وقف ترمیمی بل کے خلاف علماء برہم مسلم کمیونٹی کو لاحق خدشات دور کرے JPC

 عظمیٰ نیوز سروس

سرینگر//متحدہ مجلس علما جموںوکشمیر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے اشتراک سے مجلس کا ایک اجلاس مفتی اعظم جموںوکشمیر کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں وقف ترمیمی بل 2024کے تعلق سے مضمرات و امکانات اوراس ضمن میں مسلمانوںکو درپیش لاحق خدشات و تحفظات پر انتہائی غور و خوض کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسالک والمسلمین، کشمیری سماج کو درپیش گوناگوں مسائل و مصائب، منشیات کے بے تحاشہ پھیلاو اور استعمال پر بات چیت ہوئی ۔

 

اجلاس کی صدارت مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے انجام دی جبکہ سرکردہ علما میں جنہوں نے خطاب کیا ان میں ڈاکٹر عبدالطیف الکندی، شوکت حسین کینگ، آغا سید مجتبیٰ،مفتی اعجاز الحسن بانڈے، پروفیسر محمد یاسین کرمانی، مولانا خورشید احمد قانونگو، مولوی عبدالطیف بخاری، سید محمد یوسف رضوی، غلام علی گلزار، محمد اسلم اندرابی، سید الرحمان شمس اور دیگر اراکین شامل ہیں۔اس موقع پر جامع قرار داد متفقہ طور پر پاس کی گئی ۔قرارداد کے مطابق یہ اجلاس حکومت ہند کی جانب سے وقف ترمیمی بل 2024کو قانونی شکل دینے کی کوششوںکیخلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسکی پوری سختی کے ساتھ مخالفت اور اسے مسترد کرتا ہے۔ یہ اجلاس حکومت ہند پر واضح کرتا ہے کہ وقف کی تمام تر جائیداد، املاک اور پراپرٹی کا حقیقی مالک حضرت حق جل مجدہ ہے اور وقف کا تصور اسلامی نظام عقائد کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس میں حکومتی مداخلت وقف کے بنیادی تصور کومجروح کرتی ہے ۔ اسلئے مسلمانوںکیلئے اس طرح کی کوششیں ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ اجلاس یہ بھی واضح کرتا ہے کہ وقف کی جائیدادیں الٰہی قوانین کے تحت مسلم پرسنل لامیں شامل ہیں اسلئے حکومت کی جانب سے اس میں دخل اندازی اور مختلف ایکٹ اور ترامیم کے ذریعے کسی بھی قسم کی تبدیلی مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے ۔ اس حوالے سے متحدہ مجلس علما ء جموںوکشمیر نے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی JPCکو جو مفصل اور مدلل مکتوب ارسال کیا ہے اس میں اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلم مخالف بل قرار دیاگیا ہے اور یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو اس ضمن میں مجلس اپنا نقطہ نظر اور موقفJPCسے براہ راست ملاقات اور بات چیت کے ذریعے بھی واضح کرسکتی ہے۔ لہذایہ اجلاس مرکزی حکومت اورJPCسے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس حوالے سے مسلم کمیونٹی کو لاحق خدشات کو فوری طور پر دور کرے اوراس کی واحد صورت مذکورہ بل کو واپس لینے میں مضمر ہے ۔