ہمارے چہرے کے داغوں پہ طنز کرتے ہو
ہمارے پاس بھی آئینہ ہے دکھائیں کیا
ایک ہمسایہ ملک بھارت نے جب ریاست جموں کشمیر کو اپنے ماتھے کا تاج قرار دیا تھا، دوسرے ہمسایہ ملک پاکستان نے اس سرزمین کو اپنی شہ رگ کا نام دیا لیکن اب ان دونوں ایٹمی قوت کہلانے والی طاقتوں کے ساتھ نبرد آزما، اس خطہ ٔارض کے مکین اپنی تاریخ کے اُسی پڑائو پر ٹھہرائو کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جو ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کی صبح تک اس بستی کا مقدر بنا ہوا تھا۔وہ دن فرسودہ نظام شاہی سے ہمارے چھٹکارے کا دن ہونا تھا، لیکن زمانے کے تیکھے وار اور تاج و شہ رگ نام کے ر ضاعی رشتہ داروں نے اس بستی کو اُسی دن ٹھگ لیا تھا۔ پہلے پہل ساری کی ساری روٹی ہضم کرنے کیلئے ایک ملک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑا تھا لیکن اس خطہ ٔ ارض کا دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نام کے بندرکو بھی حاضر کردیا گیا۔ لوگ کچھ دیر تک اس بندر کو اقوام عالم کا بھیجا ہوا سرپنچ مانتے تھے جو دونوں بلیوں کو لڑائی چھوڑ کر صلح صفائی کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ آداب واندازِ ہمسائیگی سے پیش آنے کے خالی خولی درس دے رہا تھا لیکن برس ہا برس تک شور مچانے اور کاغذی گھوڑے دوڑانے کا کام جاری رہنے کے باوجود دو رقیب ہمسایہ ملکوں کے پیداکردہ مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جا سکا۔ اس دوران منقسم ہوئی ریاست کے دونوں حصوں کو پھر سے ملانے کا وعدہ ایفاء ہوجانے تک، آرپار دونوںحصوں میں منفرد لیکن کم و بیش یکسان نوعیت کا کام چلائو حکومتی نظام تشکیل دئے گئے۔اُس پار والی ٔریاست کو صدر کا نام دیا گیا اور اِس پار کا مد مقابل صدر ریاست کہلایا گیا۔ اُدھر اور اِدھر دونوں حصوں کے حکومتی سربراہان کو وزیر اعظم کا نام دیا گیا۔ اُدھر صدر اور وزیراعظم کے القابات کو باقی رکھا گیا، مگر نظام حکومت کو کھوکھلا بنادیا گیا اور اِدھر کے جمہوری لیبل کے تحت کچھ ہی وقت گزرجانے پر جمہوریت کے بنیادی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ اب وہاں بھی سلب شدہ حقوق وانفرادیت کی بحالی کے لئے متوالے سرگرم ہوگئے ہیں اور یہاں بہت پہلے سے ہی آزادی کے گیت گائے جانے کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ کچھ لوگ ریاستی آئین کے وقار کو بحال کرنا ہی اپنے حقوق کی واگزاری کے لئے جدو جہد قرار دیتے ہیں۔
ہمارے یہاں کی اس کوتاہ نصیب بستی کا صدر ریاست کون ہونا چاہے اور وزیراعظم کس کو بنایا جاسکتا ہے، ابھی یہ موضوع زیر بحث لانے کا وقت نہیں ہے۔ اس کا تعین کرنے کے لئے قانونی طور وضع شدہ آئین جموں کشمیر میں طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے۔ اس نظام کی توثیق د نیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت کے آئین کے دفعہ ۳۷۰ کی وساطت سے کی گئی تھی۔ ابھی ا س وقت پارلیمانی انتخابات کے ماحول میں دلی سے لے کر سرینگر تک ایک شور دفعہ ۳۷۰؍ کو ہٹانے کے لئے مچایا جارہاہے اور دوسری آوازاس دفعہ کو اپنی اصل پوزیشن پر واپس لا نے کیلئے نعرہ بازی کا ماحول خوب گرم کیا گیا ہے۔ یہ ہنگامہ آرائی بھلے ہی عارضی اوروقتی نوعیت کی ہو لیکن آزادی کا مطالبہ ایک طرف ، کشمیری عوام کا ایک معتدبہ حصہ اس دفعہ کو اپنے حقیقی رنگ میں دیکھے بنا دلی کے گریباں سے ہاتھ چھڑانے کو تیار نہیں ہے۔ریاست کے سابق صدر ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ نے ۲۰۱۶ء میں پارلیمنٹ کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرنے کے دوران آئین ہند کے پس منظر میں جموں کشمیر ریاست کی منفرد آئینی حیثیت کا تھوڑا بہت حال بیان کیا تھا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ کا کہنا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا ملک میں انضمام نہیں ہوا ہے، یعنی ریاست کو ملکی نظام میں مدغم نہیں کیا گیا ہے بلکہ دستاویز الحاق کے تحت یہ رشتہ فقط تین شعبوں یعنی دفاع، رسل و رسائل اور خارجہ پالیسی تک ہی محدود ہے۔ بعد ازاں ریاست اور ملک کے درمیان سیاسی و انتظامی تعلقات کو ہر کسی رسہ کشی سے مبرا رکھنے کیلئے ۱۹۵۲ء میں دلی اور سرینگر کی حکومتوں کے درمیان دہلی اگریمنٹ نام سے مصالحتی فارمولہ طے پایا۔ وفاقی آئین کے نفاذ اور آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کی روشنی میں طے دلی اگریمنٹ کے تحت ریاست جموں کشمیر کو اپنا الگ آئین تشکیل دینے کا حق مل گیا تھا۔ اس طرح سے ریاست کیلئے الگ جھنڈا، علیحدہ الیکشن اتھارٹی ، نظام جوڈیشری، ملیشا فوج، نشرو اطلاعات اور سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر کے اے ایس سروسز جیسے اقدامات کو قانونی درجہ دیا گیا۔ ریاست کی الیکشن اتھارٹی کی سربراہی میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قانون سازیہ کو تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اسی نظام کی دیکھ ریکھ میں والی ٔریاست (صدر ریاست) کا انتخاب کرنے کیلئے ممبران قانون سازیہ کو ووٹ دینے کا اہل قرار دیا گیا۔ انتخابات میں کامیاب سب سے بڑی سیاسی جماعت کو وزیر اعظم کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ وزیر اعظم کو اپنی سربراہی میں کونسل آف منسٹرس کا قیام عمل میں لانے کا مختار کل تسلیم کیا گیا۔ ادھر اس نظام کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوششیں جاری تھیں اور اُدھر اسی آبادی کا ایک حصہ حصول آزادی کیلئے تگ و دو کرنے میں مصروف عمل تھا۔ اس دوران حکومت ہند ریاست میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے کیلئے اقراری رہی۔ ۹ اگست ۱۹۵۳ء کے شب خون کو عملی صورت دینے کے باوجود بھی دلی سرکار ۱۹۵۷ء تک رائے شماری کرانے کے اثبات میں بیانات جاری کر تی رہی ۔ پھر اچانک طور ایک دن پاکستان کا سیٹو، سینٹو نام کے امریکی معاہدوں میں شمولیت کرنے پر اعتراض اُٹھایا گیا اور سرکارِ ہند رائے شماری منعقد کرانے سے متعلق اپنے وعد ے سے مکر گئی۔ اب تک کشمیر سے متعلق ۹؍ اگست ۱۹۵۳ء میں اُٹھائے گئے غیر جمہوری اقدامات پر کافی دھول مٹی جم گئی تھی۔ کشمیر میں ہم لوگ خود بھی خصوصی پوزیشن اور اٹانومی کا سبق بھولتے جارہے تھے۔ اقوام عالم کو اس طرح کے مسائل پر اپنا ذہن کھجلانے کیلئے فرصت کہاں ہوتی ہے؟ ایک مرکزی حکومت ہی گھنٹوں مہینوں کا حساب رکھتی تھی اور جب حالات اپنے موافق نظر آئے، سیٹو، سینٹو کی رَٹ لگانا چھوڑ کر کشمیر میں وقت وقت پر منعقد کرائے گئے انتخابات کو رائے شماری کا نعم البدل قرار دیا ۔ آگے چل کر ساٹھ کی دہائی کے وسط میں خالق برانڈ’’ انتخابات‘‘ کو ہی بنیاد بنا کر جموں کشمیر ریاست کی خصوصی پوزیشن کو تہس نہس کر نے کا اقدام بھی کیا۔ وزیر اعظم کی کرسی کے لئے نااہل ایک خودساختہ لیڈر جی ایم صادق کو چیف منسٹر بننے کے وعدے پر آلہ ٔ کار بنایا گیااور اس طرح سے کشمیری عوام کیلئے ملک کی سا لمیت کا حصہ بننے کے سارے دروازے بند کردئے گئے۔
کچھ لوگ خودکی زندگی کی پرورش کر نا بھول جاتے ہیں، مگروطن کی محبت سے بیگانہ رہنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ جیسے جس کے دل پر تصویر نقش ہوجاتی ہے، خواب بھی اُسی تصویر کے رنگ لے کر آنکھوں میں بس جاتے ہیں۔ الیکشن کے اس موسم میں یہ رنگ اور بھی زیادہ کھل اُٹھتے ہیں۔جب کہیں سے آزادی، اٹانومی اور کہیں سے خصوصی پوزیشن کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے تو دلوں میں کشمیر کی قسمت کچھ کچھ بدلنے کی تھوڑی بہت امید بھی رچ بس جاتی ہے۔ خواب بھلے ہی حقیقت میں نہ بدلیں، پر دل کے بہلانے کا کچھ دیر تک تو فرصت مل جاتی ہے۔ کون جانے کہ پھر کبھی وقت بھی کچھ ایسا بدل جائے، گاندھی کے دیش میں بھی کوئی ڈیگال جیسا لیڈ ر پیدا ہوجائے جو دہائیوں سے لٹکتے مسئلوں کو چٹکیوں میں سلجھا سکے۔ خدا نہ کرے کبھی کوئی ایسا بھی وقت آپہنچے کہ کسی سرجیکل اسٹرائیک کا رُخ تبدیل ہوکر کہیں ایٹم کے ذخیرہ ٔ تخرب کو جنبش اور گنج ِفنائیت کو حرکت دے کہ پھر نہ رہے بھینس نہ بجے بانسری والا معامہ پیش آجائے۔ بہر حال ستم گر وقت کو برداشت کرنا پڑتا ہے،لیکن کسی کو آری لے کر کاٹنے کیلئے نشانہ بنائے شاخ پر بیٹھے دیکھنا برداشت کیسے ہوسکتا ہے؟ وزیراعظم، صدر ریاست کے عہدوں کا منفی انداز میں ذکر کرکے محبوبہ مفتی جموں کشمیر ریاست کے آئین کی توہین کرنے کی مرتکب قرار دی جا سکتی ہیں۔ ایسے کچھ ستم شعار لوگوں( جو آئین کی قسمیں لے لے کر آئین کے رکھوالے مقرر ہوجاتے ہیں) کے گناہوں کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے؟ کچھ نہ ہوا ہو، محبوبہ مفتی نے آئین جموں کشمیر کا کوئی خیال کئے بغیر صدر ریاست اور وزیراعظم کے عہدوں کا منفی انداز میں ذکر کرکے ہزاروں محب وطنوں کا خواب چکنا چور کردیا ہے۔ کیا محبوبہ جی کو معلوم نہیں ہے کہ صادق اور مفتی جیسے لیڈر کشمیر میں پیدا نہ ہوئے ہوتے تو محبوبہ جی کو اپنے نامزدگی کاغذات پر آئین کشمیر کا ہی حوالہ پڑتا؟ کم سے کم اتنا تو انہیںیاد رکھنا تھا کہ اپنا فراموش کردہ سیلف رول کو نافذکرتے وقت بھی آئین جموں کشمیر کی کتاب پر ہی انہیں انگشت ِ شہادت رکھنے کی ضرورت پیش آتی۔ اب پی ڈی پی کے نصاب سے حذف ہوئے سیلف رول کا بھولے سے بھی ذکر کرنا لاحاصل بات ہے، لیکن اتنا تو یاد آہی جاتا ہے کہ ۲۰۱۵ء میں مفتی سعید کا سرکاری کرسی پر بیٹھنے کے کچھ ہی دن بعد ریاست کے آئین کی زبان، ہل والے جھنڈے کی تذلیل کی گئی تھی اورریاستی وزیر اعلیٰ نے کرسی کے ساتھ چپک کرمکمل طور چپ سادھ لی تھی۔ اب اس طرح کی باتیں یاد دلانے سے کیا حاصل ہو گا؟ تاہم یاد آہی جاتا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں جن دنوں ریاست کی اسمبلی میں اٹانومی کی مکمل بحالی کی تحریک کے بال و پر سجائے جارہے تھے، محبوبہ جی نے خوف کے مارے اسمبلی کی رُکنیت سے ہی استعفٰی دیا تھا۔ اب کے شاید وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بیان ’’ علیحدہ وزیراعظم مانگو گے،تو دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵ الف ختم کریں گے‘‘ سے پھر سہم گئی ہیں اوراس خوف کو’’ صدر ریاست اور وزیراعظم‘‘ کی کرسیوں پر مل دیا ۔ محبوبہ جی نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجماں ہونے کے کچھ وقت بعد ۲۰۱۶ء میں کشمیر میں قتل عام کے نقطہ ٔ عروج پر بھی اقتدار کی باگ ہاتھ سے کھسکنے کے ڈر سے ہی اہلِ کشمیر پر
’’ دودھ اور ٹافی‘‘ کی اشتعال انگیز چوٹ کی تھی لیکن ایک بات سچ ہے کہ یہاں عوام کے ووٹ پاور سے کوئی نہیں ڈرتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں معروف دانش ور اور تجزیہ کار اے جی نورانی سمیت درجنوں بلند فکر دانشوروں کے سمجھانے بجھانے پر اپنے والد سمیت محبوبہ مفتی نے اگر غلط سیاسی سمت لینے سے احتراز کیا ہوتا تو کشمیری عوام کو ظلم و ستم کا اس حد تک شکار نہ بننا پڑتا جوگزشتہ پانچ سال سے کشمیر کا نصیبہ بناہوا ہے ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ قوت حافظہ کا کمزور ہوجانا بھی انسان کی فطرت میں ہوتا ہے، نہیں تو محبوبہ جی جب بولتیں، تو نوٹ بندی کا تذکرہ کرتیں، جی ایس ٹی کا قصہ سناتیں ۔ حق بات یہ ہے کہ مفتی سعید نے۱۹۸۹ء میں بی جے پی کی حمایت سے ہی وی پی سنگھ سرکار کا وزیر داخلہ مقرر ہوجانے کے ساتھ ہی اس غریب قوم کو افسپا نام کاآفت ِقیامت نما تحفہ دیا تھااور اپنے دوست قوی داروغہ زندان کو پھر سے اپنی نوکری میں لیا۔ پچھلے تیس برسوں سے جہلم میں جتنا بھی افسپا کی مہربانی ا ور کرم فرمائی سے خون بہہ گیا، وہ مفتی سعید کے نافذ کردہ اسی افسپا کی ہی دین ہے لیکن اس قوم کی دریا دلی دیکھئے کہ مفتی سعید کو دوبار وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھادیا اور دنیا سے اس کی روانگی کے بعد بیٹی محبوبہ مفتی کو بھی راج تاج کا مالک کردیا تھا۔