وقف ایکٹ میں ترمیم کا مسئلہ ندائے حق

اسد مرزا

حالیہ اطلاعات کے مطابق، مرکزی وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے اطلاع دی ہے کہ موجودہ قانون میں 40 ترامیم کا مقصد وقف بورڈ کے کسی بھی جائیداد کو’’وقف جائیداد‘‘ کے طور پر نامزد کرنے کے اختیار کو محدود کرنا ہے۔ذرائع نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا،
’’مجوزہ ترامیم کے مطابق، وقف بورڈ کی طرف سے جائیدادوں پر کیے گئے تمام دعوؤں کی لازمی تصدیق کی جائے گی۔ وقف بورڈ کی طرف سے دعویٰ کردہ جائیدادوں کے لیے ایک لازمی تصدیق کا عمل بھی تجویز کیا گیا ہے۔‘‘ ذرائع نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا اور کہا کہ ان ترامیم کا بل پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم کا مقصد مبینہ طور پر مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنا کران کی شمولیت کو بڑھانا ہے اور جائیدادوں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے حکومت نے وقف املاک کی نگرانی میں ضلع مجسٹریٹس کو شامل کرنے پر بھی غور کیا ہے۔

درحقیقت، مسلمان خود اس کے خلاف نہیں ہیں، کیونکہ اسلام عورت کو متولی یا کسی وقف بورڈ کی رکن بننے کی اجازت دیتا ہے، کیونکہ یہ ایک انتظامی عہدہ ہے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے ایک مفتی کے بقول کیونکہ یہ ایک انتظامی عہدہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی اسلامی قانون جاننے یا پڑھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کوئی بھی مسلمان چاہے مرد ہو یا عورت کسی بھی وقف جائیداد کا متولی اور اس سے متعلق کسی بھی تنظیم کا ممبر بن سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ میں بھی کئی خواتین ارکان موجود ہیں، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کسی عہدے کے لیے مرد و عورت میں تفریق نہیں کرتا ہے۔

اس بل کو لانے کی بنیاد پچھلے سال رکھی گئی تھی جب مارچ 2023 میں وکیل اشونی کمار اپادھیائے کے ذریعہ ایک PIL دائر کی گئی تھی، مرکز نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وقف ایکٹ کی ایک یا زیادہ دفعات کو چیلنج کرنے والی تقریباً 120 رٹ درخواستیں ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ اس PILکے علاوہ ماضی میں اشونی کمار اپادھیائے نے مسلمانوں کے خلاف اور ان کے ریتی رواجوں پر پابندی کے لیے کئی دیگر مقدمات بھی دائر کیے ہیں اور مبینہ طور پر ان کا تعلق آر ایس ایس سے ہے، جس کی وجہ سے وہ یہ کام کرتے ہیں تاکہ کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ قائم رہے جس سے کہ ہندوستانی مسلمان ذہنی الجھن کا شکار رہیں۔

اپادھیائے نے وقف ایکٹ کی بعض دفعات کے قانونی جواز کو چیلنج کیا تھا اور مرکز سے ’’ٹرسٹ اور ٹرسٹیوں اور خیراتی اداروں، اور مذہبی اوقاف اور اداروں کے لیے یکساں قانون‘‘ نافذ کرنے کی ہدایت مانگی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وقف املاک ایسے ’’خصوصی حقوق‘‘ کے حامل نہیں ہو سکتے جو کہ دیگر غیر اسلامی مذہبی گروہوں کے زیر انتظام ٹرسٹوں، خیراتی اداروں اور مذہبی اداروں کو نہ دیئے گئے ہوں۔

