ذکی نور عظیم ندوی – لکھنو
سال اور مہینوں کا آنا جانا ایک معمول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتاجس کے ذریعہ انسان کو اپنے منصوبوں اور اس کے نفاذ کی کوشش اور اس میں پیش رفت کا جائزہ لینا چاہئے اور حسب ضرورت اس میں ردو بدل تقدیم و تاخیر اور کبھی کبھی کچھ کمی و زیادتی پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں عیسوی،ہجری،ایرانی،بکرمی یا کسی بھی کیلنڈر کا کوئی فرق اور امتیاز نہیں۔
در حقیقت اسلامی نقطہ نظر سے ہجری سال کو اسلامی سال کہنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مہینوں، عشروں اور دنوں میں ہجری قمری سال کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے روزہ، حج ، عدت کے مسائل اور بعض دیگر عبادتوں کا تعین ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اسلام میں سورج کے مقابلہ چاند کی گردش زیادہ معتبر مانی گئی ہے ، بلکہ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جس طرح ماہ و سال،عشروںاور دنوں کے تعین کے لئے رویت ہلال کا اعتبار کیا گیا، اسی طرح دن کے مختلف اوقات، وقت افطار اور نمازوں کے اوقات کے لئے سورج کی گردش کو معتبر مانا گیا۔
جہاں تک دنیا میں کیلنڈرکے نظام کی بات ہے تو یہ بہت قدیم ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور برسوں میں تقسیم اور شمار کرنے،تاریخ و ہفتہ کے دنوں کا تعین ، دنیوی نظام کو منصوبہ بند طریقہ پر انجام دینے اوراس کویاد رکھنے کے لئے دنیا میں مختلف زمانوں میںمختلف اعتبار سے مختلف کیلنڈر رائج کئے گئے جن میں عیسوی کیلنڈر، ہجری کیلنڈر،بکرمی کیلنڈر،مالیاتی کیلنڈر، تعلیمی کیلنڈر،زرعی کیلنڈر ،مختلف افراد کی تاریخ پیدائش،کاروبار،زندگی کے اہم واقعات، انسان کی عمر کا کیلنڈر اور کاروباری و معاملاتی کیلنڈر وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ہجری کیلنڈر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جسکی بنیاد چاند کی رویت پر ہے لیکن بعض ملکوں میں ہجری شمسی کیلنڈر بھی رائج ہے جن میں چاند کے بجائے شمسی نظام پر اعتماد کیا گیا ہے اور جس کو بہت سے نقطہ نظر سے عیسوی گریگورین کیلنڈر سے بھی زیادہ منظم کہا گیا ہے۔ یہ کیلنڈر ایران و افغانستان و بعض دوسرے ملکوں میںرائج اور معتبر ہے۔
شمسی سال میں زمین پوری طرح سورج کے گرد چکر کاٹ لیتی ہے جو 365اشاریہ 2425دن کے برابر ہوتا ہے۔لیکن چونکہ سال365 دنوں کا شمارکیا جاتا ہے جواصل سال سے چھوٹا ہوتا ہے اس کودرست کرنے کے لیے اکتوبر 1528ء میںتیرہویں پوپ گریگوری نے ہر چوتھے سال (جسے لیپ سال کہتے ہیں) اس سال کے سب سے چھوٹے مہینہ فروری کو 28 کے بجائے 29 کرکے ایک دن کا اضافہ کردیا جس سے یہ زیادتی 100 سال میں جمع ہو کر ایک دن کے قریب ہو جائے، اس طرح سے موسم و تاریخ کا ربط کم وبیش صحیح طور پر قائم رہتا ہے جوشمسی عیسوی سال کی ایک اہم خصوصیت ہے۔جب کہ قمری سال شمسی سال سے 11 دن چھوٹا یعنی عام طور پر 354 دن کا ہو تاہے، جس میںایک مہینہ چاند کے دو مسلسل طلوعات کا درمیانی عرصہ ہوتاہے جو رویت ہلال کی بنیاد پر 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے، اسی وجہ سے ہجری سالوں میں موسموں اور تاریخوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
لہٰذا نئے ہجری سال پر کچھ الگ پروگرام یا جشن اسلامی نقطہ نظر سے کسی طرح بہتر نہیں بلکہ دیگر کیلنڈروں کی طرح یہ بھی ماہ و سال کے تعین کا ایک حصہ ہے جس کا الگ سے کوئی امتیاز نہیں۔اس کو حضرت عمر ؓنے ہجرت کے 17ویں سال اوراپنی خلافت کے ڈھائی سال بعد سرکاری طور پر رائج کیا اور محرم الحرام کو اس کا پہلا مہینہ قرار دیا حالانکہ نبی اکرم ؐ نے ہجرت ربیع الاول کے مہینہ میں کی تھی۔ لیکن ہاں اگر کوئی سال کی تبدیلی کو مثبت بنانا چاہتا ہے تو وہ ہجری سال کے آخری اور پہلے دونوں مہینوں کی چند امتیازات کو مد نظر رکھے اوراس کی روشنی میں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے۔
