ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
مجھے اپنے پی ایچ ڈی تھیسس کے لئے جس کا موضوع تھا’’ریاست کے دور دراز علاقوں میں ترقی کے آثار‘‘ کے سلسلہ میں ایک انتہائی پسماندہ گاؤں کھتر میں جانا پڑا ۔ یہ گاؤں کل ساٹھ ستر چولہوں پر مشتمل تھا۔ یہاں نہ بجلی نہ ہی پانی کا کوئی انتظام تھا ۔ لکڑیاں جلا کر گاؤں والے کھانا بناتے تھے اور یہی روشنی کا بھی ذریعہ تھا ۔ گاؤں والے پانی مقامی کنویں سے حاصل کرتے تھے۔یہاں صحت صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔ چاروں طرف گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے تھے ۔ نزدیک ترین طبی سہولت دس کلو میٹر کے فاصلہ پر تھی۔ اس تک پہنچنے کے لئے راستے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ چھوٹی پددی کچی اور پتھریلی تھی۔ لوگوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی گاؤں والے مصیبت کے دن گذار رہے تھے۔ گاؤں میں گھومتے گھومتے مجھے کئی لوگوں سے ملنے اوڑ ان سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ۔ میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جس کا نام علی محمد تھا مگر گاؤں والے اسکو پیار سے علیا کہتے تھے ۔ علیا کی عمر پینتالیس سال کے قریب تھی مگر وہ بوڑھا نظر آتا تھا ۔ وہ جھونپڑی میں رہتا تھا ۔
جب میں اس سے ملنے گیا وہ گھاس کی چٹائی پر بیٹھا بغیر دودھ کے چائے پی رہا تھا۔ ساتھ میں حقہ کے کش بھی لیتا تھا۔ اس کو شدید کھانسی ہوئی تھی مگر اس نے حقہ پینابند نہیں کیا تھا۔ وہ ریت بجری بیچ کر اور پتھرتوڑ کر اپنا گذارہ کرتا تھا ۔ وہ پتھروں کو توڑنے اور تراشنے میں کافی مہارت رکھتا تھا۔ جب تک وہ صحت مند تھا وہ کام ٹھیکے پر کرتاتھا مگر اب وہ بہت کمزور ہوگیا تھا۔
اس کا بیٹا کسی دفتر میں چپراسی تعینات تھا جس کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ وہ والدین کی بڑی خدمت کر تا تھا۔ اپنے والد کی صحت کو دیکھ کر وہ ایک دن اس کو شہر کے اسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے ایکسرے، ایم آر آئی اورباقی ٹیسٹ کرکے تشخیص کی اس کو پھیپھڑے کاکنیسر ہے ۔ ڈاکٹروں نے یہ بڑی غلطی کی کہ علیا کو صاف صاف بتایا کہ اس کو کینسر ہے جس کی وجہ سے وہ اور زیادہ تیزی سے کمزور ہوتا گیا ۔اس کی بھوک بھی ختم ہوگئی تھی ۔ اس نامراد بیماری کے باوجود وہ باقاعدگی سے تمباکو پیتا بلکہ کہتاتھا کہ اس تمباکو نوشی نے جو اپنا کام کرناتھا وہ کردیا ہے اب تمباکو پیوں یا بندکروں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
اس کے بیٹے نے شہر میں اپنی تنخواہ سے کچھ بچاکر اور بینک سے لون نکال کر ایک چھوٹا سا دوکمروں پرمشتمل مکان بنایا تھا۔ علیا گاؤں چھوڑ کر شہر جانا بالکل نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ساری زندگی اسی گاؤں میں انہی لوگوں کے بیچ گذاری تھی ، اب وہ ان کو چھوڑ کر شہر میں رہنے کیلئے بالکل رضامند نہیں تھا۔ اس کو شہر کی چکاچوند سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس کو اپنا گاؤں ہی پیارا لگتا تھا۔
