وادیٔ پہلگام…حُسن فطرت کا حسین مقام

ایام  شباب سے ہی میں حُسنِ فطرت اورصناعی ٔقدرت کا والہ وشیدائی رہاہوں ۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں ہر اتوار کوکبھی پہلگام ، کبھی کوکرناگ یا کبھی ولر کے کناروں پر جاکر فطرت کے مظاہرسے محظوظ ہوکرشام دیر گئے گھر واپس لوٹتا تھا۔ شعرائے فطرت کا کلام،کلیاتِ اقبال یا اُردو وعربی رسائل وجرائد کا کوئی نسخہ یا کوئی خاص شمارہ ساتھ ہوتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان ایام میں پہلگام آلودگی سے بالکل مبّرا ، ہزاروں گاڑیوں کی بجتی سیٹیوں اور دھوئیں سے پاک اور سیاحو ں کے موجود اژدھام سے آزاد تھا۔ اِس وقت یہ سطور نصف النہار کو لدر کے کنارے تحریر ہورہی ہیں اور میں دیکھ رہاہوں کہ فرازِ کوہستان سے رواں دواں برفانی دروں کے بطن سے نکلتا ہوا صاف وشفاف پانی اپنی ٹھنڈی کے سبب خنک ہوائوں سے پورے ماحول کو خوشگوار بنارہاہے اور لدر کے کناروں پر بیٹھے ہزاروں ریاستی اور غیر ریاستی شیدایانِ فطرت گرمی کی شدت سے پیدا شدہ ذہنی وجسمانی کوفت سے قدرے راحت محسوس کررہے ہیں ۔ اٹھائیس سال پہلے کا واقعہ یادآگیا اور اِس وقت میں اسی مقام پر یہاں کھڑا ہوں جب میں جولائی 1985ء میں پروفیسرآل احمد سرور،پروفیسرکبیر احمد جائسی اور پروفیسر سید سراج الدین جیسے اکابرین علم ودانش کے ہمراہ پہلگام دیکھنے آیا تھا ۔ حسنِ فطرت بالخصوص پہلگام کے حوالے سے میں نے اپنے اساتذہ کو شمیم کرہانی اور عرش ملیسانی کے کئی اشعار سنائے تھے ۔ چنانچہ جب میں نے ’’یادآتاہے ’’ نظم پڑھی تو سرور صاحب جھوم اُٹھے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے   ؎
برستے ہیں جو فضا سے دہکتے انگارے 
تو مجھ کو اَبر پہلگام یاد آتاہے 
 اُجاڑ صبح جو ہوتی ہے ریگزاروں میں
تو ڈل کا حسن سرِ شام یاد آتاہے 
جھلکنے لگتی ہے نظروں میں شام ِجہلم 
وُلر کی صبح کا ہنگام یاد آتاہے 
مئی کی دھوپ میں جلتی ہیں جس گھڑی آنکھیں 
نظر کو ابرِ سیہہ فام یاد آتاہے
حیات جلتی ہے تپتے ہوئے مکانوں میں 
 ہمالیہ کا خنک بام یاد آتاہے 
نہ آئوں یاد میں بُستانِ کاشمرکوشمیمؔ
مجھے تو وہ سحر و شام یاد آتاہے 
وادیٔ پہلگام کا حُلیہ اب بتدریج بدل رہاہے ۔ کھنہ بل سے پہلگام تک کاراستہ صفائی ستھرائی اور ہمواری کے اعتبار سے قابل تعریف ہے لیکن قدم قدم پر ٹی سٹال ، دوکانات ، عالیشان عمارات ، ہوٹل اور ریستوران کے قیام سے اس پورے علاقے کا جغرافیہ تہ وبالاہونے جارہاہے۔ دوکان اور ریستوران کی تعمیر وتشکیل سے یقیناً اس علاقے کی معاشی زندگی پربہت ہی اچھے اثرات پڑسکتے ہیں اور مشاہدے کی بات بھی ہے کہ اس پورے علاقے کی اقتصادی زندگی رُوبہ ترقی ہے جو ایک خوش آئند عمل ہے لیکن وادیٔ پہلگام کے فطری حسن کو سالانہ چند کروڑ روپے کے عوض نیلام کرنا فطرت کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے ۔ ایک اور اہم بات کہ کشمیر کی سیاحت پر ہر سال لاکھوںکی تعداد میں سیاح اور مذہبی مقامات کی زیارت کرنے والے آتے ہیں ۔یہ سیاح ہمارے مہمان ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی ،بدیانتی یا دھوکہ دہی کشمیر کی صالح روایات کے ساتھ ظلم وتعدی کے برابرہے۔ یہاں کے باشند ے صدیوں سے پاکیزگی ، دیانتداری اور پاکبازی کے لئے چار دانگ عالم پذیرائی حاصل کرچکے ہیں ۔ سیاحت سے وابستہ سب لوگ نہیں بلکہ چند مٹھی بھر خود غرض افراد اپنے حقیر و معمولی مفادات کے لئے سیاحوں کے ساتھ پہلگام وغیرہ جاتے ہوئے ،ہائوس بوٹوں میں دورانِ قیام یا پھر خرید وفروخت کے مواقع پر کسی بھی نوعیت کی زیادتی کریں تواللہ کے نزدیک یہ قابل گرفت ہے ۔ جائز منافع میں اطمینان بھی ہے اور برکت بھی اور ناجائزطریقوں سے نفع کمانا کسی بھی تاجر کے اپنے ضمیر کے سکون کو اندر ہی اندر غارت کر دیتاہے۔ بایں ہمہ مجموعی طور سیاحتی کاروبار سے جڑے باضمیرلوگ اصولوں کی پاسداری میں کو ئی دقیقہ فروگزشت نہیں کر تے ۔
