ویلنٹائن ڈے

ویلنٹائن ڈے کیا ہے اورکس طرح اس کا رواج ہو،ا اس کے بارے میں یوں تو کئی داستانیں مشہور ہیں۔ شروع میں یہ دن تعزیتی انداز میں منایا جاتا رہا لیکن رفتہ رفتہ یہ دن محبت کی یادگار کے طور پر منایا جانے لگا۔ قطعہ نظر اس کے کہ اس تیوہار کی تاریخ کیا ہے ،ادھر دو دہائیوں میں جب کہ رسل و رسائیل کی ذرائع بہت زیادہ عام ہو گئے ہیں، اس تیوہار کو عالمی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
 اس دن کو منانے کے لئے نوجوان نسل میں زیادہ ہی جوش و خروش نظر آتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کارڈ دیتے ہیں پھول پیش کرتے ہیں تحائف بھیجتے ہیں، فون اور موبائیل کے ذریعہ محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور مبارک باد دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے محبت کے اظہار کا موقع ایک ایسی خوشی ہے جو زندگی میں بار بار نہیں آتا۔ حسب روایت محبت کے لطیف جذبات سے نا آشنا مذہبی طبقات کی طرف سے اس کی حوصلہ شکنی کاسلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ حالانکہ ویلنٹائن ڈے کو مغربی تیوہار مانا جاتا ہے لیکن چرچ نے اسکی مخالفت کی اور اس کو جنسی بے را روی کا سرچشمہ قرار دیا۔پادریوں نے سخت بیانات دئے بلکہ تھائی لینڈ میں ایک ایسی دکان کو نذرآتش تک کر دیا گیا جہاں ویلنٹائین ڈے کے کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔
مسلمانوں میں بھی اکثر علما ء اس کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اسکو اسلامی معاشرے کی تباہی اور بربادی کا ذریعہ بتاتے ہیں۔ ہماری عادت ہی رہی ہے کہ کسی چیز کا مغرب سے تعلق سامنے آتے ہی ہم چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ پرنٹنگ پریس، کیمرہ اور لائوڈ اسپیکر کو لیکر ہمارے سلوک کی تاریخ سامنے ہے۔ مغرب کی ہر وقت تنقید اور اس کی تباہی و بربادی کے لئے بد دعا کو عین دین سمجھ لیا گیا ہے۔ فرسودہ ذہنیت کے حامل ایسے اشخاص جو ہر مغربی چیز میں اسلام اور مسلمانوں کیخلاف سازش تلاش کرتے رہنے کے عادی ہیں ،ویلنٹائین ڈے کو بھی مسلمانوں کے خلاف مغربی سازش قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ ان کے نشانے پر ہر مغربی تیوہار رہتا ہے خاص طور پر نیا سال یا نیو ایر جو کہ اب بلا تفریق سارے عالم کا ایک مشترک تیوہار بن چکا ہے اور دوسرا ویلنٹائن ڈے۔ اس کی مذمت میں اس کو فحاشی، عریانی، بے حیائی کا محور  اور زنا تک پہنچنے کا راستہ قرار دیتے ہیں۔جو محبت کو گناہ ثابت کرنے پر آمادہ رہتے ہیں وہ ہمارے اس سماجی اور تاریخی پس ِ منظر کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، یوسف و زلیخا، لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد کی داستانیں جسکا حصہ رہی ہیںاور شاعری میں میر و غالب سے لیکر جگر اور وسیم تک محبت کے ہی مبلغ نظر آتے ہیں ۔ 
ویلنٹائین ڈے منانے والوں کے ذہن میں اگر زنا کا تصور نہ بھی ہو تو بھی اس کے مخالفین ہر آن اسکو زنا سے منسلک کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ کسی حد تک ان میں لا شعوری طور پر ایک انتقامی جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے ۔ان میں سے اکثر کی ازدواجی زندگی محبت سے خالی ہوتی ہے  ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا اور بچوں کی پرورش کرنا ہی زندگی کا مقصد ہوتا ہے ۔لہٰذا ان سے دوسروں کی محبت برداشت نہیں ہو پاتی۔ زیادہ تر مذہبی جماعتیں محبت کو آذادانہ جنسی عمل کے مترادف مانتی ہیں ۔ان کے نزدیک مرد اور عورت کے بیچ ایسی محبت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جو جنسی تعلقات سے عاری ہو۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان تعلق خواہ دوستی کا ہو آفس کا ساتھ ہو ی ہم جماعت ہوں، اس میں شہوانی جذبات ضرور شامل ہونگے۔ حالانکہ زنا کے الزام کو لیکر اسلام کا موقف نہایت سخت ہے قرآن میں زنایابدکاری کے الزامات کے بارے میں سخت ہدایات ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی پر یہ الزام عائد کرتا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ چار چشم دید گواہ پیش کرے۔ اگر کسی گواہ کی دروغ گوئی ثابت ہو گی تو وہ گواہ سخت سزا کا مستحق ہو گا۔ ایک اور بات جو ا ظہرمن اشمس ہے کہ عوامی مقامات  جیسے کہ پارک، ریسٹورینٹ ، یا دیگر تاریخی مقامات پر محبت کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے لیکن زنا کے لئے بند کمرے اور خفیہ مقامات درکار ہوتے ہیں۔ زنا کے دوسرے محرکات پر بھی ان کی نظر نہیں جاتی۔ جیسے کہ جہیز ، بارات اور دیگر مشرکانہ رسموں کی وجہ سے شادیوں کا بے انتہا مشکل بنا دیا جانا۔ یا سن ِ بلوغت کو پہنچ جانے کے با وجوداعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے انتظار میں برسوں گزار دینا۔ ایک اور بنیادی بات کہ ہم اسلام میں سب کے برابر ہونے اور کسی طرح کی اونچ نیچ نہ ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں ۔حضور ﷺکے الوداعی خطبہ کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں سوائے تقویٰ اور پرہیز گاری کے کسی بھی طرح کی فضیلت سے انکار کیا گیا ہے لیکن برصغیر میں مسلمان مشرکین کی طرز پر خود کود  پہلے تو ارذال اور اشراف اور بعد میں بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں تقسیم کر کے شادی کے لئے رشتوں کا دائرہ محدود کر چکے ہیں۔ جبکہ مغرب انسانوں کی برابری کے اسلامی اصول پر عمل پیرا ہے۔ مغرب سے متعلق کسی معاملے میںبلا تاخیر حرام کا فتویٰ صادر کرنے والے اکثر مشرکانہ طرزِ عمل پر خاموش رہتے ہیں بلکہ کچھ تو ان بیہودہ رسومات کو اپنی تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ 
ویلنٹائن ڈے کو لیکر ہمارے ملک میں بھی بھلا انتہا پسند ہندو تنظیمیں کہاں گوارہ کرتیں کہ نفرت کے بجائے محبت کا کھلے عام اظہار کیا جائے  چنانچہ یہاں بھی ہندو مہا سبھا ، بجرنگ دل وغیرہ کے رضا کار لاٹھی ڈنڈوں سے لیس ہو کر پارکوں اور دیگر پبلک مقامات کی پہرے داری کرتے نظر آ جاتے ہیں۔حکومت اور پولیس کی پشت پناہی بھی ان کو حاصل ہوتی ہے۔تب تو تو حد ہی پار ہو جاتی ہے جب کسی بھی لڑکے او ر لڑکی کو ایک ساتھ دیکھ کر ان کی شادی کرانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں خواہ وہ  رشتے دار یا بھائی بہن ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ دیگر بڑے جرائم کو لیکر وہ اتنے حساس نہیں ہوتے۔
ویلنٹائن ڈے کی حمایت میں عام طور پر دی جانے والی دلیلیں اس طرح ہیں کہ یہ محبت کے اظہار کا دن ہے۔ نفرتیں عام ہیں اگر ایک دن محبت کے نام مستخص کر دیا جائے تو کیا پریشانی ہے۔ نوجوان خوشیا ں منا لیں یا کچھ دیر ہنس بول لیں تو کیا حرج ہے۔ ایک اور دلیل سننے میں آتی ہے کہ یہ صرف عورت اور مرد یا لڑکے اور لڑکیوں کی محبت کا دن ہی کیوں مانا جائے ۔محبت کی ایک یہی شکل تو نہیں ہے ماں باپ بھائی بہنوں کو بھی  پھول دئے جا سکتے ہیں محبت کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ بلا شبہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن خون کے رشتوں میں محبتیں اظہار کی محتاج نہیں ہوتیں۔ان کی ودییت ہمارے دلوں میں روزِ اول سے ہی موجود رہتی ہے۔ حالانکہ انسان کو پہلی بار جس محبت سے واسطہ پڑا ،وہ رشتوں سے قطہ نظر مرد اور عورت کے درمیان محبت تھی ۔میری مراد حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کی محبت سے ہے۔
سچ پوچھا جائے تو ویلنٹائن ڈے جیسے تیوہار کی جنوبی ایشیا خصوصاََ ہمارے ملک میں شدید ضرورت ہے۔ جہاں نفرت کے اظہار کی ہر طرف آذادی ہے ۔لسانی اور صوبائی بنیاد پر ، ذات پات کو لیکر ،سیاسی وفاداری کو لیکر نفرت کرنے اور اس کو ظاہر کرنے کے بے شمار مواقع ہیں۔ اب نفرت کے دائرے نے کافی وسعت اختیار کر لی ہے ۔بات ہندوئوں ،مسلمانوں اور شیعہ، سنی کے بیچ نفرت سے آگے بڑھ کر ترقی کرتے ہوئے  بریلوی ، دیو بندی، اہل حدیث اور قادیانی تک آ چکی ہے۔فرقوں کے مطابق مسجدیں اور قبرستان تک علیحدہ بن رہے ہیں۔اس لئے اگر دل میں کسی کے لئے محبت کے جذبات ہیں تو انہیں دبا کر اپنے ذہن ، جسم اور اپنی کار کردگی پر اس کا منفی اثرات مرتب ہونے کا انتظار نہ کریں، 14 فروری ویلنٹائین ڈے محبت کے اظہار کا دن ہے۔ اظہار کر یں اور دل کی خلش مٹا ڈالیں۔ 
موبائل رابطہ۔9450191754
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔ مضمون میں پیش کی گئی آراء مضمون نگار کی اپنی ہیں اور ادارے کا ان سے متفق ہونا لازمی نہیںہے)