وباء اللہ کے بندوں کیلئے امتحان ! | غرباء کے چولہے ٹھنڈے نہ پڑنے دیں

زندہ قوموں کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ وہ انسانیت کے بلند ترین جذبے سے معمورہوتی ہیں ۔اُن کا ہر فرد مصیبت کا بوجھ اٹھانے اور کسی بھی مشکل گھڑی کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور عزم و استقلال کے ساتھ اس مصیبت سے بچنے یا اس پر قابو پانے کے لئے بہتر سے بہتر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو، مصائب و مشکلات کے دن بہر حال گذر ہی جاتے ہیں اور بالآخر معمول کی زندگی لوٹ آتی ہے۔آج دنیا میں جس عالمگیر وبا ء نے قہر برپا کردیا ہے، دورِ حاضر کی ہر قوم اس کی شکار ہے۔ غمناک صورت حال کے باعث ساری دنیا میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے،ہر سُو خوف و دہشت کا ماحول طاری ہے اور ہرقوم کا فرد اسی سوچ میں غلطاں حیران و پریشان ہے کہ اس بار جس آفت ِ الٰہی نے ساری دنیا کو گھیر لیا ہے ،کب تک اس کی مہا ماری جاری رہے گی اور کب اس سے چھٹکارا حاصل ہوگا؟چنانچہ اس بار جس جان لیوا وائرس نے ایک معمولی بیمار ی کی شکل میں نمودار ہوکردنیا بھر کے لوگوں کو ایسی مصیبت میں ڈالا ہے کہ تاحال اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہوپارہا ہے اورنہ ہی کسی کو اس سے باہر آنے کا کوئی راستہ دکھائی دے رہا ہے۔جس کے نتیجہ میں کئی ترقی یافتہ ممالک کا نظام مختلف سطحوں پر تہہ وبالا ہوکر رہ گیا ہے۔ہر قوم اس کے آگے بے بس ہوچکی ہے اورہر کوئی اپنے آپ کو بے یار و مدد پا رہا ہے ۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ عالمی سطح پر اس بیماری سے کسی حد تک بچنے کیلئے اور اس پر قابو پانے کے لئے جن تدابیر پر عمل ہورہا ہے، اُن تدابیر کی اہم ذمہ داری ہر قوم کے سماج پر ہی آن پڑی ہے۔ظاہر ہے کہ اچھا سماج جسم کے مانند ہوتا ہے ،اگر جسم کے کسی حصہ میں کوئی تکلیف ہوگی تو سارا جسم دردمیں مبتلا ہوجاتا ہے۔اسی طرح سماج کا جو دکھی حصہ ہے اس کی طرف سب کادھیان جانا ہی چاہئے۔ظاہر ہے سماج افراد کا مجموعہ ہوتا ہے اور سب سے اچھا سماج وہی کہلاتا ہے جس کے ہر فرد کے دل میں ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی،مروت ،اور دلی احترام کا جذبہ موجزن ہو۔اس لئے جس شخص میں سماجی ذمہ داری کا احساس زندہ ہو تا ہے ،وہی حقیقی معنوں میںانسان کہلانے کے لائق ہوتا ہے۔زندہ اقوام کی نشانیاں بھی یہی ہوتی ہیں کہ وہ شد ائد و مصائب میں عزم وایثار کے پیکر بن کر پریشان حال لوگوں کی مدد میں جٹ جاتی ہیں۔قدرتی آفات چاہے کسی بھی شکل میں ہوں،رنگ و نسل ،مذہب و ملت ، غریب اور امیر کے درمیان فرق کئے بغیر آتی ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ متاثر ہمیشہ غریب طبقہ ہی ہوتا ہے ۔
آج پوری دنیا کرونا وائرس کی آندھی کی زد میں ہے اور اس کے خوفناک تھپیڑوں سے ہر کوئی لرزہ بر اندام ہے ۔ابھی تک اس وباء کو روکنے کیلئے کوئی ویکسین یا دوائی ایجاد نہیں ہوسکی، اس لئے ماہرین صحت دنیا بھرکے لوگوں کو یہی مشوہ دیا ہے کہ اس وباء سے بچنے کا واحد ذریعہ سماجی فاصلہ ہے یعنی انسان کو انسان سے دوری بنائے رکھنے میں ہی عافیت ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے احتیاطی تدابیر کے تحت حکومتوں کی جانب سے نافذ کیا گیا لاک ڈاؤن جاری ہے پھر بھی جان لیوا وباسے ہونے والی اموات اور متاثرین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ سے لوگوںکی خوفزدگی میں بڑھوتری کا باعث بن رہی ہے ۔  لاک ڈاون کے پیش نظر سوائے چند لازمی سروسز کے تمام سرکاری،غیر سرکاری اور نیم سرکاری دفاترو ادارے مقفل ہیں، تعلیمی اداروں ، کوچنگ سینٹر وںاور نجی اداروں میںبھی اُلو بولتے ہیں۔ہر سو سناٹے،سراسیمگی،تنائو،اظفرابی کیفیت اور غیر یقینی صورت حال میں انسان گھروں میںمقید ہیں۔سڑکوں پر صرف مریضوں کو لے جانے والی گاڑیاں اور یمبولنس ہی نظر آتی ہیں۔ریڈ زون قرار دئے گئے علاقے سیل کردیئے گئے ہیں۔
اپنی اس وادیٔ کشمیر میںاگرچہ لاک ڈائون کے تحت اس طرح کی پابندیاں یہاں کے لوگوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں تاہم آج جس سبب کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ مہلک وباء سے بچنے اوراس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ہیں ۔ان پابندیوں کی وجہ سے جہاں سرکار بھی پریشان نظر آرہی ہے وہیں ڈاکٹر ،طبی عملہ،پولیس اور لازمی خدمات کے تحت آنے والے محکموں کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ افراد فرنٹ لائین پر ہیں۔ سبھی جانتے ہیںکہ لاک ڈائون نافد ہوتے ہی عام شہری کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ہزاروں افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں کنبے فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں ،ایسے میں جہاں حکومتی سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں وہیں احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیر میں ایک بار پھر ماضی کی طرح عوام نے سماجی بیداری کے تحت لاک ڈائون سے متاثرہ لوگوں کی مدد و اعانت کرناشروع کردی ہے اور مختلف سماجی ،دینی اورفلاحی ادارے غریبوں ،محتاجوں اور ضرورت مندوں کو راحت پہنچانے کیلئے کاروائیوں میں جٹ گئے ہیں ۔ 
2005کے زلزلے کے بعد 2014کے تباہ کن سیلاب میں بھی کشمیریوں نے اپنی سماجی ذمہ داریوںکو نبھاتے ہوئے متاثرین کوان کی دہلیز پر ریلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ نامساعد حالات کے دوران بھی طویل کرفیو یا ہڑتال کی وجہ سے جب لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا تو کشمیریوں نے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر اپنے سماجی فرایض انجام دئے اور بلا رنگ و نسل اور مذہب وملت کے متاثرین میں امداد پہنچاتے رہے۔آج اس عالمی وبائی فضا میںجہاںاس طرح کا کام انجام دینا بہت ہی صبر آز ما اور مشکل مر حلہ ہے مگر پھر بھی گذشتہ چند ہفتوں سے جس انداز میں فلاحی اداروں، ،سماجی و مذہبی تنظیموں اور نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر مفلسوں، حاجت مندوں اور مستحق افراد کی مدد و اعانت کی، وہ قابل ستائش ہے۔ کئی علاقوں میں نوجوانوں حتیٰ کہ لڑکیوں نے بھی گھروں میں ہی ہزاروں ماسک بنائے اور پھر ان کو مفت تقسیم کیا ،جو قابل تحسین ہے ۔
