وقف املاک کی بے قدری کیوں ؟

ریاست میں ہزاروں کنال وقف اراضی ناجائز قبضہ میں ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ قابضین نے صرف اراضی ہی نہیں بلکہ قبرستانوں و زیارت گاہوں کو بھی نہیں بخشا تاہم ریاستی حکومت کی طرف سے ابھی تک نہ ہی اس اراضی کی بازیابی کیلئے ٹھوس اقدامات کئے گئے اور نہ ہی دستیاب اراضی کی قدر کی جارہی ہے ۔حج و اوقاف کے وزیر عبدالرحمن ویری نے گزشتہ دنوں قانون ساز کونسل میں اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ریاست بھر میں 97071کنال18مرلہ وقف اراضی ہے جس میں صوبہ جموں میں55015کنال10مرلہ اور کشمیر صوبہ میں42056کنال08مرلہ اراضی پائی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی وزیر موصوف نے بتایاکہ 6300کنال و19مرلہ وقف اراضی پر غیر قانونی قبضہ کیاگیاہے اور2245کنال و6مرلہ اراضی اور 2 زیارت گاہیں سیکورٹی فورسز و فوج کی تحویل میں بھی ہیں جبکہ 1126کنال 12مرلہ اراضی سرکاری اداروں کے ناجائز قبضہ میں ہے۔ناجائز قبضہ میں لی گئی اراضی میںسے سب سے زیادہ اراضی جموں ضلع میں ہے جس کے بعد بتدریج صوبہ کے کئی دیگر اضلاع میں بھی اوقاف جائیدادکوغیر قانونی ہاتھوںمیں لیاگیاہے ۔اگرچہ ان قابضین کے خلاف کارروائی کی خاطر ریاست کے پاس وقف قانون 2001بھی ہے لیکن ابھی تک ایسی کارروائیاں دیکھنے کو نہیں ملی جن میں  اربوں روپے مالیت کی اس جائیداد کو چھڑانے کی کوششیں کی گئی ہوںاوراگر کہیں کسی افسر نے کارروائی کرنے کی کوشش بھی کی تو اسے  سیاسی دبائو، دھمکیوں یہاں تک کہ پتھرائواور دیگر طرح سے  حملوں کانشانہ بنایاگیا۔ ماضی میں ناجائز قابضین کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے کے نتیجہ میں اس بیش قیمتی اثاثے کو ہتھیا لیاگیا اور اب ریاستی سرکارکیلئے اس اراضی کو بازیاب کرانابہت مشکل کام ہے کیونکہ کہیں پر اس کو قابضین کی مزاحمت کاسامناہے اور کہیں پر کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔اگر دیکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ وقف املاک ایک ایسااثاثہ ہے جس سے ریاست خاص کر جموںکے بے سہارا مسلمانوں کی قسمت تبدیل کی جاسکتی ہے اور اس سے ایسے فلاحی ، تعلیمی ، طبی و دیگر ادارے چلائے جاسکتے ہیں جن کے ذریعہ نہ صرف نئی نسل کی بہتر تعلیم ہوسکتی ہے بلکہ روزگارکے مواقع پید اہونے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی آمدنی بھی حاصل کی جاسکتی ہے تاہم بدقسمتی سے آج تک کسی نے اس عنوان سے نہیں سوچا اور ریاست میں جو بھی  پارٹی برسراقتدار آئی، وہ اپنا وقت گزار کر چلی گئی۔ یہاں یہ سوال پید اہوتاہے کہ اگر بابا غلام شاہ بادشاہ زیارت شاہدرہ شریف سے انہی کے نام سے راجوری میں یونیورسٹی چلائی جاسکتی ہے تو پھر اربوں کی جائیداد اوراس سے حاصل ہونے والی کروڑوں کی آمدنی سے کیوں کر ایسے کئی ادارے قائم نہیں کئے جاسکتے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وقف املاک سے حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کی امداد ملتی ہے جس سے آج تک ماسوائے دو حج ہائوسز ، چند ایک شاپنگ کمپلیکس یا پارکنگ زون کے علاوہ کوئی بڑا کام نہیں ہوسکا اور یہ بات افسوسناک طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان شاپنگ کمپلیکس میں بھی اپنوں کے بجائے غیروںکو روزگار فراہم کیاگیاہے ۔متعلقہ وزیر کے مطابق وقف جائیداد و دیگر اثاثوںسے 2014-15کے دوران 1737.57257لاکھ روپے ،سال2015-16کے دوران 1909.38457لاکھ اور سال 2016-17کے دوران 2180.76941لاکھ روپے آمدنی حاصل ہوئی ۔ہمیں اس سلسلے میں دوسروںسے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھناچاہئے کہ کس طرح سے ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی سمیت دیگر ادارے چلائے جارہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ناجائز قبضہ میں لی گئی اراضی کو بازیاب کرایاجائے اور دستیاب شدہ وسائل کوبروئے کار لاتے ہوئے اسے قوم و ملت کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال کیاجائے ۔