ڈاکٹر نذیر مشتاق
الزائیمر بیماری ساٹھ سال کی عمر کے بعد شروع ہونے والی ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس میں مبتلا ہو نے کے بعد مریض اپنی یاداشت پوری طرح کھو بیٹھتا ہے۔ وہ سب کچھ بھول جاتا ہے حتیٰ کہ اپنا اور اپنے جیون ساتھی کا نام تک ۔۔۔۔علاوہ از ایں مریض پریشانی اور شدید افسردگی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
مریض کسی کو بتاتے بغیر گھر سے نکلتا ہے اور کہیں کھو جاتا ہے پھر کوئی راہ چلتا نیک انسان فون پر اس کی تصویر آپ لوڑ کرکے اس کے گھر والوں کو اطلاع دیتا ہے۔ مریض تنگ اکر کبھی بال نوچنے لگتا ہے اور کبھی ہوا میں مکے بازی کرتا ہے، کبھی کچھ کھاتا ہے اور کبھی بالکل روٹھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔اکثر خاموشی سے آنسو بہاتا ہے مگر بہتے آنسوؤں کو صاف نہیں کرتا ہے اس لیئے یہ کام سامنے بیٹھے شخص کو کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔مریض کو روز مرہ زندگی میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔مریض کی حالت دیکھ کر اس کے عزیز و اقارب بھی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اکثر ان کے منہ سے دعا نکلتی ہے۔۔۔اے اللہ اب اس مریض کے لیئے وہی کر جو اسکے لیے مناسب ہو ۔۔۔۔مطلب ایسا مریض گھر والوں پر ایک بوجھ بن جاتا ہے،اس لیے ایسے مریض کو اولڑ ایج ہوم بھیجا جاتا ہے۔۔۔ عجیب بیماری ہے یہ ۔۔۔ ڈاکٹرسلمان علی کاشانی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے نوجوان محمد سلیم سے کہہ رہا تھا جس کا باپ پچھلے دو برس سے الزائیمر بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا ۔
ڈاکٹر سلمان ایک مشہور و معروف نیورالجسٹ تھا اور مریض شاہ نواز فاروقی کے بچپن کا دوست تھا۔
وہ دونوں ایک ہی گاؤں میں پلے بڑھے اور پھر جوانی کی دہلیز پار کر کے ان کے راستے الگ الگ ہوگئے۔ سلمان ڈاکٹری کی مزید ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے لندن چلاگیا اور اس کے دوست نے اپنے گاؤں میں سیبوں کا کاروبار شروع کیا ۔دن رات محنت کر کے کروڑوں روپیہ کمایا اور پھر گاؤں سے شہر ہجرت کر کے ایک پوش کالونی میں مکان بنالیا اور اپنے بیٹے محمد سلیم کو اپنا جانشین بنا دیا ۔
ساٹھ سال کی عمر میں اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ دھیرے دھیرے سب کچھ بھولتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر سلمان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اس لیئے وہ اسی سے مشورہ کرنے کے لیے گیا۔
ایم آر آئی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے شاہنواز کو الزائیمر کا مریض قرار دیا ۔
آج اس کا بیٹا ڈاکٹر سلمان سے مشورہ کرنے آیا تھا اور ڈاکٹر نے اسے بیماری کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں ۔
مگر ڈاکٹر صاحب میرے پاپا کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم لوگ اسے بوجھ سمجھ لیں ۔۔۔۔میرا آپ سے صرف ایک سوال ہے وہ بھی اس لیئے کہ آپ ان کے بچپن کے دوست ہیں ۔۔۔۔۔وہ سب کچھ بھول چکے ہیں ۔۔وہ کسی کو بھی نہیں پہچانتے ہیں،
آپ کو بھی نہیں مجھے بھی نہیں ۔۔۔۔ماں کو بھی نہیں ۔۔۔۔مگر وہ اکثر اوقات ۔۔نور۔۔نور نور کہتے ہیں۔