اتنا ہی نہیں ،کشمیریت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیریوں نے آج بھی اس مشکل اور خوفناک صورتحال کے باوجود اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یہاں درماندہ غیر ریاستی مزدوروں کو امداد فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جبکہ کئی مقامات پریشان حال اور مستحق غیر ریاستی مزدوروں کی مالی اعانت کرنے اور انہیں راحت دلانے  کے لئے مقامی سطح پر چندہ بھی جمع کیا گیا ۔گذشتہ دنوں ہی لل دید ہسپتال میں زیر علاج ایک غیر ریاستی شہری کی بیوی کو راحت پہنچانے کے لئے کچھ مریضوں کے تیماداروں نے محض 10منٹوں میں ہی 10ہزار روپے جمع کرکے اسے دے دئے تاکہ بنا کسی دیر کے اس ضرورت مند مریضہ کی ضرورت پوری ہوسکے۔
امدادی کارروائیوں کے دوران کچھ ضرورت مند شرمندگی سے بچنے کیلئے امدادی سامان لینے اس لئے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ان کی تصویر نہ کھینچی جائے ،جس کی نمائش سماجی رابطہ سائٹیوں پر ہو جائے ۔اسلام نے بھی ہمیں یہ درس دیا ہے کہ صدقہ و خیرات مصیبتوں اور بلائوں کو ٹال دیتا ہے اور کسی کی مدد کرنے کے دوران نمود و نمایش سے منع کردیا ہے ۔ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ خدمت خلق کا پرچار کرنے کے بجائے امدادی کارروائیوں سے منسلک اداروں کا کام ہے کہ وہ ضرورت مندوں کو ان کی دہلیز پر امداد پہنچائیں اور یہ کام مقامی سطح پر بہ آسانی انجام دیا جاسکتا ہے تاہم یہ امداد اس طرح بانٹا جائے کہ نہ لینے والے کو بھی یہ معلوم ہوسکے کہ کس نے دیا اور نہ دینے والے کو یہ پتہ لگے کہ کس کو دیا ہے ۔لیکن اس کے باوجود بھی کچھ ناسمجھ ، ریا کار  اورجھوٹی شہرت کے دلدادہ لوگ اپنی کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرکے ان باتوں پر عمل نہیں کرتے اور مفت میں اپنی عاقبت خراب کرتے چلے جارہے ہیں۔
دموجودہ حالات میں بھی وادی میں ایسے ادارے ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں جو سخت ترین مشکلات میں بھی بغیر کسی نمود و نمائش کے ضرورتمندوں کی دہلیز تک پہنچ کر ان کی مدد کررہے ہیں اور مصیبت میں مبتلا پریشان حال لوگوں کو کسی نہ کسی حد تک راحت دلانے میں مصروف رہتے ہیں۔وقت کا تقاضا بھی یہی ہے،جسے ذی شعور طبقہ بخوبی سمجھتا ہے اور اپنی بساط کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کا ہر فرد اپنی قوم کی بقاء برقرار رکھنے کے لئے انسانیت کا چراغ روشن ر کھے اور ان سماجی فلاحی اداروں کو اپنا حتی المکان تعاون پیش پیش رکھے تاکہ یہ کام آگے بھی مزید متحرک اور منظم طریقے پر جاری رہ سکے اور اْن دور دراز علاقوں تک پہنچ جائے، جہاںلوگ تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں ۔ ہمیں سماجی ذمہ داریوں کی طرف مزید توجہ دینی چاہئے ہے اوربغیر کسی نمود و نمائش کے اپنے اڑوس پڑوس میں رہنے والے ایسے کنبوں اور افراد کی مدد کے لئے پیش پیش رہنا  چاہئے ، جن کا ذریعہ معاش لاک ڈائون کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوچکا ہیاور یہ کام محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوناچاہئے۔اگلے ہفتے سے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہونے والا ہے اور کرونا وائرس کے اس قہر زدہ آزمائشی دور میں خدمت خلق انجام دینے کا یہ ایک اچھا موقع نصیب ہوا ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوگی اور نجات کا دَر بھی کھل جائے گا ۔انشاء اللہ
رابطہ : [email protected]