نکاح کا مبارک عمل خرافات کی نذر

اسلام میں نکاح کا مسنون طریقہ بالکل آسان، مبارک اور واضح ہے۔ ایجاب و قبول اور مہر کی ادائیگی کے بعد رخصتی دراصل پورے نکاح کا لْب لباب ہے۔ لیکن اس عمل کو آج کل ہمارے کشمیر میں یہ اتنا مہنگا اور کٹھن بنایا گیاہے کہ ہم نے اس پورے سلسلے پر ایک طرح کی روک لگا کر غلط راستوں کے در وا کئے ہیں۔ ہمارے سماج نے نکاح کے سلسلے میں ایسے ایسے ہزار ہا رسوماتِ بد کو ایجاد کیا کہ یہ کٹھن اور دشوار گزار گھاٹی کی مانند ہی اب کسی کسی سے سَر ہوتی ہے۔ نمبرشمار لگائیں اور پھر آگے قوسین میں چیزوں کا اندراج اور ساتھ میں خرچے کی رقم کو جمع کر کے لکھتے جائیں تو ایک نہ تھمنے والا سلسہ جاری و ساری ہوتا ہے۔ یہاں ہم نکاح کے حوالے سے ہمارے سماج میں ادا ہونے والی کچھ بڑی اور فضول رسومات کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ 
 1۔  "تَھپ تَراوِن" آپ اس لفظ پر غور کیجئے۔یہ آگے ہمارے پورے عمل کا عکاس ہے۔ کتنا ڈرائونا ہے یہ لفظ۔ مطلب کسی چیز پر ہاتھ صاف کرناجو ہم، ہمارا سماج پوری طرح لڑکی والوں کی پوری جمع پونجی کو رسم کی آڑ میں ہڑپ کر لیتے ہیں۔ اسے تھپ تراون یا Engagement کہہ لیجئے،میں دونوں طرف سے بڑے بڑے کاروان کھانے پینے اور دیکھنے ڈھونڈنے آر پار آتے جاتے ہیں۔ جس میں زِر کثیر خرچ ہو کر ہاتھ کچھ نہیں آتا ہے۔ 
2۔’ تھپ تراون‘ کے بعد اکثر یہاں نکاح اور رخصتی میں کچھ وقت جو بعض اوقات سال دو سال تک چلا جاتا ہے۔ اس دوران رشتہ نبھانے کی آڑ میں آوا جاہی میں فضول خرچی کی نہ کوئی حد اور حساب نہیں رکھا جاتا ہے۔ 
3۔ انگیجمنٹ کے اس دورانیہ میں "عید بوگ" جیسی رسم بھی ہمارے سماج کی ایجاد ہے۔ اس میں بھی اِدھر اُدھر سے پیسوں کو پانی کی طرح بہا کر اپنی جھوٹی لاج اور خوش آمدی کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔
4۔ کفر جب  خدا خدا کر کے ٹوٹتا ہے، تب جا کر کہیں شادی کا وقت نکل آتا ہے۔جاہل رسومات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مہندی رات جیسی ایجاد میں ہم لڑکے والے لڑکی والوں کے گھر مہندی کی ٹوکری لے کر ایک تو پیٹ کے لیے درجنوں میں سامانِ خور پیدا کرتے ہیں۔ اوپر سے اس پر طرہ یہ کہ لین دین کا سلسلہ بہت بھاری اور جاری رہتا ہے۔ جس میں مٹھائی سے لیکر گوشت ،وازوان اور سونے اور زر کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ مہندی کی رات دونوں جگہوں پر خوب ناچ گانے کی محفلوں میں جام و کباب کا خوب دور دورہ کیا جاتا ہے جس میں بلا تمیز زن و مرد ایک دوسرے کے دیدار سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ 
5۔ دولہے کا پرتپاک استقبال اگرچہ بہترین عمل ہے لیکن یہاں بھی ہم دلہن کے گھر والوں پر بوجھ ڈال کر ان سے تحفہ کی صورت میں بھاری اور قیمتی چیزیں لیتے ہیں جس میں روپیوں کی مالا سے لیکر سونے کا پورا ایک سیٹ شامل ہوتا ہے۔ 
6۔ بارات میں دولہے کے ساتھ ایک بڑے کاروان کا جانا کہاں کا انصاف ہے؟ ایک باپ کو لڑکے کے حوالے اس کی امانت لڑکی کی صورت میں سوپنی ہوتی ہے۔ یہ کتنی بدضمیری ہے کہ اسی باپ کو آپ اپنی پیٹ کی ٹھنڈک کے لیے مقروض بنائیں۔ بارات کا یہ پورا کلچر سراسر غیر اسلامی و غیر شرعی ہے جس کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی صورت میں ان تمام غاصبانہ اور جاہلانہ رسومات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ کے کسی عمل سے کوئی دوسرا کسی بوجھ تلے دب کر دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
7۔لڑکی کی رخصتی کے ساتھ ہی واپسی انکوئٹر کے طور پر درجن ڈیڑھ درجن مستورات کو ان کے ساتھ روانہ کیا جاتا ہے۔ جو فقط بدلہ لینے کی صورت میں لڑکے کے گھر چائے کباب نوش کر کے قلیل وقت میں رفو چکر ہوجاتے ہیں۔
9۔"قہوہ سال" اس میں دولہن کے میکے سے کچھ آدھے درجن لوگ سموار اور کچھ چیزیں دلہن کے لیے لے آتے ہیں۔ 