عرضی گزار نے کہا کہ وقف ایکٹ 1995 وقف املاک کے انتظام کے لیے بنایا گیا تھا لیکن ہندومت، بدھ مت، جین مت، سکھ مت، یہودیت، بہائی ازم، زرتشت اور عیسائیت کے پیروکاروں کے لیے اس سے ملتے جلتے قوانین نہیں ہیں۔ ’’لہٰذا، یہ قوم کے سیکولرازم، اتحاد اور سا لمیت کے خلاف ہے۔‘‘یہاں، ہم یہ پوچھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا حکومت ہندوستان بھر میں مختلف ہندو ٹرسٹوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تیار ہوگی؟ جو بدری ناتھ/کیدارناتھ سے تروپتی تک مختلف مندروں کا انتظام اسی بنیاد پر کرتے ہیں۔ کیا حکومت ان ٹرسٹوں میں خواتین اراکین کو شامل کرانے کے لیے ان مذہبی اداروں پر دباؤ بنا سکتی ہے؟

معاملات کو مزید الجھانے اور مسلم کمیونٹی کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کے لیے حکومت نے مبینہ طور پر بوہرہ اور آغاخانی فرقوں کے لیے علیحدہ بورڈ آف اوقاف تشکیل دینے کی بات بھی کہی ہے۔یعنی کہ اس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کے درمیان تفریق کا بیج بونا چاہتی ہے۔حکومت نے کہا کہ کوتاہیوں پر قابو پانے اور وقف املاک کے انتظام اور ان کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے اس نے وقف ایکٹ 1995 کا نام بدل کر یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اور ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995 رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔جب کہ حکومت وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کرنے کی تیاری کر رہی ہے،اس وقت مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو نے کہا ہے کہ ’’غریب مسلم گروپوں‘‘ کی طرف سے قانون سازی میں ترمیم کا دیرینہ مطالبہ کیا جارہا تھا۔لیکن وہ ان ’’غریب مسلم گروہوں‘‘ کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے۔ واحد گروپ جو اب تک ترامیم کی حمایت کے لیے آگے آیا ہے وہ ہے آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل (AISSC)، جس نے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں بل لانے کے حکومت کے مجوزہ اقدام کا خیرمقدم کیا ہے اور مختلف اوقاف اداروں کے ذمہ داران پر اپنے مفادات کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔ لیکن AISSC ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ممبر کے طور پر مختلف اسلامی فرقوں کے مسلم علماء اس میں شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق، دی ہندو کے ذریعے حاصل کردہ بل کی ایک کاپی، دعویٰ کرتی ہے کہ مجوزہ قانون سازی سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں ’’مسلم اور غیر مسلموں کی نمائندگی‘‘ کو یقینی بنائے گی۔ یعنی کہ اب مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق کسی تنظیم میں غیر مسلم ارکان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر، پہلے کی طرح سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندو مندر اور مذہبی ٹرسٹ کسی مسلمان کو اپنا رکن بنانے کے لیے تیار ہوںگے؟

خود کو تنقید سے بچانے کے لیے حکومت یہ دلیل دیتی ہے کہ اس نے جسٹس (ریٹائرڈ) راجندر سچ کی صدارت میں اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات اور وقف اور مرکزی وقف کونسل کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے صدر کے آر رحمان کی رپورٹ پر عمل کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سفارشات اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد، سال 2013 میں ایکٹ میں جامع ترامیم پہلے ہی کی جاچکی ہیں۔ ہندوستان بھر کی بیشتر مسلم تنظیموں نے مجوزہ ترامیم کی پرزور مذمت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس نے کہا، ’’بی جے پی حکومت ہمیشہ سے یہ کرنا چاہتی تھی۔ 2024 (لوک سبھا) انتخابات کے اختتام کے بعد، ہم نے سوچا تھا کہ شاید بی جے پی کے رویے میں تبدیلی آئے گی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ درست اقدام نہیں ہے۔اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مجوزہ بل کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی پر ’ہندوتوا ایجنڈا‘ پر عمل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ ترامیم اسلامی وقف املاک مسلمانوں سے چھیننے کے ارادے سے لائی جارہی ہیں۔ساتھ ہی ان ترامیم کی اصل وجہ مذہب کی آزادی کے حق کو متاثر کرنا ہے۔