علیا اپنی بیماری کی وجہ سے کافی پریشان تھا اور وہ اس پریشانی کو دفع کرنے کے لئے تمباکو کے کش پہ کش لگاتا تھا اور وقفہ وقفہ سے بغیر دودھ کے کالی کڑوی چائے پیتا تھا۔ علیا نے اپنی یہ داستان ایک ہی سانس میں سنائی وہ یہ سب کچھ سنا کر اپنے دل کا بوجھ اتارنا چاہتاتھا مگر اس کی یہ کہانی سننے کو کوئی تیار نہ تھا ۔
مجھے اس کی باتوں میں درد نظر آیا اور میں نے اس کی کہانی بڑی دلچسپی اور سکون سے سنی کیونکہ وہ ایک سیدھا سادھا صاف ستھرا انسان تھا جو دھوکہ بازی، جھوٹ اور مکاری سے کوسوں دورتھا۔ ایک موقع پر اس نے مجھے اپنی بغیر دودھ کے کالی نمکین چائے پلائی۔ چائے بہت کڑوی تھی۔ میں بڑی مشکل سے اس کے ایک دو گھونٹ حلق میں انڈیل سکا۔ اس نے مجھے اپنا حقہ بھی پیش کیا ۔ میں انکار نہ کرسکا سو میں نے اس کا دل رکھنے کے لئے ایک دو کش لئے ۔ حقے سے میرا برا حال ہوا، آنکھوں سے آنسو آئے کیونکہ یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ علیا نے معافی مانگی اور مجھ سے حقہ لے لیا اور اپنے دامن سے میری آنکھوں سے چھلکتے آنسو صاف کرنے لگا ۔
جناب ! آپ کا تو برا حال ہوا۔۔۔ عادت نہیں ہے نا آپ کو ۔ میں مانتا ہوں یہ بہت بری عادت ہے مگر کیا کروں بہت سالوں سے لگی ہے اب چھوڑ نہیں سکتا ہوں۔ اسی کی وجہ سے میری زندگی کا سورج ڈوبنے جارہا ہے۔ میں علیا کی یہ کہانی سننے کے بعد اٹھنے والا ہی تھا کہ اس کا بیٹا ڈیوٹی سے واپس آیا اس نے مجھے سلام کیااور پھر چند ساعتیں اور رکنے کی التجا کی۔
مجھے اس کا بیٹا بڑا خوش اخلاق اورمحنتی نظر آیا ۔علیا مجھے رخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور تک ساتھ آیا ۔ اس نے الوداع ہونے سے پہلے مجھے بتایا کہ میرا ایک لڑکا گاؤں میں رہتا تھا جس کا نام جنید تھا۔ کافی پڑھائی کرنے کے بعد وہ انجینئرنگ کے لئے دہلی چلا گیا تھا۔ وہاں سے کورس پورا کرنے کے بعد اس کو محکمہ آبپاشی میں نوکری ملی۔ وہ بہت ہونہار خوش اخلاق اور ملنسار تھا۔نوکری کی وجہ سے اس کاگاؤں میں آنا تقریباً بند ہی ہوگیا تھا ۔ آپ کی طرح وہ بھی میری باتیں بڑی دلچسپی سے سنتا تھا۔ ہم گھنٹوں گپیں مارتے تھے اس طرح ہمارا وقت بڑی اچھی طرح سے گذرتاتھا۔ وہ میرے ساتھ میری کڑوی چائے بھی پیتا اور کبھی کبھی حقے کے چند کش بھی لگاتاتھا۔ وہ میرے ساتھ اسی چٹائی پر بیٹھتا تھا جس پر آپ اورمیں بیٹھے تھے ۔ مجھے اکثر اس کی یاد آتی ہے ۔ نہ جانے آج کہاں ہے اورکس دفتر میں ہے؟ مجھے اس کی بہت یاد آتی ہے۔ ہم نے بہت وقت اکٹھے گذارہ ہے ۔ وہ میری بیماری کا سن کر بہت پریشان ہوگا۔ پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ اس کی ڈیوٹی اودھم پور کے محکمہ آب پاشی میں ہے۔
