وہ بڑے اعتماد کے ساتھ جھوٹ کو سچ کا جامہ پہنا کر لوگوں سے مُخاطب تھا۔جھوٹے وعدے،جھوٹی باتیں سُن سُن کر لوگ اب عاجز آچُکے تھے۔لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں لوگ اُس کی غلط بیانی پر ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔شاید یہ اُس پُرانی عادت اور روایت کا نتیجہ تھا جو صدیوں سے چلی آرہی تھی۔بھیڑ میں سے اچانک ایک نوجوان کے مُنہ سے نکلے الفاظ نے اِس بازارِسیاست کو گرمانے والے سیاست دان کو شدید شش وپنج میں ڈال دیا ۔نوجوان زور زور سے کہہ رہا تھا،ــــ’’آج تک ہمیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہ ملا،بلکہ ہم اپنا قیمتی ووٹ دے کر آپ جیسے لوگوں کو اپنے سر پر چڑھاتے ہیںجن میں دور دور تک حُکمرانی کے اوصاف نظر نہیں آتے‘‘۔جب اِس شاطر سیاست دان نے دیکھا کہ یہ نوجوان لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے تو وہ بھڑک کر رعب دار لہجے میں اُس سے مُخاطب ہوا،’’کون ہمیں حکومت کرنے سے روک سکتا ہے۔برسوں سے یہ سب چلا آرہا ہے،تم لوگ ووٹ دیتے رہوگے اور ہم حکومت کرتے رہیں گے‘‘۔یہ سُن کر چاہیے تھا کہ لوگ اِس منسٹر کے خلاف اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتے لیکن اِس کے برعکس پورا میدان تالیوں سے گُونج اُٹھا اور منسٹر کی حمایت میں نعرہ بازی کرنے لگے۔ہوسکتا ہے کہ لوگ منسٹر کے الفاظ میں کم لیکن اُس کی رُعب دار آواز میں زیادہ کھو گئے ہوںیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ عادت سے مجبور ہوں۔حالانکہ وہ نوجوان ابھی بھی کچھ بڑ بڑارہا تھا جو تالیوں کی گونج میں گم ہوگیا۔اِس سیاسی جلسے کے اختتام پر نوجوان نے دس پندرہ لوگوں سے مُخاطب ہو کر منسٹر کے خلاف اظہارِ ناراضگی کے بجائے تالیاںبجانےکا سبب پوچھا تو وہ یہ سُن کر حیران ہوا کہ لوگ منسٹر کی حمایت میں نہیں بلکہ اُس کے خلاف آواز اُٹھا رہے تھے۔وہ عجیب انداز سے عرض کرنے لگاکہ پھر وہ آوازیں کہاں سے آرہی تھیں جو منسٹر کی مزاحمت کے بجائے اسکی بھرپوروکالت کر رہی تھی۔وہ تمسخرانہ انداز میں کہنے لگاکہ اگرچہ یہ خلائق کی آوازنہ تھی تو کیا ملائیک یہاں آئے تھے؟وہ عجیب انداز میں معلوم نہیں کس گہری سوچ میںڈوب گیا کہ اِسی بیچ اُن جمع شُدہ لوگوں میں سے ایک سیاسی کارکُن نے اپنا بند مُنہ کھولا اور کہا کہ اِس طرح کے سیاسی جلسوں میں ہر جگہ دو سے تین سیاسی کارکُن موجود رہتے ہیں جو وقتاََفوقتاََمنسٹر کی حمایت میں بے وجہ نعرے لگاتے ہیںجس سے باقی لوگ جوش میں آکر بس یونہی نعروں کا ساتھ دیتے ہیں۔نوجوان نے مزید تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دو سے تین آدمی ہم میں اور ہماری سوچ میں تبدیلی لاسکتے ہیں تو معاشرے میں موجود ہزاروں اچھے انسان اچھائی کی تبلیغ کرکے معاشرے میں تبدیلی کیوں نہیں لاسکتے؟۔ایک ادھیڑ عمر شخص نے ایک چھوٹا سا فقرہ کہہ کر بات کو مکمل کیاکہ شاید اچھے انسانوں میں نیتِ خُلوص نیت کی کمی ہوتی ہے اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں بس دِکھاوے کے لیے کرتے ہیں۔اِسی لئے جو تبدیلی آنی چاہیے تھی وہ آتی نہیں۔جمع شُدہ لوگوں میںہر کسی نے اپنا سر ہلا کر اِس بات کی تائید کی اور اپنی اپنی راہ لی۔۔۔
فون نمبر9419629933