جس زمانے میں مغل بادشاہ جہانگیر نے وادیٔ کشمیر کو فردوس بریں کے ساتھ مشابہت دی تھی، اُس وقت وادی واقعی ویسی ہی رہی ہوگی اور اس کے خدوحال ویسے ہی پر کشش اور دلفریب رہے ہوں گے ۔یوں بھی یہ ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت یہ بلند و بالاا سٹریکچر ،کروڑوں رہائشی تعمیرات ،سرکاری مہمان خانے اور انتظامیہ کے حاکموں اور سیاست دانوں کے لئے رہائشی عیش کدے ،بازاراور شاپنگ مال ،ہسپتال اور نرسنگ ہوم ۔۔۔۔سڑکوں کا بچھا جال اور ان پر دوڑنے والے کروڑوں واہن بشمول ٹرک ،بس ،موٹر کار ،موٹر سائیکل ،سکوٹی ،پبلک ٹرانسپورٹ اور مکھیوں کی طرح اپنا راستہ بنانے والے آٹو رکھشا ،ٹیکسیاں ،سومو اور چیختے چنگھاڑتے لوڈ کیرئیر ،سیکرٹریٹ اور دیگر دفاتر ،بے شمار ہوٹل اور گیسٹ ہائوس ،فوج کے مراکز ،اُن کے فیملی کوارٹر یا اُن کے زیر قبضہ ہزاروں ایکڑ زمین ،بینکر اور واچ ٹاور وغیرہ نہیں تھے۔ہر طرف ساز بجاتے بہتے دریا ،گاتی مسکراتی آب جوُ اور اچھلتے کودتے آبشار ،مراقبے میں بیٹھیںجھیلیں اور شفاف صحت بخش اُبلتے پانی کے چشمے ،ہر طرف دل لبھانے والی ہریالی ،پھلوں کے پُر کشش باغات ،دعوت نظارہ دینے والے پھولوں کے چمن اور درختوں کے جھنڈ نظر آتے ہوں گے ۔گل بنوں ،مرغزاروں اور گلستانوں کی بہاریں دیکھنے کو ملتی ہوں گی ۔اُن ہزار ہا قسم کے نایاب پرندوں جن کا اب نام و نشان صرف کتابوں میں ہی ملتا ہے ،کی بولیاں ،مست و موہت کرنے والا سرگم اور سنگیت وجد طاری کرتا رہا ہوگا ۔آسمان پر اُودھے اُودھے ڈولتے بادلوں کے سفینے واقعی سیاحوں کو ایک طلسماتی جادوئی ماحول کی سیر کراتا ہوگا ۔اُس وقت وادی حقیقت میں جنت بے نظیر کہلائے جانے کی مستحق تھی۔
موجودہ وقتوں میں گرچہ وہ صورت حال نہیں ہے کیونکہ یہاں کے جو بہترین صحت افزاء مقامات ہیں ،خوبصورت بنگلے ،میٹھے سپنوں جیسے ریسٹ ہائوس ، پرستانوں جیسے گیسٹ ہائوس اور دیگر رہائشی سہولیات ہیں،اُن میں اغیار اور دور دور سے حکومت کرنے کے لئے آنے والے سِول اور فوجی افسران اور اہل کار گرمیوں اور تپش سے جھلسے اپنے بیرن اور اُجاڑ خشک زندگی کے لمحات کو ایک مست و مدھر روحانی جام میں ڈال کر نوش ِجاں کرتے ہیں ۔آبشاروں کے قریب ،پہاڑوں کی جھلملاتی تلہٹیوںمیں،مسحور کرنے والے چشموں کے کناروں پر اور جھیلوں کے حیات بخش پانی پر ڈولتے بجروں میں اپنی روکھی زندگی کو حیات بخشتے ہیں اور اُن کی خدمت گزاری کے لئے وہی۔۔۔۔۔وہی صدیوں پُرانا لٹا پٹا غلام ابن غلام ہے جو چشمہ شاہی میں پہاڑ کے دامن میں بنے رنگین میٹھے اور کنوارے سپنوں جیسے شب نشینوں میں آئینہ خانوں کے اندر سیاہ میموں اور گرانڈ یل صاحبوں کی خدمت گزاری تو کرتا ہے مگر اُس کے گھر والوں کو کبھی چشمہ شاہی دیکھنا نصیب نہیں ہوسکا ہے ،وہ شاہی چشمے سے برآمد ہونے والے صحت بخش شفاف پانی کالے رنگ کے میم اور صاحبوں کو پلاتا تو ہے مگر خود پانی کے چند قطروں کا محتاج رہتا ہے ، رہتا آیا ہے اور آگے بھی رہے گا کیونکہ وہ پانی ہندوستان کے کونے کونے میں جاسکتا ہے ،قریہ قریہ لے جایا اور پہنچایا جاسکتا ہے مگر وادی کے لوگوں کی چشمے پر پڑنے والی حسرت بھری نگاہیں چشمے کو دیکھ کر ہی لوٹ آتی ہیں کیونکہ یہ اُس کی پُرکھوں کی جاگیر ہوکر بھی اس کی نہیں ہے ۔اس صدیوں کے غلام نے کبھی اَمارت ،اقتدار یا دولت کی آرزو نہ کی بلکہ اس نے ہمیشہ امن و آشتی سے اپنے ملک میں،اپنے وطن میں آزاد رہ کر اپنی حیات مستعار گزارنے کی کوشش کی ہے ؎
