وقائع نگاری: تاریخ سے پہلے مورخ کو پہچانئے

تاریخ ماضی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حالات کے مجموعے کا نام ہے ۔ماضی ،حال اور مستقبل ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ماضی کی بنیادوں پر ہی حال و مستقبل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ماضی ہی کے اوراق میں انسانی زندگی کی تاریخ پوشیدہ ہے۔یہی اوراق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ انسان ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے خیالات و نظریات کو مرتب کرتا آیا ہے۔تاریخ کی ابتدا قصے اور کہانیوں سے ہوئی ۔اس لیے ایک زمانے تاریخ،بادشاہوں،بڑے بڑے لوگوں کی سوانح عمریوں ،جنگی معرکوںاور سیاسی رموز کے بیان کو ہی سمجھا جاتا تھا۔وقت کے گزرنے کے ساتھ تجربے کو پختگی اور شعور کو روشنی ملی اور انسان نے تاریخی واقعات و حالات کو عقلی و تنقیدی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا ،جو باتیں عقلی و تنقیدی معیار پر پوری اتریں وہ تاریخ کا حصہ بن گئیںاور بے معنی اور فضول تفصیلات کو تاریخ سے نکل دیا گیا۔اس طرح تاریخ کو انسانی زندگی کے اہم واقعات وحقائق کا نام دیا گیا ہے۔
 لغت میں تاریخ کامعنی ’وقت کی نشاندہی کرنا یا وقت بتانا ‘ہے اصطلاحًا تاریخ کے معنی وقت بتا کر ماضی کے احوال بیان کرنا ہے۔ماضی میں رونما ہونے والے واقعات ،جن کی سیاسی،معاشی اور معاشرتی اہمیت ہو،کو ترتیب و تدوین کر کے سنہ وار بیان کرنا تاریخ ہے ۔تاریخ علم کی وہ شاخ ہے جس سے ماضی کے حالات و واقعات کی بازیافت ہوتی ہے جس سے سماجی ارتقاء کی نشاندہی سلسلہ وار ڈھنگ سے ہوتی ہے۔علامہ شبلی تاریخ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اُن حالات و واقعات کا پتہ لگانا جن سے دریافت ہو کہ موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے سے کیوں کر نتیجہ کے بطور پیدا ہوا ہے۔‘‘
تغیر ہر چیز کی بنیادی صفت ہے ۔زندگی مسلسل تغیر کے عمل سے گزرنے کی بدولت ہی ہر لحظ اور ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ اس میں کہیں بھی سکون اور ٹھہراؤ کا عمل نظر نہیں آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماج ایک نظام سے نکل کر دوسرے نظام میں داخل ہوتا ہے۔آج سماج جس نہج پر ہے اس کے لیے گزشتہ حالات و واقعات نے پس پشت کام کیا ہے ۔موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے میں تغیر و تبدیلی کے نتیجے کے طور پر ہی پیدا ہوا ہے۔کیوں کہ سماج ایک نظام سے نکل کر دوسرے نظام میں داخل ہوتا ہے۔اس لیے تاریخی واقعات میں تبدیلی اورارتقاء کی نشاندہی (جس کی بنیاد پر موجودہ سماجی نظام وجود میں آیا)تاریخ کا اصل موضوع ہے۔تاریخی واقعات اندھیرے میں ہوتے ہیں کیوں کہ وقت سے ماضی کے حالات و واقعات پر تاریکی چھاجاتی ہے۔مورخ ماضی کے حالات و واقعات کو ازسر نو ترتیب دے کر روشن کرتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کے حالات و واقعات کو ازسرنوترتیب دے کرتفہیم و تجزیہ پیش کرنے میں مورخ کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟  
مورخ کا تعلق اپنے زمانے سے ہوتا ہے اور اپنے دور کے نظریات اور تصورات سے ہوتا ہے۔چنانچہ جو نظریات وتصورات مورخ اپنے زمانے سے حاصل کرتا ہے ،اُن کو ذہن میں رکھ کر ہی وہ تاریخی واقعات و تصورات کی تفہیم و تشریح نیز تجزیہ پیش کرتا ہے۔مورخ کے ذہن میں ماضی سے زیادہ زمانۂ حال کے نظریات ہوتے ہیں ۔ مورخ اپنے زمانے کے مسائل کا حل تاریخ کے آئینے میں تلاش کرتا ہے۔ جب بھی مورخ کسی دور کی تاریخ مرتب کرنے بیٹھتا ہے تو وہ اُس دور کی پوری زندگی کی تصویر کھینچنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ،اُسے تو صرف اُن معنی خیز واقعات کو بیان کرنے کا منشاء ہوتا ہے جو مورخ کی فکر و نظر میں حال کے مسائل کے حل اور مستقبل کی تعمیر میںمعاون و مددگار ہوں۔ اس لیے فلسفۂ تاریخ کا تعلق نہ تو فی نفسہ ماضی سے ہے اور نہ ہی تاریخ کے استنباط سے، بلکہ اس کا تعلق دونوں کے باہمی ارتباط سے ہے۔ای۔ایچ۔کار تاریخ اور مورخ کے باہمی ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
''Before you study the History,Study the Historian….and his historical and social environment.''
