نیا شہر

شہر کی آلودگی ،گہما گہمی اور اکتاہٹوں سے تنگ آکر سکون کے چند دن گزارنے کے لئے میں کئی مہینوں سے کسی دور دراز ،خاموش، صاف و شفاف جنگلی علاقے میں کچھ وقت گزارنے کے بارے میں سوچ رہا تھا ،لیکن میرے ذہن میں ایسی کوئی جگہ نہیں آرہی تھی ۔ایک دن میں نے اپنے ڈرائیور نیاز احمد ،جس سے میں نیازی کہہ کر پکارتا اب میرا اچھا دوست بھی بن گیا ہے ،سے اس بات کا ذکر کیا تو چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوا ۔
’’جناب ۔۔۔۔۔۔ اگر آپ میری مانیں تو یہاں سے سو میل کی دوری پر ایک شہر ہے ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’تم پھر شہر کی بات کر رہے ہو‘‘ ۔
میں نے ہنسی میں لوٹ پوٹ ہو کر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
’’حضور ۔۔۔۔۔۔ آپ میری پوری بات تو سنیے ۔وہ شہر سر سبز جنگلوں کے دامن میں واقع ایک صاف ستھرا شہر ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ جس چیز کے متلاشی ہیں وہاں آپ کوسو فیصد ایسا ہی ملے گا‘‘۔
اس نے سر سری طور اس شہر کے ماحول اور رہن سہن کے بارے میں بتایاتو مجھے قدرے اطمینان ہوا ۔ میں نے اسی کو جلدی سے اس شہر میں دس دن کے لئے رہنے کی جگہ اور دیگر ضروریات کا انتظامات کرنے کے لئے کہا۔ایک ہفتے بعد میں اپنی فیملی سمیت اس شہر کے لئے روانہ ہواور قریب تین گھنٹے بعدجب ہم اس شہر کی مضافات میں داخل ہوئے توسڑک کے دونوں اطراف کے نظارے دیکھ کر دل باغ باغ ہونے لگا۔وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات ،صاف ستھری کھلی سڑکیں،خوبصورت درختوں اور سبزے کی بہتات ،صاف و شفاف آب و ہوا اور تا حد نظر پھیلے باغات اور کھیت کھلیان فطرت سے قریب محسوس ہوتے تھے ۔
’’ حضور ۔۔۔۔۔۔ کیسا محسوس ہورہا ہے‘‘ ۔
میں ان ہی نظاروں میں کھویا ہوا تھا تو نیازی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ۔
’’ بہت بڑھیا نیازی ۔۔۔۔۔۔ تم نے واقعی ایک بہترین جگہ چنی ہے‘‘ ۔
میں نے اس کی داد دیتے ہوئے کہا اور پھر سے نظارے دیکھنے میں محو ہوگیا ۔اس دوران جو خاص بات میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ وہاں زمین کا ایک چپہ بھی کہیں بیکار نہیں تھا اور سڑکوں پر گاڑیاں کم اور پیدل چلنے والے لوگ اور سائیکل سوار زیادہ تھے ۔
’’یہ دیکھیے حضور۔۔۔۔۔‘‘۔      
 میں ان ہی سوچوں میں محوتھا تو نیازی گاڑی روکتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا۔میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا توسامنے وسیع و عریض زمین کے ٹکڑے پر بنا وہ خوبصورت فارم ہاوس تھا جسے نیازی نے ہمارے قیام کے لئے بک کیا تھا ۔نیازی نے مین گیٹ کھولا اور گاڑی لے کر اندر داخل ہوگیا ۔دور دور تک گھنے جنگلوں میں گھرے انسانی آبادی سے دور اس واحد گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہو ۔گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے چھوٹے اور پھولدار پودے قوس قزح کے رنگ بکھیر رہے تھے جب کہ مختلف قسم کے میوہ درخت بھی شامل تھے ۔مرکزی دروازے پر لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی جس پر انگوروں کے بڑے بڑے گچھے لٹک رہے تھے جب کہ عقب میں دور تک پھیلاگھاس کا میدان تھا جہاں گھوڑے،بکریاں اور گائیں چر رہیں تھیں ۔