وقت کی قدروقیمت | زندگی کی تاریکیوں میں ایک روشن موضوع فکر و فہم

فیضان الٰہی

وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو کوئی بھی با شعور انسان سمجھ سکتا ہے ۔یہ ایک ایسا اثاثہ ہے، جسے ہم واپس نہیں کر سکتے۔ وقت کی قدروقیمت ایک ایسا موضوع ہے جسے ہمیں اپنی زندگی میں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔وقت ہی ایک ایسی چیز ہے، جس کی قدر انسان کوایسی بلند عزت دیتی ہے کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے پھر بھی تاقیامت اس کی شان باقی رہتی ہے۔انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیت میں انسان کا حقیقی سرمایہ وقت ہے۔وقت صرف سونا ہی نہیں، جیسا کہ مثل مشہور ہےبلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ان چیزوں سےبہت زیادہ قیمتی شے ہے ۔ہر کامیاب اور ناکام انسان کی آخری فریاد یہی ہوتی ہے کہ بقول میرحسن ؎
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
تیزی سے گزرتا یہ وقت انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے،گزرا وقت مختصر لگنے اور گزرنےوالا وقت تیز رفتار ہونے کا مشاہدہ ،انسان کو دنیا میں بھی ہر وقت ہوتا رہتا ہے ۔جتنی بھی عمر گزر جائے ،آنکھیں بند کر کے دیکھیں تو کل کی بات لگتی ہے ۔بچپن کی یادیں ،بھولے بسرےمناظر ،گاہے اچانک مجسم صورت میں سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں ۔پھر وقت کا حساب کریں توحیرت ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔اتنا عرصہ گزر گیا۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی رفتار سے انسان کو ہوشیار رہنا چاہئے ۔تیز رفتاری
وقت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ،یہ مانند برق و ہوا کی طرح گزرتا ہے۔خواہ وہ مسرت وشادمانی کے لمحات ہوں یا غم و حزن کے اوقات۔اگر چہ خوشی کے ایام تیزی سے گزرتے ہیںاورغم کے آہستہ آہستہ لیکن ایسا نہیں ہوتابلکہ یہ صرف متعلقہ شخص کا احساس ہوتا ہے۔لہٰذاوقت گزارنے والی چیز ہے اور گزرتا رہتا ہے اور جو گزر گیا ،اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔انسان جو پیسہ خرچ کر لے وہ دوبارہ کمایا جا سکتا ہے لیکن وہ وقت جو گزر گیا، واپس نہیںآسکتا ہے ۔وقت کے بارے میں ایک عرب شاعر کہتا ہے کہ
’’دل کی دھڑکنیں بندے کو ہر دم یہی سمجھا رہی ہیں کہ زندگی تو فقط یہی منٹ اور ثانیےہیں ۔ہر طلوع ہونے والا دن مخلوق میں منادی کرتا ہے ۔‘‘
سیل زماں میں ڈوب گئے مشہور زمانہ لوگ
وقت کے منصف نے کب رکھا قائم ان کا نام
(انور سدید)
ہماری زندگی محدود ہے، اس کے برعکس لاتعداد کام ہیں۔اگر وقت کی پابندی نہ کی جائے ،توہم مختصر زندگی میں تمام اہم کام کو انجام نہیں دے سکتے ۔وقت کی قدردانی بہت ضروری
ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے۔ وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے ،وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے،سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظررکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
جب وقت کی اتنی زیادہ اہمیت ہے،یہاں تک زندگی کے ساتھ تعبیر کیاگیا ہےتو ایک انسان کووقت کے حوالے سے بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،اس لیے اس سے چاہئے کہ ان ذمہ داریوں کو سمجھے اور ہمیشہ انھیں اپنے پیش نظر رکھے ،اور علم و ادراک کے دائرے سے آگےبڑھ کر انھیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے ۔مغربی مفکر مائیکل الٹشولر نے بڑے ہی خوبصورت طرز فکر سے وقت کی نزاکت کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’ المیہ اس کا نہیں کہ وقت تیزی سے گزرتا ہے،اچھی خبر یہ ہے کہ آپ طیارے کے مالک ہیں ۔‘‘ایک انسان پر سب سے پہلے ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اسی طرح اس کی حفاظت کرے،جس طرح اپنے مال و اسباب کی حفاظت کرتا ہےبلکہ اس سے بھی زیادہ وہ اپنے اوقات سےاستفادے کا حریص ہو،اپنے اوقات ایسے کاموں میں لگائے جن کا فائدہ دنیا و آخرت دونوں جگہ پر پہنچے ۔حسن بصری فرمایا کرتے تھے،’’میں نے ایسے لوگ دیکھے جو تمہاری حرص و درہم و دینار سے زیادہ اپنے اوقات کے حریص تھے۔‘‘ایک طرف ہم اپنے اسلاف کو دیکھتے ہیں کہ وہ وقت کے تعلق سے انتہائی حریص تھے ،اس لئے اس کی قدرو قیمت کا بھی بخوبی اندازہ تھا ، مگر دوسری طرف جب عصرحاضر میں نسل آدم کو دیکھتے ہیں تو وقت اس درجہ بےپرواہی سے ضائع کر رہے ہیں کہ ان کی بربادی تبذیر سے بڑھ کر ظلم و زیادتی جا پہنچتی ہے۔حالانکہ حق تو یہ ہے کہ اوقات کوضایع کرنے کے سلسلےکی حماقت مال کو ضایع کرنے کی حماقت سے زیادہ سنگین ہے۔بہت سےلوگ قلت وقت کی شکایت کرتے ہیں ،حالانکہ اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔ اگر ہم طے کر لیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے ،دوسری ترجیح کیا ہونی چاہئےاور تیسری کیا،تو وقت کی کمی کا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں اور مختلف کاموں کے درمیان اپنےاوقات کو منظم اور منضبط کرے ۔بقول شاعر ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
(مضمون نگارکشمیریو نیورسٹی کے شعبہ اردو میں زیر تعلیم ہیں (
[email protected]>