تاریخ کے مطالعے سے پہلے مورخ کے سماجی اور تاریخی مطالعے پر اس لیے زور دیا جاتا ہے تاکہ مورخ کے نظریات و تصورات سے کمہ حقہ واقفیت حاصل ہو جائے جس سے تاریخ کے مطالعے میں آسانی ہو جائے اور مورخ کے انداز فکر و نظر کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ای۔ایچ۔ کار مورخ اور تاریخ کے باہمی ارتباط پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: 
''You can't fully understand or appreciate the work of the historian unless you have first grasped the standpoint from which he himself approached it.(History);Scondly that, that standpoint is itself rooted in a socail and historial background."
مورخ کا میدان ماضی ہوتا ہے لیکن خود اس کی ذات کا تعلق زمانہ حال کی جیتی جاگتی دنیاسے ہوتا ہے ۔اس لیے جب تک مورخ کے افکار،نظریات و رجحانات کا صحیح اندازہ نہ ہو گا اُس وقت تک مورخ کے تاریخی تصنیفات کا انداز فکر و نظر کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔مورخ کی تاریخی تصنیفات کے انداز فکر و نظر کو سمجھنے کے لیے مورخ کی سماجی اور تاریخی ساخت و پرداخت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔تاریخی حقائق ایک وسیع سمندر میں مچھلیوں کی طرح ہوتے ہیںاور ان کے انتخاب میں بھی مورخ کے نظریات و تصورات کا دخل ہوتا ہے۔مورخ اُن ہی تاریخی حقائق کا انتخاب کرتا ہے جو مورخ کے نظریات و تصورات سے مطابقت رکھتے ہیں۔
تاریخ ایک ایسا عمل ہے جس سے انسانی تہذیب کے ارتقاء کی نشاندہی سلسلے وار ڈھنگ کی جا سکتی ہے اور   موجودہ انسانی تہذیب وثقافت اورسماجی رویوں کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے آئینے میں سماجی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔موجودہ معاشرے کو سمجھنے کے لیے گزشتہ معاشرت میں تبدیلیوں کی نشاندہی اور تبدیلیوں کے پس پردہ کارفرما عوامل کی نشاندہی ناگزیر ہے۔مورخ کا تعلق زمانہ حال سے ہوتا ہے اس لیے حال کے نظریات و تصورات سے ہی ماضی کے  انسانی نظریات و تصورات کا تفہیم و تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر تاریخ مورخ کی ہمعصر تاریخ کہلائی جاتی ہے کیوں کہ ہر دور کے مورخ کا بیان اس کے ہمعصر تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ای ۔ایچ۔کار نے تاریخ اور مورخ کے باہمی ربط پر ان الفاظ میں بحث کی ہے۔
"It is a continuous process of interaction between the historian and his facts,an unending dialogue between the present and the past."
مورخ کا کام ماضی سے عقیدت اور نہ ماضی سے اپنی شخصیت کو آزاد کرانا ہے بلکہ ماضی کو سمجھنے اور گزشتہ واقعات کے تہہ تک پہنچنے نیزاُن واقعات کا تفہیم و تجزیہ پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ زمانہ حال کے رجحانات و تصورات کو سمجھا جا سکتا ہے۔تاریخ میںتفہیم و توضیح کے فن کی بڑی اہمیت ہے۔ تاریخی حقائق کی اہمیت و افایت کا تعین کرنے میں تفہیم و تجزیہ کا اہم کردار ہوتاہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی تفہیم و توضیح مکمل نہیں ہوتی ہے البتہ حقیقت نما رائے کی حیثیت رکھتی ہے اور سماجی اداروں اور نظاموں میں تبدیلی کے ساتھ ہی موجودہ حقیقت نما رائے کی اہمیت و افادیت زائل ہو جاتی ہے۔سماجی قدروں ،اداروں اورنظاموں میں تغیر و تبدل کے ساتھ ہی نئی حقیقت نما رائے کی اہمیت اور ضرورت بڑھ جاتی ہے تاکہ تاریخ ،زمانے کے بدلنے کے ساتھ انسانی زندگی سے ہم رکاب ہو سکے۔  اس لیے فن تاریخ میں تفہیم و توضیح کو اہمیت حاصل ہے اور تاریخی حقائق کی اہمیت و افادیت کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔فن تاریخ نگاری میں تاریخی حقائق سے زیادہ تفہیم و تجزیہ کی اہمیت ہے۔