پہلگام ، گلمرگ ، سونہ مرگ یا نشاط وشالیمار کے مقامات کی سیرو تفریح واقعی طور مقامی و غیرمقامی سیاحوں کے لئے باعث اطمینان وراحت ہے یا اسکولی بچوںکا پکنک پر جانا کوئی غلط بات نہیں ہے ، لیکن یہ ہرسال کے مشاہدے کی چیز ہے کہ پکنک اور سیاحت کے نام پر ایسی بے ہودگیاں اور خرمستیاں ہورہی ہیں کہ باشعور لوگ انگشت بدنداں ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ بارہا پہلگام اور گلمرگ سے واپسی پر موٹر گاڑیوں میں رقص و سرور، فلمی نغموں کا شور شرابہ او رپھر بدمستیوں کے تکلیف دہ مناظر سے سنجیدہ طبقے کو ذہنی کوفت کاسامنا کرنا پڑتاہے ۔ اسکوٹروں او رموٹر سائیکلوں پر جوانی کے جنون میں اہرہ بل کی راہوں اور سونہ مرگ اور پہلگام کی سڑکوں پر رقص ِ بسمل کو سیر وتفریح کا نام دینا صریحاً زیادتی ہے۔ محکمہ سیاحت کے ذمہ داروں پر یہ قانونی اور اخلاقی فرض عائد ہوتاہے کہ وہ آوارہ اور اوباش قسم کے لوگوں کو ان مقامات پر جانے سے روک دیں تاکہ وہ مہمان سیاح جو مختلف شہروں سے اپنے اہل وعیال کے ساتھ چند دن گزارنے یہاں آتے ہیں اور وہ مقامی آبادی جو تہذیب وثقافت کی قدروں کی ہر حیثیت میں قائم دیکھنا چاہتے ہیں ، انہیں ذہنی اور نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
وادیٔ پہلگام کی سیروسیاحت سے چشم بینا رکھنے والے پر خالقِ ازلی کی قدرت اور اس کی صناعی وکبریائی کے راز آشکار ہوسکتے ہیں ۔ کس رعنائی اور خوبی کے ساتھ وادیٔ پہلگام کو قدرت نے سجا رکھاہے وہ قابل دید ہے ۔ پہلگام جاتے اور واپس لوٹتے ہوئے میں نے خانہ بدوشوں کی بکریوں او ربھیڑوں کے بڑے بڑے ریوڈدیکھے۔مرد، عورت اور بچے اپنے متاعِ زندگی کے ساتھ چراگاہوں کی پُرسکون فضائوں کی طرف کیسے روا دواں تھے اور پھر وہ منظر کہ ان ریوڈوں کے ساتھ خواتین اپنے نوزائدہ بچوں کوکیسے سنبھالے ہوئی تھیں … دھوپ، گردوغبار اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اُن پر بالکل اثر انداز نہیں کیونکہ یہ فطرت کی آغوش میں پلتے ہیں ۔کوئی انفکشن نہیں ۔ شعاعِ آفتاب کی تمازت سے کوئی الرجی نہیں، گردوغبار اور پولن سے کوئی کھانسی اور دمہ نہیں ،کیونکہ ان لوگوں کی صحت کا تحفظ بڑی حد تک فطرت کے ہاتھوں ہوتاہے اور پھر سوفیصدپاک وصاف دودھ او رپانی انہیں تمام تر امراض سے بچالیتاہے   ؎
فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی 
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی 
(اقبالؒ)
پہلگام اور اس جیسی خوبصورتی کے حامل دیگر مقامات کا تحفظ ہر کشمیری کا فریضہ ہے ۔ ان اَماکن ومقامات سے ہماری ہوا، فضا اور غذا جڑی ہوئی ہے ۔ یہ حسن فطرت سے آباد مناظر ومظاہر ہمارا قابل قدر اثاثہ ہیں ، ان کو خودغرضی اور دُنیا پرستی کے لئے نیلام کرنا ایک زندہ قوم کے شایان ِ شاں نہیں   ؎
سیٹی سی ہوائوں میں وہ جھرنوں کی چھماچھم
بالائے سرِ کوہ وہ اشجار کے پرچم
اک نقطے پہ ملتے ہوئے دو سلسلے باہم 
آغاز سے بھی خوب ہے انجام کا منظر
سرمایۂ تسکین ہے پہلگام کا منظر 
(عرش ؔملسیانی)
رابطہ:-اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیریونیورسٹی