاہیں ؟،پابندیاں کیاہیں؟۔یہی وجہ ہے کہ میں شِتربے مہارصرف اپنی خواہشات کی سنتاتھا ۔نفس کے راستے پرچلتاتھا ۔ماننے کورسول ؐ کورسولؐ تومانتا، مگررسولؐ کے اصول نہیں مانتاتھا ۔رسول ؐ کی نہیں مانتاتھا۔سیانے کہتے تھے گواہی دینابڑی بات نہیں گواہی پرقائم رہنااورچلنا بڑی بات ہے ۔مگرمیرے لیے تو یہ سب بے معنی باتیں تھیں ۔میں توموم کاپُتلا تھا،جدھرکوئی چاہتا،اُدھرہی موڑلیتاتھا۔یہی وجہ تھی کہ اکثردانا لوگ کہتے تھے تم خاندانی قسم کے گواہ ہو۔آج نہیں توکل فنا ہو۔مگرمیری نگاہ ِنارسید تواپنے پائوں تک ہی دیکھتی اورپہنچ سکتی تھی ۔میں توآج کی ہی سوچتا اورآج کیلئے ہی جیتاتھا۔
یہ اذان کیاتھی؟، کیاہے ؟۔بلاوا ہے نمازکی طرف ۔کامیابی کی طرف ۔سچ تو یہ ہے کہ نمازمیں کامیابی تھی ۔کامیابی میں نمازنہیں تھی، میں تو فقط کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہاتھا ۔وہ کامیابیاں جومیرے نفس کے تقاضے پورے کرتی تھیں ۔میری خواہشات کاایندھن بنتی تھیں ۔ان کامیابیوں کوپانے کیلئے میرے لیے حلال وحرام کی کوئی تمیزنہیں تھی۔ میں ایسی ہی کامیابیوں کی زمین پرچل ،پل اورآگے بڑھ رہاتھا ۔یہی میرا اوڑھنا،یہی میرابچھوناتھا ۔یہی میری سوچوں کاعرش اور یہی میری سوچوں کافرش تھا ۔نمازتوادائیگی سے پہلے جگہ کوپاک صاف کرلینے کا تقاضاکرتی ہے مگرمیری زمین جس کامیں ذکرکرچکااتنی خوش نصیب کہاں تھی کہ اس پرنمازجیسی پاک چیزقائم ہوتی ۔نمازمیں تو فلاح ہی فلاح تھی ۔بھلائی ہی بھلائی تھی،مگراس طرف آنے کیلئے خدااور رسولؐ کی اطاعت شرط تھی ۔ فلاح ونجات کاجوراستہ اُنہوں نے مقررّ کیاتھا صرف اُسی پرچلناتھا، جس راستے سے انہوں نے منع کیا تھا، اُسے چھوڑناتھا ۔خداکو وحدھُو لاشریک مان کراپنے اندرخواہشات ونفس کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے بتوں کوتوڑناتھا ۔خدااوررسول ؐ سے اطاعت ومحبت کارشتہ جوڑناتھا۔مگرمیرے اندرکاسامری مجھے اِس طرف آنے ہی نہیں دیتاتھا ۔لبوں پرنغمہ توحیدتھا بھی توکیا حاصل دِل میں بیٹھاآذری کااژدھا بڑامہیب تھا ۔گفتارکی حدتک تومیں توحیدورسالت کابڑا اقراری تھا مگرمیراکوئی بھی عمل اِس اقرارکی گواہی نہیں دیتاتھا۔ایسے میں دوسروں کودکھانے کیلئے نمازپڑھ توسکتاتھا مگرقائم نہیں کرسکتاتھا ۔میں ،اصل کامیابی کی طرف آتاتوکیسے آتا ؟نمازکی طرف آتاتوکیسے آتا؟فلاح کی طرف آتا توکیسے آتا؟کوئی اور نہیں، اس طرف آنے میں ،میں ہی اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا ۔
پھردن گذرتے گئے ۔میں گذرتے دنوں کاشمارتوکرتارہا مگرکبھی یہ سوچنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ اصل میں دن نہیں گذررہے ،میں گذررہاہوں ۔کبھی نہیں سوچاکہ صبح وشام کایہ چکر توروز ِازل سے لیکراب تک اسی طرح چل رہاہے اورتاقیامت اِسی طرح چلتارہے گا اورپھراِس چکر کے دوران تب سے لیکراب تک ابن آدم کی نہ جانے کتنی ہی نسلیں چکرکھاکرپیوندخاک ہوچکی ہیں اورقیامت تک نہ جانے اورکتنی ہونگی ۔
وقت مسلّسل گذرتاجارہاتھا ۔دِن گذرتے جارہے تھے۔میں گذرتاجارہاتھا ۔ان گذرتے وقتوں میں،اِن گذرتے دنوں میں مؤذن روزپانچ وقت مسجدسے اذان دیاکرتاتھا۔روزفلاح اورکامیابی کی طرف بلایاجاتاتھا۔ نمازنیندسے بہترہے ،ہرصبح یاد دلایا جاتاتھا۔ مگرمیں ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا رہا۔ کامیابیوں کے انبارلگاتارہا۔پیسہ بناتارہا ۔کل کیلئے بچاتارہا ۔وہ بھی ایک ایسے کل کیلئے جس نے ایک دن آناتھا اورمجھے اُسمیں کہیں نہیں ہوناتھا۔