نہ تخت و تاج کی خاطر نہ مال و زر کے لئے
دعائیں مانگتا ہوں اپنے بال و پر کے لئے
امر رئیس بہرائچی
موجودہ دور حیران کن سائنسی کرشمہ جات اور ذہن کو مائوف کرنے والی ٹیکنالوجی کی ایجادات اور بہت حد تک انسانی مدد و سہولیات کا ہے ۔آج کل ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں بہت سارے بلکہ حیران کن سہولیات میسر ہیں ،جن سے ایک انسان اگرچہ زیادہ مشقت سے بچ رہا ہے مگر حصولیابی کے میدان میں ہر رنگ سے اضافہ ہورہا ہے ۔آج سے سترہ اٹھارہ سال قبل جب میرا بیٹا سعودی عرب ملازمت کے سلسلہ میں چلا گیا (کیونکہ اُس وقت نوکری یا ملازمت پانے کے لئے پچاس ہزار روپیہ کا نذرانہ مقرر تھا جو ایک ملازم ہونے کے ناطے میرے پاس نہیں تھا )تو چھ مہینے کے بعد ہم اتفاق سے ممبئی میں تھے اور وہیں سے جب اُس کے ساتھ فون پر بات کی تو واقعی ہمیں بہت عجیب لگا کہ سات سمندر پار سے لہروں کے دوش پر سوار وہ آواز والدین ہونے کے ناطے ہمیں ایک یوفونی(Eyphony)یعنی سرمدی آواز سے کم نہ لگی اور آج چھٹی کے دن ہم کبھی دن میں دوبارہ بھی ایموپر بات بھی کرتے ہیںاور ایک دوسرے کو آمنے سامنے بھی دیکھتے ہیں۔اُس وقت بات کرنے کے بہت پیسے لگتے تھے اور آج بات کرنے کے ساتھ درشن بھی مفت میں ہوجاتے ہیں ۔واقعی ایسا ایک عجوبے سے کم نہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس حد تک ترقی کے منازل پھلانگے ہیں کہ گمان ِ اغلب یہی ہے کہ آنے والے زمانے بلکہ مستقبل قریب میں جنگیں یا اگر ہوئی تو جنگ عظیم بھی مشینی انسان ہی لڑیں گے ۔اُس وقت انسان اول تو ہوں گے نہیں اور ہوں بھی تو کم ہوں گے کیونکہ اُن کو انسان دشمن طاقتیں اور الٹی کھوپڑی کے لوگ جیسے بُش ،اوباما ،ٹرمپ ،نیتن یاہو ،بشار الاسد ،پوتن وغیرہ جیسے عامروں اور انسان دشمن طاقتوں نے کافی حد تک ملیا میٹ کردیا ہوگا کیونکہ دنیا میں فری میسن نقاب پوشوں کا یہ پوشیدہ ایجنڈا ہے کہ دنیا کا راج تاج اور حکومت چند لوگوں کے ہی ہاتھوں میں ہونی چاہئے، ورنہ دنیا میں لوگوں کی زیادہ آبادی سے روٹی ،کپڑا اور مکان جیسے بلکہ دیگر مسائل بشمول صحت عامہ ،تعلیم ،ملازمت ،پانی ، بجلی وغیرہ آن کھڑے ہوتے ہیں ۔اس لئے ایسے ایشوز اور مسائل کو پنپنے نہ دینے کے لئے وہ دنیا کی آبادی کو مختصر کرنے کے واسطے آئے دن مختلف قسم کے وائر س بناکر دنیا میں پھیلاتے ہیں تاکہ آبادی کی شرح خود بخود کم ہوتی جائے ۔یہ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے !!!
(جاری ہے۔)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995