اسد مرزا
الحمدللہ ۲۰۲۲ء میں دو سال کے وقفے کے بعد، پورے ہندوستان میں مسلمانوں نے عید الفطر اپنے روایتی جوش و خروش کے ساتھ منائی۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینے میں کی گئی ہماری عبادتوں اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین! اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو اس مشکل وقت میں اپنے معاملات کو ہوشیاری سے حل کرنے کی ہمت اور حکمت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں صحیح راستہ بھی دکھائے۔
ماہِ شوال کا آغاز ہمیں اس موضوع پر بیٹھ کر غور و فکر کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ہمیں اگلے اور آنے والے سالوں میں اپنے اجتماعی امور کو کس طرح انجام دیا جاسکے اس کا بہترین موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ چھ ،سات سالوں کے دوران ہندوستان کی مسلم آبادی جس مشکل وقت سے گزری ہے وہ کسی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔لیکن افسوس ہے کہ اتنے مشکل وقت کے باوجود ہندوستانی مسلمان ایک امت کے طور پرابھی بھی اکٹھے نہیں ہوپائے ہیں، ہم آج بھی مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کوئی بھی ایسی حکمت عملی ترتیب دینے سے قاصر ہیں جس سے مسلم معاشرے اور آبادی کی حفاظت اور اس کی ترقی کے علاوہ اس کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے اس کس طرح مزید خوشحال بنایا جاسکے اور ملک کے سیاسی نظام میں وہ کس طرح اپنی بڑی تعداد اور اہمیت کا احساس ملک کے حکمرانوں کو دلا سکے۔
اپنی کوششوں کو متحد طریقے سے منظم کرنے کے لیے، ہماری کسی ممکنہ حکمت عملی کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو بطور ایک متحد قوم پیش کرپائیں اور ایک آواز میں متحد قوم کے پیغام دوسروں تک پہنچاسکیں۔کیوں کہ دوسرے مذہب ہمیں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث یا جماعت اسلامی کے طور پر نہیں دیکھتے ہیںوہ ہمیں صرف مسلمان دیکھتے ہیںاور وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں آپسی اختلافات بھلا کر ہندوستان کی مسلم آبادی کو ایک منظم مسلم سماج کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے ہمیں اپنے دینی رہنماؤں اور اکابرین کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے آپسی اختلافات کو بھلا کر ایک ساتھ بیٹھیں اور ایک جامع حکمت عملی وضع کریں جس میں مسلم قوم کو درپیش تمام خطرات اور تقاضوں کا خیال رکھا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کیسے نبرد آزما ہوجائے اس کی عملی تدابیر وضع کی جائیں۔اس حکمت عملی کے تحت ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ قانون اورحکومتی مشینری کے ذریعہ کسی کو بلاوجہ تنگ یا ہراساں نہ کیا جاسکے، یعنی پولیس نوجوان مسلم لڑکوں کو ہراساں کرنے اورانھیں زد و کوب کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور عدالتیں قانون کی بالادستی قائم رکھنے میں اپنا متوقع اور مثبت کردار ادا کرسکیں۔
مندرجہ بالا کو یقینی بنانے کے لیے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا ہے، ہمیں ایک مرکزی اور ریاستی سطح پر قانونی ٹیموں کی تشکیل کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے قانونی معاملات کوپیشگی بھانپ سکے اور ان کے لیے بہتر قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرسکے۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اول طور پر مسلم اکابرین اور ملت کے قائدین کی ایک ٹیم تشکیل دینی چاہیے، جو قوم کے خلاف کسی بھی ممکنہ خطرے یا سازشوں کو حقیقت میں رونما ہونے سے پہلے ان کی نشاندہی کرنے کے قابل ہو۔اور ساتھ ہی ساتھ ان کے خلاف احتیاطی تدابیر پر عمل کروانے کی استعداد رکھتی ہو۔یہ کمیٹی ان نکات کی نشاندہی کرے گی جس پر قانونی ٹیم کو عمل پیرا ہونا ہوگا۔
اس کے لیے ہمیں محققین اور میڈیا مانیٹروں کی ایک ٹیم کی ضرورت ہے جو روایتی اور سوشل میڈیا پر نظر رکھ سکے اور ایسے مسائل کی نشاندہی کر سکے، جو قوم کے خلاف جاتے ہوں اور اس کے مخالفین کی جانب سے انھیں زبردستی موضوع تنازعات بنانے کی کوشش کی جاتی ہو۔ مانیٹرنگ ٹیم کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر، قانونی ٹیم کو پیشگی کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ تاکہ وہ پیشگی ضمانتیں حاصل کرنے یا کیس کی بریفنگ تیار کرنے یا اس وقت تک اوپر دی گئی تفصیلات پر مبنی اقدامات اور قانونی تحریکیںیا حکمت عملی پیشگی طور پرقائم کرنے میں کامیاب ہوسکے۔اور ساتھ ہی عین موقع پر عدالتوں سے رجوع کرنے کے لیے بھی تیار رہیں۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی قائم کی جاسکے اور انھیں پر مبنی اپنے عمل کو بھی یقینی بنانا ہوگا، تاکہ ان کے مخالفین کو کوئی موقع نہ مل سکے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک بار جب ہم اس حکمت عملی کو مکمل طور پر وضع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اگر چار پانچ مرتبہ مسلم قوم فعال کارروائیاں کرنے اور اپنے مخالفین کے اقدامات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان چند دھچکوں کے بعد مخالفین کو احساس ہو جائے گا کہ وہ ہر مرتبہ ایسا نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی مسلم قوم کو ہمیشہ بلی کا بکرا بناسکتے ہیں۔