تاریخی حقائق کی تفہیم و تجزیہ اور توضیح میں مورخ کے نظریات و تصورات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔کیوں کہ مورخ کے ذہن میں زمانہ حال اور اپنے ماحول کے جو تصورات و نظریات ہوتے ہیں اُن سے وہ آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے مورخ کسی تاریخی عہد کو زمانہ حال کی عینک سے دیکھتا ہے اور اُس عہد کے واقعات و حالات کو زمانہ حال کے مسائل کے آئینے میں تفہیم و تجزیہ پیش کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علم کی اہمیت مقصد کے حصول تک ہوتی ہے۔فن تاریخ نگاری میں بھی تفہیم و تجزیہ اسی مقصد کے حصول کے مطابق کام کرتی ہے اور تفہیم و تجزیہ حقیقت نما رائے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔
تاریخ کیا ہے؟اس کا عام فہم جواب یہ ہے کہ ماضی کے انسانی سرگرمیوں کو چھان بین کے ذریعے ازسرنوترتیب دینے کے عمل کو تاریخ کہتے ہیں۔یہ تاریخی عمل کتابی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی مورخ کی تاریخی تصنیفات کو جانچنے کے پیمانے کیا ہوتے ہیں؟کسی مورخ کی تاریخ نویسی کو دوسرے مورخین کے تصنیفات سے موازنہ کے علاوہ کوئی اور پیمانہ نہیں ہے جس سے مورخ کی تاریخی حقیقت کو جانچا جا سکتا ہے کیوں کہ مورخ جن تاریخی لوگوں ،عہد اور معاشرت کا انتخاب کرتا ہے وہ لوگ،زمانہ اور معاشرت جانچ و پڑتال کے لیے واپس نہیں بلائے جا سکتے ہیں جن کی روداد مورخ بیان کرتا ہے اور دوسری بات یہ کہ جو نشانات،کتبات،تحریر ات کسی عہد کے لوگوں اور معاشرت نے مورخین کے لیے پیچھے چھوڑ دیئے ہیں، وہ ہر پہلو سے اُس عہد کی انسانی سرگرمیوں کی تصویر پیش نہیں کرتے ہیں اس لیے مورخ کی تاریخ نویسی میں ذاتی قیاس بھی شامل ہوجاتی ہے۔یہ قیاس ماضی کی انسانی سرگرمی سے مشابہت اور مناسبت بھی رکھتی ہو گی اور غیر مشابہت بھی کیوں کہ قیاس آرائی میں سچائی اور جھوٹ دونوں کا امکان ہوتا ہے۔قیاس آرائی میں بھی مورخ کے ذاتی نظریات و تصورات کارفرما ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی مورخ کی تاریخ نویسی کامطالعہ کرنے سے پہلے مورخ کامطالعہ ناگزیر ہے کیوں کہ تاریخ اور مورخ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
تاریخ مورخ کے بغیر مردہ اور مورخ تاریخ کے بغیر غیر اہم ہے ۔تاریخ کی اہمیت اور روشنی مورخ کی علمیت اور محنت سے عیاں ہوتی ہے اور مورخ کی اہمیت و علمیت کا احساس تاریخ سے اجاگر ہوتا ہے۔ہر مورخ اپنے ذاتی محرکات کی بنا پر تاریخ کے بارے میں ایک نیا احسا س اورتجربہ رکھتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے سے پہلے آنے والے مورخین اور مفکرین کے تاریخی نظریات اور تصورات سے متاثر بھی ہوتا ہے ۔اس سے مورخ کی ذہنی ساخت ہوتی ہے اور اس طرح سماج کے مجموعی تاریخی شعور کے ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔تاریخ میں معاشرے کے مسلسل ارتقاء اور تہذیب و تمدن کے اُن مراحل کی نشاندہی ہوتی ہے جن سے تہذیب و معاشرے کے اداروں اور نظاموں میں تغیر و تبدیلی آئی ۔مورخ ان عوامل اور مراحل کی نشاندہی میں ذاتی محرکات ورجحانات کو شعوری یا غیرشعوری طور پر کام میں لاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مورخ کی تاریخی اور سماجی ماحول کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ اُن محرکات اور اثرات کا پتہ لگایا جا سکے جن کی بنیاد پر مورخ کا تاریخ کے بارے میں ایک نیا نظریہ اور احساس پیدا ہوا جس کی بنیاد پر مورخ سماج کے مجموعی تاریخی شعور کے ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔تاریخی حقائق اندھیرے میں ہوتے ہیں اور مورخ اُنہیں روشن کرتا ہے ۔ تاریخ مورخ کے بغیر خاموش غیر اہم ہوتی ہے۔مورخ کی اہمیت و علمیت تاریخی شعور سے اُجاگر ہوتی ہے۔
رابطہ :قصبہ دیوسر ،دیوسر کولگام
فون نمبر:   9419731268