یہ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے آپ سے پہلے بھی پوچھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا ۔۔۔آخر یہ نور کیا ہے ۔۔کہیں وہ روشنی کی تلاش میں تو نہیں ۔۔کہیں اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تو نہیں چھا جاتا ہے اور وہ نور کی تلاش میں نکل پڑتا ہے کہیں وہ روحانیت کی راہ پر جانے کی تیاری تو نہیں کر رہا ہے۔۔۔ آخریہ نور کیا ہے۔
ڈاکٹر اپنی جگہ سے کھڑ ہوا اور اپنے چیمبر کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا۔ آسمان پر آوارہ بادل کے ٹکڑے صاف نظر آرہے تھے ۔ کھڑکی کے قریب چنار کے درخت کی ایک ٹہنی پر ایک اکیلا کبوتر اداس بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر نے کھڑکی بندکی اور دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔اس نے بیل بجایا
اور چپراسی سے کہا ۔۔۔دو کوفی لے آؤ ۔۔۔
ہاں تو تم نے یہ سوال با رہا پوچھا ۔۔۔۔چلو آج میں جواب دیتا ہوں ۔۔۔۔
تمہارا باپ اور میں گاؤں میں ایک ہی جگہ رہتے تھے اور ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے ۔۔۔اس لیے ہم دونوں ایک دوسرے کے ہر راز سے واقف ہیں،
اب اگر میں بچپن کے سارے واقعات بیان کروں تو ہمیں مہینوں ایک ساتھ رہنا پڑے گا ۔۔۔
تمہارا باپ سارے گاؤں میں سب سے اچھا مگر بہت شرمیلا اور سیدھا سادہ لڑکا تھا۔
ہر کوئی اس سے پیار کرتا تھا ۔۔۔۔۔لڑکیاں بھی اس سے بہت متاثر تھیں ۔۔۔۔۔۔مگر وہ چوں کہ شرمیلا تھا اس لیے لڑکیوں سے دور رہتا تھا ۔۔۔۔مگر اس کے باوجود بھی وہ محبت کے پہلے تیر سے بچ نہیں سکا ۔۔۔۔اس کے گھر کے سامنے والے مکان میں رہنے والی ایک انتہائی خوبصورت لڑکی نے اسے دل دیا اور ۔۔۔۔ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہوا۔۔میں ان دونوں کا خفیہ ڈاکیہ تھا ۔۔وہ۔دونوں صرف خطوط کے ذریعے ملتے تھے۔۔ انہوں نے دور سے ایک دوسرے کو دیکھا مگر کبھی بھی ایک دوسرے کو چھوا نہیں۔۔محبت کی یہ کہانی بڑی عجیب تھی۔
محمد سلیم بڑی دلچسپی سے اپنے باپ کی پریم کہانی سن رہا تھا۔پھر کیا ہوا ۔۔۔۔۔اس نے پوچھا۔
ڈاکٹر نے کوفی کی ایک چسکی لی اور اشارے سے سلیم کو بھی کوفی پینے کے لئے کہا ۔۔۔۔۔
پھر وہی ہوا جو پیار کرنے والوں کے ساتھ ہوتا آیاہے ۔۔۔۔۔۔۔لڑکی والوں کو کسی طرح پتہ چلا اور انہوں نے وہاں سے ہجرت کر لی اور دو پریمیوں کو جدائی کا زہر پینا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس کہانی کا اس کے نور نور کہنے سے کیا تعلق ہے ۔۔۔۔محمد سلیم نے پوچھا۔
بیٹا ۔۔۔۔جس لڑکی کے ساتھ اس نے بچپن میں والہانہ عشق کیا اس کا نام نور النساء ہے اور میرا دوست تمہارا باپ اسے ہمیشہ نور کے نام سے خط لکھا کرتا تھا۔ اور مجھ سے ہمیشہ کہتا۔۔لے یار یہ خط میری جان میری نور تک پہنچا دے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے بھیگی آنکھوں کے کنارے رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا
اوہ ۔ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔وہ کہاں ہے ۔۔۔محمد سلیم نے پوچھا
ڈاکٹر نے کرسی سے کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ سلیم کے شانوں پر رکھتے ہوئے کہا
وہ آج بھی اپنے شاہنواز کا انتظار کر رہی ہے ۔
���
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419004094