10۔ "فِرسال" جو عموماً شادی کے دوسرے یا آٹھ دس روز بعد جب دولہن سسرال سے میکے آجاتی ہے، اس کے ساتھ پھر ایک اور بڑا مجمع کھانے پینے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اس میں بھی خوب مال و مصروفہ کی تبدیلی انجام دی جاتی ہے۔ 
11۔ دلہن جب فرِسال کے بعدسسرال آتی ہے۔ تب اسے تمام گھر کے لیے  پہننے کے کپڑوں سے لیکر سونے کے ہار تک لانے پڑتے  ہیں۔ اور اس بار خاص کر دولہے کی منہ مانگی ڈیمانڈ پر اسے وہ سب کچھ حاضر خدمت کرنا پڑتا ہے جس کا شوہر اسے فرمان جاری کرتا ہے۔ 
جہیز کی بات ہی نہ کریں تو بہتر ہوگا۔جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ اور اس میں اضافت کی بہت گنجائش ہے۔ میرا مقصد فقط اتنا دکھانا ہے کہ ہم نے کیسے اپنے آپ پر ظلم کر کے خود کے لیے ایک بہت بڑا گڑھا تیار کیا ہے۔ جس میں آج ہمارا پورا سماج گرا ہوا ہے۔ 
ان تمام جاہلانہ و غاصبانہ رسومات کے زیر اثر ہمارا پورا سماجی نظام بالکل مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کے اثرات اتنے بھیانک و خوفناک ہیں جن کا بیان کرنے سے قلم بھی قاصر ہے۔ اپنے آس پاس نظریں اٹھاکر دیکھ لیجئے کہ کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شباب کی پْرجمال سیڑھی سے اْتر کر ادھیڑپن کی مایوسیوں کے نذر ہو گئے ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار میں اور آپ نہیں ؟ ہمارا ظالم سماج نہیں؟ ہماری جاہلانہ رسومات نہیں ! خدارا خود ہی فیصلہ کیجئے کہ آپ پھر کہاں تک اپنے لوگوں اور سماج کے ہمدر ہیں۔ کیا ہم اپنے سماج میں بڑھتے جرائم اور بے راہ روی،نوجوان طبقہ کی حرام جنسی آلودگی کو محسوس نہیں کرتے ؟ اور پھر بھی ہم بڑے فخر اور غرور میں حلال کی آسان راہ پہ اپنی دھن دولت کی ریل پیل سے ناجائز رسومات کا باندھ تعمیر کر رہے ہیں۔ 
اس قوم و وطن پر رحم کر کے نوجوان نسل پر احسان کریں۔آسان اور سادگی سے نکاح کرنے کو فروغ دیجئے۔ اپنی دولت کو قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کیجئے۔ کیا ہماری خبر میں یہ بھی نہیں کہ ہماری قوم میں لاکھوں ایسے بے شجر ہائے سایہ دار یتیم نوجوان لڑکیاں ہاتھ پھیلائے کسی ہمدرد کی تلاش میں ہیں۔بس کیجئے اپنے لیے اور جہنم تیار نہ کریں۔ان رسوماتِ بد کی نفی کر کے سماج میں ان کی حوصلہ شکنی کیجئے۔ تاکہ قوم و ملت کا بھلا ہوسکے۔ 
یہ پورا موضوع و مضمون نہایت ہی طویل اور ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ کچھ باتوں کا خیال رکھ کر ہم بہت سارے مسائل و مشکلات سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
1۔ اسلامی تعلیمات کے آئینہ میں ہی اس مبارک رشتہ کی داغ بیل ڈالیں۔ 
2۔دونوں طرف گھر کے ذمہ دار( والدین ) رشتہ طے ہونے کے وقت ہی نکاح کی انجام پذیری کے لیے سادگی اور آسانی پر اتفاق کریں۔ 
3۔ نکاح کی مبارک محفل کو مسجد میں ہی انجام دینے کا رواج قائم کریں تاکہ بہت ساری رسومات اور خاص کر بارات کے بوجھ سے بچا جا سکے۔ 
4۔ لڑکے خلوص نیت کے ساتھ بذاتِ خود لڑکی والوں کو یہ پیغام ارسال کریں کہ وہ ہر کسی غیر شرعی رسم سے اس متبرک رشتہ کو پاک رکھیں۔یہی اقدام لڑکی والوں کی طرف سے اٹھایا جاسکتا ہے۔ لیکن پہل بہر حال لڑکے والوں سے ہی ہونی چاہئے۔ 
5۔ دونوں طرف سے مختلف چیزوں کی ڈیمانڈ کے رواج کو بالکل ختم کریں۔ اپنی استطاعت اور دوسرے کی حیثیت دیکھ کر ہی آپسی معاملات کو بہ احسن طریقے سے انجام دیں۔ 
6۔ لڑکی کی رخصتی بھی سادگی کے ساتھ ہو۔ ساتھ ساتھ تمام رسمی دعوتوں کی بالکل نفی کر کے اپنے دین و دنیا کا خیال رکھیں۔ 
7۔لڑکے والے اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ کا اہتمام کرسکتے ہیں جس میں اردگرد محتاج و مساکین کی شرکت کو بھی لازمی بنائیں۔ 
8۔ رسومات کے تدارک کے سلسلے میں ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر ہمیشہ اپنے سماج میں سرگرم عمل رہنا ہوگا۔ تب جا کر ہماری ڈوبتی کشتی کو کوئی کنارہ مل سکتا ہے۔  
 (مضمون نگار ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر ہیں)
��������