یہ فکر ہمیں مزید دو اہم ترین سوالات کی طرف لے جاتی ہے۔ پہلا: اس تحریک کی قیادت کون کرے گا اور دوسرا: ہمیں اس قانونی سرگرمی کو برقرار رکھنے کے لیے رقم کہاں سے حاصل ہو گی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی قوم کو تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ اور بااختیار بنانے کے کاموں سے کس طرح جوڑا جاسکتا ہے ، جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کس طرح پوری مسلم قوم ایک پڑھی لکھی قوم بن جائے جو کہ اسلام کا بنیادی تقاضا ہے اور ساتھ ہی مثبت سوچ اور کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرسکے،جو کہ ملک و قوم کی تعمیری ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کرسکے۔میرے محدود علم کے مطابق، سب سے پہلے ملک بھر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پچھلے سال میں حاصل کردہ سود کو ایک مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کرائیں، تاکہ اس پورے طریقہ کار کے قانونی اخراجات کو اس رقم سے پورا کیا جا سکے۔
دوسرے اور بڑے مقصد کے لیے ہمارے اکابرین اور ملّی قائدین کو تمام مسلمانوں کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ وہ اپنی سالانہ زکوٰۃ کو ماہانہ قسط میں تقسیم کرکے ایک مرکزی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانا شروع کریں۔ ہوسکتا ہے کہ بعض افراد کو یہ مشورہ غیر منطقی اور غیر اسلامی لگے،کیونکہ زکوٰۃ کا حساب سالانہ بنیادوں پر یا کسی ایسے اثاثے پر ہوتا ہے جس پر آپ کی ملکیت پورے سال رہ چکی ہو۔ لیکن ہم ایسا کرنے کے لیے زیادہ تعمیری اور منطقی انداز اپنا سکتے ہیں۔ اس زکوٰۃ کی رقم کی بنیاد پر، جو ہم نے گزشتہ رمضان میں ادا کی تھی، ہم اپنی ماہانہ قسط کا حساب لگا سکتے ہیں اور کسی بھی فرق کا حساب اور ادائیگی اگلے ماہِ رمضان میں مکمل کرسکتے ہیں۔ چونکہ ماہِ شوال ابھی شروع ہوا ہے اس لیے ہم میں سے ہر ایک کے لیے اس طرز عمل کو اپنانا کافی آسان ثابت ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ، ہمیں اپنے مذہبی مالیاتی عطیات جیسے زکوٰۃ، صدقہ، خیرات وغیرہ کو پورے ہندوستان کے لیے ایک ہی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرنے کا طریقہ بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اس رقم کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز، ہنر سیکھنے کے مراکز اور کمیونٹی سینٹرز کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کر کے کمیونٹی کی ترقی، اسے بااختیار بنانے اور اس کے درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ساتھ ہی ہمیں مجموعی طور پر ہر مسجد کے ساتھ ایک کمیونٹی سینٹر قائم کرنا چاہیے جو کہ مختلف مذہبی اور دنیاوی مسائل پر اسلام کی ترجیحات کی روشنی میں ہماری رہنمائی کرسکے۔
اس کے علاوہ، بحیثیت مسلم سماج ہمیں پورے ملک میں مرکزی اور ریاستی سطح کے بیت المال ، جو بیت المال کی مختلف اسلامی شرائط کا خیال رکھتے ہوئے ہماری قوم کے غریب غرباء ہر طریقے سے مالی اور پیشہ وارانہ امداد کرسکے۔ساتھ ہی ہمیں یہ سوچ بھی اپنانی ہوگی کہ ہم زکاۃ یا خیرات صرف اس کو ادا کرنے کے مقصد سے نہیں دیں بلکہ اس کے ذریعے ہم اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ جن افراد کو یہ دی جارہی ہے وہ اسے مستقل آمدنی کا ذریعہ نہ سمجھ لیں بلکہ اس رقم کا استعمال اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوششوں کے لیے کریں تاکہ آئندہ وقت میں وہ بھی مسلم سماج کا ایک بااختیار حصہ بن سکیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ابھی بھی پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے لیکن ہماری قوم ابھی خوابِ غفلت میں مشغول ہے اور نہ ہی ہمارے ملّی اکابرین اور رہنماؤں کی جانب سے کوئی بہتر راہ دکھائی جارہی ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ اگر وہ ابھی بھی اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر مسلم سماج کے پڑھے لکھے طبقے کو آگے آکر مسلم قوم کی رہ نمائی اور قیادت کی باگ ڈور سنبھالنی ہوگی۔
مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔
ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
www.asad-mirza.blogspot.com