اُس آنے والے کل کیلئے میری بہترین بچت (Investment) تویہ ہوسکتی تھی کہ اپنے آج کواسطرح گذاراجاتا کہ یہ آنے والے اُس کل کو،جس میں میرانہ ہونایقینی تھا ،میری نجات کاذریعہ بن جاتا۔مگرمیری نظرمیں توآج ہی آج تھا ۔کل کہیں نہیں تھا ۔نہ کل کے تقاضے تھے مگراس سفرمیں ،میں کوئی اکیلاتونہیں تھا ۔بلکہ یہ کہوں توغلط نہیں ہوگا کہ مُنہ سے توحید ورسالت کے قرار یوں کی بڑی اکثریت اسی راستے پرچل رہی تھی ،جس پرمیں عمل پیراتھا۔ جن کے اعمال انکے قرارکی پاسداری کی گواہی دیتے تھے ،انکی تعدادبہت ہی کم تھی ۔میں اکثریتی قافلے میں تھا ۔اس لئے کوئی خاص فکرمندنہیں تھا۔مگراِس اکثریتی قافلے میں بھی بڑی تعدادایسے لوگوں کی شامل تھی جن کویہ احساس تھاکہ جس راستے پروہ چل رہے ہیں، وہ ٹھیک نہیں بلکہ دھوکا ہے ۔سراب ہے ۔یہ اصلی منزل کی طرف لے جاتانہیں بلکہ راستے میں ڈبوتاہے ۔ مگرپھربھی اِس قافلے میں کوئی بدلنے کی پہل کرنے کیلئے تیارنہیں تھا ۔بدلنے کیلئے ہرشخص دوسرے کامنتظرتھا ،اگرکوئی کسی کوبدلنے کیلئے کہتا بھی تووہ بڑی بے بسی سے کہتا، 
’’پہلے سب کوبدلو، میں خودبخود بدل جائوں گا ۔اکیلابدلا توبدل کراکیلا جینے کہاں جائوں گا‘‘۔
اورپھرنہ ایک بدلتاتھا نہ سارے بدلتے تھے ۔شاہراہِ حیات کی ان پگڈنڈیوں پریہ قافلہ اسی طرح رواں دواں تھا۔ کہنے اورکرنے کے درمیان کی خلیج روز بروزوسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی تھی ۔اب اس خلیج میں کوئی بڑا حادثہ کسی بھی وقت ہوسکتاتھا ۔
اورپھرہوتے ہوتے ایک دن ایسابھی آیا کہ جب نمازِ عصر کی اذان میں مؤذن جب اس مقام پرآیا کہ آئونمازکی طرف ،آئوفلاح کی طرف توزندگی میںمجھے پہلی باراپنی کوتاہیوں اورلاپرواہیوں کاگہرااحساس ہوا ۔میں نے گرتے پڑتے بڑی مشکل سے وضوبنایا اوردوڑکرقریب کی مسجد میں نماز اُدا کرنے کیلئے جاناچاہامگرجانہیں سکا۔ اُس وقت تک بہت دیرہوچکی تھی ۔میرے اعضاء میراساتھ نہیں دے رہے تھے ۔لامحالہ میں نے اُنہیں کوسناشروع کردیا۔مگروہ کرتے تو کیاکرتے اُن پرضعف غالب تھا ۔میں ضعیف توتھا مگراپنی ضعیفی کاابھی اعتراف نہیں تھا ۔اِس لیے مسلسل اپنے اعضاء کو کوستاہی چلا گیااورپھرجب کوسنے کی تمام حدیں میں نے پھلانگ لیں تومجھے لگاکہ جیسے میرے بدن کے تمام اعضاء بیک وقت زبان خاموش سے کہہ رہے تھے ، 
’’اب پچھتائے کیاہووت ۔اب کوسنے سے کیاحاصل ۔جب تم دوڑنے کے قابل تھے توآپ نے دوڑلگائی نہیں ۔اب تم دوڑنے کے قابل رہے نہیں تودوڑنے نکلے ہو ۔میاں ہروقت کیلئے ایک کام اورہرکام کیلئے ایک وقت ہوتاہے ۔جووقت اورکام کے درمیان تال میل نہیں رکھتا ایک دن پچھتاتا ہے ۔اب دوڑکی چھوڑو۔ ہمیں کوسناچھوڑو۔اندربیٹھو ۔خداسے رشتہ جوڑو ۔وہ رحیم ہے ۔اُس کے ہاں رحم ہی رحم ہے ۔اُس کے رحم سے آپکوکچھ مل جائے تو مل جائے ۔ورنہ دوڑکرپانے کاجووقت اُس نے تمہیںدیاتھا ،تم نے گنوادیا۔وہ چلاگیا ۔اب کبھی واپس نہیں آئے گا‘‘۔
اپنے ہی بدن کے اِعضاء کی یہ خاموش سی تقریرسن کر میرادِل ٹوٹ گیا ۔مجھ پرایک سکتہ ساطاری ہوگیا۔میں جہاں کھڑاتھا،وہیں بڑی بے بسی سے بیٹھ گیااورپھرنہ جانے کتنے ہی دیروہاں بیٹھارہا۔پھرجب کھڑے ہوکردیکھاتوسورج کوہستان کرّائی کے آخری سِلسلوں سے نکل کردُورکہیں مغرب کی آخری حدوں میں داخل ہوچکاتھا۔ اب اس کی آب وتاب رخصت ہوچکی تھی اوریہ اُفق کی لالیوں کے قریب بڑی بے بسی سے اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہاتھا۔ سورج کے متوقع انجام کودیکھ مجھے بے ساختہ رُونا آگیا کیونکہ اِسکے انجام میں مجھے اپناانجام صاف نظرآرہاتھا۔
���
کوہُسارکرائی اُودھمپور
رابطہ نمبر۔9419166320