اب ہمارے لئے مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ فارم ہاوس کے صدر دروازے پر تالا لگا تھا۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد میں نے فارم ہاوس کی مالکن کو فون کیا تو اس نے فون پر ہی ہمارا والہانہ استقبال کیا اور بتایا کہ صدر دروازے کے دائیں طرف بنے بکسے میں چابیاں ہیں اور بکسہ کھولنے کا کوڈ نمبر بھی بتایا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اندر آپ کو وعدے کے مطابق ہر چیز صاف ستھری اور معیاری ملے گی اوراگر کوئی بھی شکایت ہو تو بلا تامل مجھ سے رابطہ کر لینا۔ہم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئے تو واقعی پورا گھر سجا سنورا اور انتہائی صاف ستھرا تھا اور ہر طرف بھینی بھینی خوشبو کی پھوار سی برس رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں ایک لائیبریری بھی تھی جہاں مختلف مذاہب اور دیگر موضوعات پر سینکڑوں کتابیں موجود تھیں، جن کے مطالعے میں میں ،بیگم اور نیازی اچھا خاصا وقت گزارتے تھے ۔اس کے علاوہ جس چیز سے میں زیادہ متاثر ہوا وہ یہ تھا کہ نلوں کے ذریعے چوبیوں گھنٹوں پانی کی سپلائی میسر ہونے کے با وجود فارم ہاوس کے ملحق دو بڑی بڑی پلاسٹک کی ٹینکیاں لگی تھیں جن میں بارش کے وقت چھت کا پانی جمع ہوجاتا تھا اور یہی پانی نہانے ،دھونے وغیرہ کے کام آتا تھا۔ 
دوسرے دن صبح صبح ہی ایک حسینہ پھول لے کر آئی اور گُڈ مارننگ کہہ کر بیگم کو پھول پیش کئے ، کئی اخبارات میرے سامنے رکھ دئے اور فارم ہاوس کی صفائی کرنے میں جٹ گئی ،جب کہ صفائی ختم کرنے کے بعد فارم ہاوس کے پیچھے خالی زمین میں جاکر گھوڑوں ،گائیوںاور بکریوں کو چارہ ڈالا ،گائیوں اور بکریوں کا دودھ دھو کر بڑے بڑے برتنوں میں رکھا اور کچھ وقت وہاں گزارکر چلی گئی۔ دوپہر کے وقت ایک نوجوان گاڑی لے کر آیا اور دودھ کے برتن گاڑی میں رکھ کر چلا گیا۔ ان دونوں کا روز کا یہی معمول تھا۔
ہم اکثر دو پہر کے بعد گاڑی نکال کر وہاں کے مختلف علاقوں کی طرف گھومنے جاتے تھے جس دوران ہمیں بالکل نئے تجربوں سے گزرنا پڑتا تھا ۔وہاں اکثر گھروں کے سامنے چھوٹی چھوٹی دکانیں بنی ہیں ،جن میں مختلف چیزیں فروخت کرنے کے لئے رکھی ہوتی ہیں، جن پر قیمت درج ہوتی ہے اورگاہک رقم وہاں رکھ کرخود ہی چیزیں اٹھاتے ہیں۔ایک کھلا بکس بھی رکھا ہوتا ہے جس سے آپ ادائیگی کے دوران چینج نکال سکتے ہیں ۔وہاں کوئی شخص ہوتا ہے نہ کوئی کیمرہ لیکن کیا مجال کہ کوئی گاہک چوری یا بے ایمانی کرے ۔ہم میاں بیوی وہاں کے طور طریقوں کو جلد ہی سمجھ گئے اور کافی حیران بھی ہوگئے لیکن بچے اس طرح کا ماحول دیکھ کر طرح طرح کے سوالات کرتے تھے جیسے اگر کوئی چیزیں اٹھائے اور پیسے نہ رکھے ؟یا اگر کوئی بکسے میں سے پیسے چرائے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ 
     ایک روز ہم ایک چھوٹی سی پارک میں بیٹھے تھے ،بچوں نے چپس کھا کر پیکیٹ اور مشروب کی خالی بوتل ایک طرف پھینک دی ،تھوڑی دوری پر بیٹھی ایک لڑکی نے دیکھا تو دوڑ کے آئی اور پیکیٹ اور بوتل اٹھا کر کوڑے دان میں چھوڑ کر ہمارے پاس آئی اور بڑے ہی پیار بھرے انداز میں بچوں کوایسے سمجھایا کہ وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہو گئے ۔میں نے سوچا کہ شاید یہ لڑکی پارک کی دیکھ ریکھ پر معمور ہوگی اور باتوں ہی باتوں میں اسے اسکے پیشے کے بارے میں پوچھا جب اس نے کہا کہ وہ ایک پروفیسر ہے تو میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔
     ایک روز ہم گھوم پھر کے شام دیر گئے فارم ہاوس کی طرف واپس جا رہے تھے تو گاڑٰی کا ٹائیر پنکچر ہو گیا ،نیازی ٹائیر بدلنے لگا تو میںاوربچے وقت گزارنے کے لئے ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ اسی دوران پاس ہی واقع ایک عمارت سے کچھ چاک وچوبند جوان نکل کر گاڑی کے پاس آکر نیازی سے کچھ کہنے لگے لیکن اسے ان کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی تو اس نے اشارے سے مجھے بلایا ،میں وہاں گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ پولیس کے سپاہی ہیں ۔جب میں نے ان سے کہا کہ ہم دوسرے شہر سے سیر کے لئے آئے ہیں تو انہوں نے خوش ہوکر ہمارا استقبال کیا۔ ایک جوان نیازی کی مدد کرنے لگا اور دوسرے مجھے اور بچوں کو دعوت کرکے پولیس تھانے کے اندر لے گئے اور گرما گرم کافی سے ہماری خاطر تواضع کی جب کہ تھوڑی دیر بعد نیازی کو بھی اندر لاکر کافی پلائی گئی ۔وہاں پولیس کے کچھ آفیسر اور چھ سات سپاہی موجود تھے جو بالکل بے کار بیٹھے تھے۔میں نے ایک آفیسر سے ان کی کام کی نوعیت کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ پورے سال میںیہاںقانوں شکنی کی دس بارہ شکایات ہی درج ہوتی ہیں جن میں سے اکثر دوسرے شہروں سے آنے والوں سے غلطی یا لا علمی کے سبب سرزد ہوتی ہیں جنہیں ہم کونسلنگ کرکے چھوڑ دیتے ہیں ۔
دوسرے دن ہم شہر کے مرکزی علاقے میں گھومنے کی غرض سے گئے تو وہاں ایک عمارت پر میں نے عدالت کا سائین بورڑ دیکھ کر نیازی کو گاڑی روکنے کو کہا ۔وہاں ہماری عدالتوں کی طرح سخت گہما گہمی تھی نہ دھکم پہل ۔اکا دُکا ہی آتے جاتے تھے۔عدالت کا صدر دروازہ کھلا تھا اور کچھ لمحوں کے بعد ہم گاڑی لے کر اندر داخل ہو گئے ۔عدالت کے وسیع صحن میں کوئی بھی نہیں تھا ،میں اندر داخل ہوگیا تو ملازمین اور چند وکلاء کے علاوہ وہاں آٹھ دس لوگ ہی موجودتھے ۔
’’ کہیے سر ۔۔۔۔۔۔ ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں ؟‘‘
میں ابھی وہاں کاجائیزہ ہی لے رہا تھا تو ایک ادھیڑ عمر کا خوب رو شخص مجھ سے مخاطب ہوا ۔ جب میں نے اسے کہدیا کہ ہم اس شہر میں گھومنے پھرنے کے لئے آئے ہیںتو اس نے خوش ہو کر مجھے ایک کمرے، جہاں اعلیٰ قسم کا فرنیچر تھا،میں لے کر بٹھایا اور اور بڑی خوش اخلاقی سے مجھ سے باتیں کرنے لگا جب کہ چند منٹ بعد ہی ایک نوجوان چائے اور بسکٹ لے کر آگیا ۔باتوں باتوں میں مجھے پتہ چلا کہ وہ اس عدالت میں تعینات سرکاری وکیل ہے ۔جب میں نے اسے عدالت کے کام کاج کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بر جستہ جواب دیا ۔
’’ پورے سال معمولی نوعیت کے دس بیس کیس ہی اس عدالت میں پہنچ جاتے ہیں جنہیں ہم چٹکیوں میں حل کر لیتے ہیں اس کے علاوہ شادیوں اورجائیداد کی رجسٹریشن وغیرہ کا کام ہی ہوتا ہے‘‘ ۔
’’یہاں کے جیل خانوں کے بارے میں کچھ بتائیے؟‘‘
اس کے جواب سے میرے ذہن میں دوسرا سوال ابھرا۔
’’ اس شہر کے جیل خانے ہمیشہ خالی رہتے ہیں کیوں کہ یہاں جرم ہی نہیں ہوتے‘‘ ۔
    اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ،کافی دیرتک اس سے باتیں کرنے کے بعد میں وہاں سے واپس نکلا تو نیازی کو کچھ پریشان سا دیکھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرا پرس کہیں کھوگیا، جس میںمیرا شناختی کارڈ اور دس بارہ ہزار روپے تھے ۔
’’کوئی بات نہیں دس بارہ ہزار روپے کوئی بڑی رقم نہیں ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’نہیں سر ۔۔۔۔۔۔ اس میں تیس ہزار روپے کی ایک سونے کی چین بھی تھی‘‘۔
اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ویری بیڈ ۔۔۔۔۔۔ خیر غم نہ کرو ۔۔۔۔۔۔ میں تم کو نئی چین خرید کے دونگا‘‘ ۔
میں نے اس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا تو اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
ہم نے فارم ہاوس کو دس دن کے لئے بک کیا تھا لیکن آٹھویں روز میرا ایک دوست بھی آیا جس نے مزید ایک دن ٹھہرنے کے لئے اصرار کیا ۔
 میں نے فارم ہاوس کی مالکن کو فون کرکے مہمان کی آمد اور مزید ایک دن ٹھہرنے کے بارے میں بتایا ۔میں توقع کر رہا تھا کہ وہ مہمان کا اضافی کرایہ طلب کرے گی کیوں کہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہونگے بجلی اور پانی بھی اسی حساب سے خرچ ہوتا ہے ۔
’’مہمان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جب کہ آپ بغیر کسی معاوضہ کے مزید ایک دن رک سکتے ہیں کیوں کہ اس دن کے لئے ابھی کوئی بکنگ نہیں ہے‘‘ ۔                  
اس کا یہ غیر متوقع جواب سن کر میں ششدر رہ گیا ۔گیا رہ دن ہاتھ سے سرکتی ریت کی طرح ایسے گزر گئے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا ۔اب ہم واپسی کے لئے تیار تھے اور مجھے پورا یقین تھا کہ فارم ہاوس کی مالکن سامان وغیرہ چک کرنے اور کرایہ وصولنے کے لئے ضرور آئے گی لیکن جب صبح کے دس بجے تک وہ نہیں آئی تو میں نے فون کرکے اسے مطلع کیا کہ ہم جارہے ہیں آپ آکے فارم ہاوس کو چک کیجئے اور کرایہ بھی لے کر جائیے۔پہلے اس نے انسان دوستی کے لہجے سے لبریز لہجے میںسخت اصرار کیا کہ آپ لوگ آج رات ہمارے گھر مہمان بن کے ٹھہریے ۔میں نے معذرت کرتے ہوئے اپنا سوال دہرایا تو اس نے بھی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ مصروفیات کی وجہ سے میں نہیں آسکوں گی ،آپ کرائے کی رقم چابی والے بکسے میں رکھ کر جا ئیے اور اگر آپ کو کوئی پریشانی ہوئی ہو تو اس کے لئے دل سے معاف کر دینا ۔
اس کا یہ غیر متوقع جواب سن کر میں ایک نئی ہی دنیا میں پہنچ گیا ۔ہم ابھی جانے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ نیازی کا فون بج اٹھا اور بات کرتے ہی اس کی آنکھوں میں مسرت کی چمک عود آئی ۔میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ گھر والی کا فون تھا جو کہہ رہی تھی کہ آپ کا پرس نقدی اور سونے کی چین سمیت بذریعہ ڈاک گھر پہنچ گیا ہے ۔تھوڑی دیر بعد ہم تیار ہوکر نکلے تو میں وہاں گزارے وقت اور فرحت بخش یادوں میں کھویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔دل چاہتا تھا کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی خوب صورت شہر میں رہوںجو مجھے بالکل ممکن نظر نہیں آرہاتھا۔
’’کیا ہمارا اپنا شہر اس نئے شہر جیسا نہیں بن سکتا؟؟؟‘‘
آخر اپنے شہر کو ہی اس نئے شہر جیسا بننے کے حسین خواب میری آنکھوں میں سجنے لگے اور میرے اندر ایک عجیب سا سرور چھانے لگا۔۔۔
’’ صاحب ۔۔۔۔۔ ایک بات کہدوں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
دفعتاً نیازی جو خوشی میں جھومتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا، مجھ سے مخاطب ہوا۔
’’ہاں ۔۔۔۔۔۔ کہدو‘‘۔
’’فارم ہاوس کی مالکن نے ہم سے زیادہ کرایہ وصول کیا لیکن ہم سے بھی غلطی ہوگئی‘‘۔
’’ کیسی غلطی ؟‘‘
’’ اگر ہم نے بکسے میںکچھ ہزار روپے کم رکھ لئے ہوتے تو وہ ہمیں کہاں سے ڈھونڈتی؟‘‘
نیازی کے الفاظ سن کر درد کی ایک تیز ٹیس میرے پورے وجود میں دوڑ گئی لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور مبہوت ہوکر اس کو دیکھتا رہا۔  
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ (193502)کشمیر
موبائل  نمبر9906526432
ای میل؛[email protected]