جموں جانے سے پہلے میں اودھم پور میں رکا اور آب پاشی کے دفتر میں اس کو ڈھونڈ نکالا ۔ اس سے علیک سلیک ہوئی وہ مجھے اپنے کوارٹر میں لے گیا ۔ جہاں ہم نے ڈھیر ساری باتوں کاتبادلہ کیا۔ علیا کی بیماری کا سن کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوا۔ اس نے علیا کی پوری تفصیل مجھ سے دریافت کی اوراس نے فوراً ہی اسی وقت گاؤں جانے کا ارادہ کیا۔ وہ بہت بے چین ہوا ۔ وہ بار بار علیا کے متعلق پوچھتا ۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ گاؤں جانے کے لئے تیار ہوا ۔
میں نے اس کو بتایا کہ میرے تھیسس کے سلسلہ میں مجھے کھتر گاؤں میں جانے کا موقع ملا۔میں گاؤں والوں اور علیا سے بھی ملا۔ میں نے اس کو بہت شفیق پایا۔
جنید جلدی نکلا اور گاؤں پہنچ کر علیا سے ملا ۔ دونوں بہت دیر تک گلے ملے ۔ دونوں کی آنکھیں خوشی سے چھلک پڑیں۔ دونوں کویقین ہی نہیں آرہاتھا کہ وہ ایک بار پھرعرصہ بعد ملے ہیں۔ باتوں کے دوران وہ دونوں کبھی کھلکھلا کر ہنستے اور کبھی روپڑتے۔ دونوں نے خوباتیں کیں۔ گپیں ماریں۔
آخر میں علیانے اپنی بیماری کی بات سنائی حالانکہ جیند کو پہلے ہی پتہ تھا لیکن اس کو علیا کی زبانی سن کر بڑا افسوس ہوا ۔
علیا نے دنیا دیکھی تھی اس نے لوگوں کی صداؤں سے لے کر پتھروں کی آواز تک سنی تھی۔ علیا باہر سے ہنستاتھا مگر اندر سے ٹوٹ چکاتھا۔ علیا جب تندرست تھا تب اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔بہت غربت تھی۔ اب جب کھانے کو اللہ کے فضل سے اچھا خاصا ہے مگر وہ اب کھا نہیں سکتا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے ۔ اس کی مرضی کے آگے سرجھکانا ہی عقل مندی ہے۔
علیا نے جنید کے سامنے اپنی آخری تمنا رکھی۔بیٹا جنید میں نے تمام عمر مکانوں اور سڑکوں کے لئے ریت بجری اور پتھرٹھیکے پر میسر کئے ۔ اب میری آخری تمنا یہ ہے کہ شہر کی مسجد کا جو از سرِ نو مین گیٹ بننے جارہا ہے اس کے لئے میں پتھر توڑ کر تراشوں تاکہ وہ گیٹ میرا بنایا یادگار رہے ۔ میں اس کے لئے کوئی معاوضہ نہیں لوں گا ۔میں اس بارے میں انجمن کے صدر سے بات کروں گا ۔ جب علیا نے بات کی تو انجمن کے صدر نے اس کی تجویزپر ہاں کہہ دی۔علیانے بڑی تیزی سے پتھر توڑنے اورتراشنے شروع کئے۔گیٹ کا پتھر لگانے کاکام آخری مراحل میں پہنچا تو علیا نے آخری تین چار ضربیں لگائیں اس کے ساتھ ہی کھانسی شروع ہوگئی اور علیا کے منہ سے خون آیا ۔ وہ وہیں پر بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ اس کا رنگ پھیکا پڑا گیا ۔ آنکھیں اوپر کو ہوگئیں۔ سارے قریب کے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ کسی نے پانی پلانا چاہا ، کسی نے ہاتھ پیر ملنا شروع کئے مگرسب بے سود۔ علیا کی روح قفس عنصری سے کب کی پرواز کرچکی تھی ۔
انا للہ وانالیہ راجعون
جموں، حال ہمہامہ بڈگام
موبائل نمبر؛8825051001