وفا

باپ بیٹے میں آج پھر توتو میں میں ہو گئی تھی۔بیٹے نے کہا ’’آپ ہماری زندگی کو اور جہنم کیوں بنا رہے ہیں ۔ آپ ہم کو اکیلا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘باپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور بھرائی آواز میں کہا ’’جب سب کی پریشانی کی وجہ میں ہوں، تو میں اس گھر میں کیا کررہا ہوں۔؟بیٹا۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔۔۔۔تم جیو اپنی زندگی ۔۔۔۔ میں چلا اس گھر سے۔۔۔۔یہ کہہ کر باپ جانے لگا تو بیٹے نے روک لیا اور کہا’’آپ یوںہی چلے جائیں گے تو اس میں ہماری بدنامی ہوگی ،لوگ ہم کو برا کہیں گے۔میں آپ کو آشرم چھوڑ دوں گا ،آپ اپنی تیاری کرلیں۔‘‘
وقت ِ شام کو بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو آشرم چھوڑنے جا رہاتھا۔‘‘ دونوں  باپ بیٹے خاموش گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے راستے پر چلتے جا رہے تھے۔خیالات کا ہجوم دونوں کے دماغ میںبرابر امڈرہاتھا۔باپ سوچنے لگا’’جو روزمجھ سے کہانی سنے بنا نہیں سوتا تھا آج وہ میری کوئی بات نہیں سنتا۔‘‘یہ وہی بیٹا تھاجسے نوکری ملنے پر باپ نے پورے محلے میں مٹھا ئی بانٹی تھی۔اسی باپ نے اپنے بیٹے کا رشتہ بہت بڑے گھر میں کر کے بہت خوشی منائی تھی اور ہم غریب ہیں ، گھر چھوٹا ، آنے والی بہو بڑے گھر کی یہ سوچ کر گھر کو عالیشان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔جب بہو گھر آئی خوشیاں ساتھ لائی لیکن ان خو شیوں کی عمر زیادہ لمبی نہ ہوئی ۔بہونے جلد اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں گھر کا منظر ہی بدل گیا۔
بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو آشرم چھوڑ کر بس سے گھر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے دیکھا کہ پل پر کھڑے ایک شخص نے اپنی گود میں کھیل رہی بلّی کو ندی میں پھینک دیا۔بلّی باربار اپنے آپ کو پانی سے اوپر لانے کی کوشش کرتی اور پھر ندی کی گہرائی میں چلی جاتی۔
اسی بس میں اس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔وہ شخص اس کے والد کا بہت پرانا دوست تھا۔اس شخص نے اسے پہچان لیا اورکہا’’دیکھو۔۔۔۔ بیٹا یہ تمہارے بچپن کی تصویر ہے جس میں تمہارے والد تم اور میں بھی ہوں۔ اس نے تصویر ہاتھوں میں لی اور پوچھا ’’یہ فوٹو کہاں کی ہے؟‘‘ اس شخص نے کہا ’’یہ فوٹو شہر کے مشہور کالج کے گرائونڈ کی ہے۔یہ کالج کی زمین تمہارے والد کی تھی۔ تمہاری بیماری میں بہت پیسہ خرچ ہو گیا تھا ۔علاج کے لیے مزید پیسوں کی ضرورت تھی اور کہیں سے بھی انتظام نہیں ہو رہا تھا اس لیے تمہارے والد نے تمہارے علاج کے لیے یہ زمین فروخت کردی۔
وہ بڑے خوش قسمت ہے کہ انھیں تم جیسا خدمت گزاربیٹا ملاہے۔بیٹا۔۔۔ یہ سب اچھی پرورش کا نتیجہ ہے ۔میں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔‘‘یہ سنتے ہی اسے ایک جھٹکا لگا اور محسوس ہوا کہ بلّی کی طرح اسے ندی کی گہرائی میں پھینک دیا گیا ہے اور اس کا دم گھٹتاجارہا ہے۔
���
اسسٹنٹ ٹیچر محکمہ تعلیم، 
رابطہ؛متصل پولیس سٹیشن،تلوکا، نندورا، مہاراشٹرا