یہ صرف مسلم ادارے یا رہنما ہی نہیں ہیں جو مجوزہ ترامیم کی مذمت کر رہے ہیں،بلکہ اپوزیشن کی زیادہ تر جماعتیں بھی ان ترامیم کے خلاف ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ ’’ہم اس (وقف ایکٹ ترمیمی بل) کے خلاف ہیں۔‘‘ یادو نے مجوزہ ترامیم کے بارے میں پوچھے جانے پر صحافیوں کو بتایا’’بی جے پی کا واحد کام ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنا، مسلمان بھائیوں کے حقوق چھیننا ہے۔ آئین میں ان کو دیئے گئے حقوق چھیننے کےذریعہ۔‘‘

آئی یو ایم ایل کے ای ٹی محمد بشیر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ اقدام بد نیتی پر مبنی ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر نامہ نگاروں سے کہا کہ اگر ایسی کوئی قانون سازی آتی ہے تو ہم اس کی سخت مخالفت کریں گے۔ ہم ،ہم خیال جماعتوں سے بھی بات کریں گے۔ بشیر نے مزید کہا کہ اگر حکومت بل کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو اسے مضبوط اپوزیشن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔یہاں تک کہ شیو سینا (یو بی ٹی) کی ایم پی پرینکا چترویدی نے الزام لگایا کہ بی جے پی زیرقیادت حکومت بجٹ پر بحث سے بھاگنا چاہتی ہے اور اس لیے وہ وقف کا مسئلہ لے کر آئے ہیں۔

سی پی آئی (ایم) کے ایم پی امرا رام نے کہا کہ بی جے پی ’’تقسیم کی سیاست‘‘ میں یقین رکھتی ہے اور وقف بورڈ کو مضبوط کرنے کے بجائے ان میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اقلیتوں کو تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کے بجائے، انہوں نے ہمیشہ ان کے حقوق پر حملہ کیا ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ تفرقہ انگیز بیان بازی جاری رکھتے ہیں تو ہم نے انہیں 2024 میں ایک ٹریلر دکھایا اور اب انہیں پوری فلم دکھائیں گے۔‘‘

سی پی آئی (ایم) کے ایک اور رکن پارلیمنٹ سداما پرساد نے کہا کہ بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کا واحد مقصد تقسیم کرنے والے ایجنڈے کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا، “بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے ایک بل لاؤ۔ لیکن وہ 24X7صرف مندر۔مسجد اور ہندوستان۔پاکستان جیسے تفرقہ انگیز ایجنڈے کو دیکھ رہے ہیں۔”
وقف ایکٹ پر بل کی بات کے بارے میں پوچھے جانے پر، جے ایم ایم کے مہوا ماجی نے کہا کہ یک طرفہ نظریہ نہیں لیا جانا چاہئے اور اگر کوئی ترمیم کرنی ہے تو حکومت کو تمام فریقوں کے ساتھ مل کر بات کرنی چاہئے۔

پنجاب وقف بورڈ کے ایک رکن ہاشم صوفی نے کہا کہ حکومت اس طرح کی حرکتیں کرکے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے پر تلی ہوئی ہے، اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ وقف بورڈز کے ذریعے چلائے جانے والے املاک اور اداروں کے فائدے تمام کمیونٹیز کے ممبران کو یکساں طور پر ملتے ہیں، چاہے وہ ہندو ہوں یا سکھ یا مسلمان۔
جمعیۃ علماء ہند نے کہا ہے کہ وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت میں کوئی تبدیلی لاکر حکومت یا کسی فرد کے ذریعہ ان کا ’’غلط استعمال‘‘ کرنے کو آسان بنانا ہمیں ناقابلِ قبول ہے۔جمعیۃ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر وقف بورڈ کو کمزور کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا گیا تو وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے تیار ہے۔
مجموعی طور پر حکومت کا یہ قدم کوئی غیر متوقع قدم نہیں ہے۔ مسلم قیادت کو ایسے اشارے پہلے سے ہی مل رہے تھے لیکن ہمیشہ کی طرح وہ اس مرتبہ بھی محوِ خواب رہے اور اپنے موقف کو ٹھوس بنانے کے لیے انھوں نے قدم نہیں اٹھایا جس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)