سرینگر //بیرو ن ریاستوں میں پھنسے کشمیری طلاب اور مزدور ںکو گھر لانے کی خاطر انتظامیہ کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔جس کے نتیجے میں بیرون ریاستوں میں درماندہ کشمیریوں کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ جھسلمیرراجستھان کے ایک قرنطینہ مرکز میں موجود ایران سے لوٹے ایک طالب علم نے کہا کہ بدھ کو یہاں ایک مرکز میں داخل کئے گئے افراد نے 14روز کی مدت مکمل کی تھی لیکن جب انہیں گھر روانہ کرنے کے لئے انتظامات کئے جانے لگے تو دوپہر کو 3کشمیریوں کے ٹیسٹ مثبت آگئے جس کی وجہ سے انکی روانگی روک دی گئی۔انکا کہنا تھا کہ جن افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے وہ ایران سے واپس آنے والے زائرین ہیں، تاہم ان میں کوئی طالب علم نہیں ہے۔راجستھان میں مقیم ایک کشمیر ی طالب علم کے والدنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہیں وہاں 20دن ہو چکے ہیں اور 2 بار ان کے ٹیسٹ بھی کئے گئے، جو منفی آئے ہیں ۔کشمیر عظمیٰ کو چند طلاب کے والدین نے بتایا کہ 14مارچ کو ان کے بچے،جو تہران کے میڈکل کالجوں میں زیر تعلیم ہیں، ایران میں ہوئے لاک ڈائون کی وجہ سے بھارت آگئے جنہیں راجستھان کے جھسلمیر آرمی کیمپ کے قرنطینہ میں رکھا گیا ۔انہوں نے کہا کہ 28مارچ کو ان کا ایک ٹیسٹ کیا گیا ،جو منفی آیا ہے جبکہ اس سے قبل تہران میں بھی ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا اور منفی آنے کے بعد انہیں ایران چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ قریب 100سے زیادہ بچے راجستھان میں ہیں جنہیں کشمیر لانے میں حکام ناکام ہے ۔انہوں نے جموں وکشمیر حکام سے مطالبہ کیا کہ ان کے بچوں کو گھر پہنچانے کیلئے اقدمات کئے جائیں ۔ ادھر بنگلہ دیش کے مختلف میڈکل کالجوں میں زیر تعلیم طلاب بھی گھر آنے کی کوشش میں ہیں لیکن حکام کی جانب سے ہوائی سروس بند رکھنے کے سبب وہ بھی پریشانی کی حالت میں ہیں ۔اان طالب علموں نے بتایا کہ وہ بھی شدید مشکلات میں ہیںاورجموں کشمیر سرکار انہیں واپس لانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھارہی ہے ۔صرف ایران، راجستھان میں ہی کشمیری درماندہ نہیں ہیں بلکہ نئی دہلی، بنگلور، مغربی بنگام اور دیگر کئی ریاستوں میں کشمیری تاجر، طالب علم اور ملازمین درماندہ ہیں۔ نئی دہلی کے نوئیڈہ علاقے میں آصف نامی ایک طالب علم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ موسم سرما میں ٹیوشن کی خاطر دلی آئے ہوئے تھے اور اب یہاں درماندہ ہیں۔نئی دہلی کی کئی یونیورسٹیوں میں بھی طالب علم پھنسے ہوئے ہیں و واپس اپنے گھروں کو آنا چاہتے ہیں۔کئی طالب علموں نے کشمیر عظمیٰ کو فون پر بتایا کہ نئی دہلی ریذیڈنٹ کمشنر آفس میں جو ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے وہاں درجنوں بار رابطہ کرنے کے باوجود کوئی معقول جواب نہیں دیا جارہا ہے جبکہ طلاب سے کہا جارہا ہے کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں۔