الٰہی ترا گھر ہے سُونا پڑا
ہے روٹھے ہوئے ہم سے آلِ عبا
ہوئی ہم سے جانے یہ کیسی خطا
ہے گھیرے ہوئے ہم کو کیسی بلا
ہے جس کا نہ مرہم نہ کوئی دواء
اُسی غم میں سارے ہوئے مبتلاء
ہے خائف اب انسان انسان سے
لرزتا ہے ہر کوئی مہمان سے
بنائی ہے دوری جو ایمان سے
نہیںفیض پاتے ہیں قرآن سے
زمانے پہ چھائی ہیں خاموشیاں
ہیں ڈسنے لگی اب یہ تنہائیاں
ہیں نغمہ سرا اب نہ بلبل کہیں
مزاروں پہ کھلتے نہ سنبل کہیں
چمن میں مہکتا نہیں کوئی گُل
مداوا دلوں کا ہے بس چار قُل!!
ہمیں نااُمیدی نے گھیرا ہے آج
بھری دوپہر میں اندھیرا ہے آج
خدایا ہیں تیرے ہی محتاج ہم
رکھ اب دور ہم سے یہ درد و الم
الٰہی تو کرلے اب اپنا کرم
تجھے آلِ یٰسین کی ہے قسم
یہ اُجڑا چمن پھر سے گلزار ہو
شفایاب ہر ایک بیمار ہو
مسیحی ٰ کوئی بن کے آئے یہاں
نکل آئے غم سے یہ سارا جہاں
مظفرؔ ترے درد پہ آیا ہے آج
ترے ہاتھ بندوں کی رکھنا ہے لاج
حکیم مظفرحسین مظفرؔ
باغبان پورہ، لعل بازار سرینگر
موبائل نمبر؛9622171322
بخش دے یا رب خطا
یا الٰہی زندگی میں دور کیسا آ گیا
خوف کا سایا ہر اک پیر و جواں پر چھا گیا
گم ہوئیں نزدیکیاں اور دوریاں بھی بڑھ گئیں
بے بسی اور بے کسی محرومیاں بھی بڑھ گئیں
اب نہ ساقی ہے نہ ساغر اور نہ بزم مے کشی
زندگی میں اب نہ ہے موجود کوئی دل کشی
جو تھے اپنے وہ بھی بیگانے نظر آنے لگے
ناسمجھ جتنے تھے سب اوروں کو سمجھانے لگے
کام سارے بند ہیں بیکار ہے سارا جہاں
اب نہیں زرداریاں ، نادار ہے سارا جہاں
کوچہ و بازار سے غائب ہوئیں سب رونقیں
اب نہیں آتی نظر ہیں دوستوں کی محفلیں
اب کہاں ملنا ملانا شور و غوغا ہاؤ ہو
نوجوانوں کی وہ ٹولی جا بہ جا اور کو بہ کو
اب نہ دینی مجلسیں ہیں اور نہ تقریروں کی دھوم
شاعری قوالیاں اور ناچ گانوں کا ہجوم
قید تنہائی ہے اور محرومیوں کی زندگی
اب نہ گلیوں اور محلّوں میں کہیں آوارگی
سر غرور و ناز کا نیچا کئے سارا جہاں
محو ماتم ہر طرف ہر لب پہ ہے آہ و فغاں
اک اشارے پر ترے ویراں ہوا سارا چمن
پھر بھی قائل تیری طاقت کے نہیں اہل وطن
ہے بھروسا آج بھی انسان کو تدبیر پر
اور نظر جاتی نہیں نادان کی تقصیر پر
اپنی غلطی اور خطا کا کچھ نہیں اس کو شعور
گر یہ معافی مانگ لے تو معاف ہو سارا قصور
تیرا بندہ ہے یہ صارمؔ کر رہا تجھ سے دعا
دے ہدایت اس جہاں کو بخش دے اس کی خطا
ابونصر فاروق صارمؔ
کھجور بنا، پتھر کی مسجد
پٹنہ بہار، موبائل نمبر؛6287880551