۱- ہجری سال کا آخری مہینہ ذو الحجہ اورپہلا مہینہ محرم الحرام دونوں ’اشہر حرم ‘میں آتے ہیں۔ یعنی یہ دونوں مہینے اسلام میںان حرمت و احترام والے چار مہینوں میں شمار کئے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ سورہ توبہ کی آیت نمبر36 میں کیا گیا ہے ، اور جس میں ظلم و زیادتی اور قتل و خوں ریزی عام دنوں سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔
۲- ذو الحجہ ہجری سال کا آخری مہینہ ہے جو کہ ایک طرح سے گزرے ہوئے سال کے جائزہ اوراس میں کئے گئے اعمال اور عزائم و منصوبوں کے احتساب کا مہینہ ہے۔ تو محرم الحرام نئے ہجری سال کا پہلامہینہ ہے اس میں انسان کو نئے عزم و حوصلہ اور نئے ارادوں کا تعین کرنا چاہئے اور اس کی طرف منصوبہ بند طریقہ سے قدم بڑھانے کا آغاز کرنا چاہئے۔
۳- ذو الحجہ کا مہینہ، حج اس کے اعمال اور قربانی کے اعتبار سے حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑاور ان کی مخلصانہ زندگی اورقربانیوں کی یادگار ہے، تو محرم الحرام کا مہینہ حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ کی آزمائشوںاور فرعون پران کی فتح وکامرانی کی ناقابل فراموش عظیم تاریخ سے مربوط ہے۔
۴- ذوالحجہ کے شروع کے دس دن سب سے افضل ہیں جس کے بارے میں حدیثوں میں اسے دنیا کے سب سے افضل ایام قرار دیا گیا (صحیح الجامع 1133)تومسلم شریف کی روایت میں محرم الحرام میں روزہ کو ماہ رمضان کے بعد نفلی روزوں میںسب سے زیادہ افضل قرار دیا گیا(صحیح مسلم1161)
۵- ذوالحجہ کی 9 تاریخ کا روزہ صحیح مسلم اور دیگرکتب حدیث کی روایتوں کے مطابق گزرے اور آنے والے دو برسوں کے گناہوں کا کفارہ ہے (صحیح مسلم1162) تو مسلم اور دیگر محدثین کی روایتوں کے مطابق محرم الحرام کی 10 تاریخ کا روزہ بھی گزرے سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے(صحیح مسلم1162)
۶- ان دونوں مہینوں کا اس اعتبار سے بھی جائزہ لینا مفید ہو گا کہ اسلام میں آخری نبیؐ کی اطاعت و پیروی کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی دیگر تمام انبیاء پر ایمان لانا اور ان کا احترام بھی لازمی قرار دیا گیا۔ لہٰذا ذوالحجہ کا مہینہ دیگر انبیاء میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام سے عقیدت و محبت اور تعلق کی دلیل ہے تو محرم الحرام کا مہینہ حضرت موسیٰ و ہارون سے تعلق اور ان سے وابستگی کی علامت۔
۷- ذوالحجہ کا مہینہ اگر ایک طرف اللہ تعالی کی قدرت خاصہ کا مظہراور حضرت ابراہیم ؑکے آگ میں ڈالے جانے کے باوجود اللہ کی قدرت خاصہ سے بچنے کی یادگار ہے جس کا تذکرہ سورہ انبیاء کی آیت69 میں کیا گیا، تو محرم الحرام کا مہینہ سورہ طہ کی آیت نمبر 77 کی روشنی میں حضرت موسیؑ اور بنی اسرائیل کے سمندرمیں اس کی لہروں کی پرواہ کئے بغیراتر جانے اور اسی سمندر میں ان کے لئے اللہ کے حکم پر نجات کا راستہ بننے اور دشمنوں کے غرق ہو جانے کی ناقابل فراموش یادگار ہے۔
۸- ذوا لحجہ کا مہینہ سورہ الصافات کی آیت 102 کی روشنی میں اگر اللہ کی خاطر حضرت ابراہیم کے ذریعہ اپنے محبوب ترین بیٹے حضرت اسماعیل کے گلے پر چھری پھیرنے پر آمادگی کی تاریخ سے وابستہ ہے، تو محرم الحرام کا مہینہ سورہ طہ کی آیت 92-94 کی روشنی میں حضرت موسیؑ کے ذریعہ اللہ کے لئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ کر اس سوال اور فکر مندی کا اظہار ہے کہ توحید کی خلاف ورزی کے وقت تم کیا کر رہے تھے۔
یعنی نیا سال یا پرانا سال نہیں بلکہ محرم الحرام اور ذوالحجہ کے مہینے دونوں ہی عظیم پیغام اور عظیم تاریخ کی یادگار ہیں ضرورت ہے کہ ان مہینوں کے جانے یا آنے پر ہم ان پیغامات اور تاریخ کو مد نظر رکھ کر اپنی زندگی اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔
ای میل۔[email protected]