سید مصطفیٰ احمد
میں بھاری دل کے ساتھ یہ باتیں لکھ رہا ہوں کہ لاکھوں بےروزگار نوجوانوں کا درد اب میرا بھی درد بن کر رہ گیا ہے۔ نوجوان سرکاری نوکریوں کی آس لگائے بیٹھے یاس ہوگئے ہیں،اُن کے ارمانوں کا گلا ہی گھونٹ دیا گیا جن کے سہارے انہیںزندگی حسین اور پائیدار دکھائی دیتی تھی۔ لوگ مجھ سے ان باتوں پر اختلاف کرسکتے ہیں کہ نوجوانوں کا نجی سیکٹر سے دور رہنا، آرام پسند زندگی، ہنر سے خالی تعلیم، exposure کی کمی، موجودہ زمانے کی باریکیوں سے ناواقفیت وغیرہ جیسی حقیقتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ بےروزگار ہیں۔ ہاں! ان حقائق کو تو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے، لیکن اگر جامع اور ٹھوس بنیادوں پر بات کی گہرائی میں اُتر کر دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا اصل میں حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ لفظ ’’حکومت‘‘ اپنے اندر اتنی گہرائی کا حامل ہے کہ اگر اوراق کے ڈھیر بھی لگائے جائیں تب جاکر بھی بات ادھوری رہ جائے گی۔ گورنمنٹ کا کام ہے کہ وہ ایسا نظام ترتیب دے، جس میں نوکریاں پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہو۔ وسائل کا بھرپور استعمال کرکے اور اعلیٰ اذہان سے صلاح مشورہ کرکے scarce resources کا کارآمد اور جاندار استعمال کریں۔ Labour intensive کے ساتھ ساتھ capital intensive اور high-yielding شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ اس کے برعکس سارا الزام نوجوانوں پر ہی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکیں۔ جب ایک ملک کے مختلف شعبے ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہوں، تو ایسے میں نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیرنا قدرتی بات ہے۔ اس ضمن میں مختصر تفصیل مندرجہ ذیل سطروں میں آرہی ہے۔
اگر کسی ملک کی ترقی ناپنی ہو تو سب سے اچھا پیمانہ اس ملک کے نظام تعلیم کو تول کر کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم ہی نوجوانوں کی امنگوں پر پانی پھیرتا ہے۔ جب تعلیم کوذاغ بننے دیا جائے، تو شاہین بننے کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ ایک نظام تعلیم نوجوانوں کو حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لئے تیار کرتا ہے۔ موجودہ زمانے کی تیز رفتار زندگی میں پتھر دور کی تعلیم کہیں پر بھی میل نہیں کھاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور Generative AI کے اس دور میں گھپائوں والا علم کارآمد نہیں ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہاں نصاب ترتیب دینے والے اس بات پر روز دیتے ہیں کہ the cultural roots سے منقطع ہونے کے معنی زندگی سے دور ہونے کے ہیں۔ کسی حدتک یہ بات صحیح ہے، لیکن ایک بات کو ہی پتھر کی لکیر سمجھنے کی وجہ سے ہمارے یہاں اب اس کے زہریلے کانٹے نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔ نوجوان بےروزگاری کی گہری کھائی میں اوندھے منہ گرگئے ہیں۔ جب موجودہ تعلیمی نظام نوجوانوں کی ضروریات زندگی پورا کرنے سے قاصر ہیں، تو اس فضول کام میں اپنی زندگی کے قیمتی سال ضائع کرنا کا کیا فائدہ! میرا سوال حکومت سے ہے کہ جب نوکریاں ہی نہیں ہیں، تو لاکھوں طلباء و طالبات کا ہر سال تعلیمی اداروں میں داخل ہونے کا کیا ماحصل ہوگا؟ یہ ایک وجہ ہے جس سے بےروزگاری کی زمین زرخیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی نظام بھی بےروزگاری کی جڑوں کو سینچتا رہتا ہے۔ دنیا کے ٹھیکیداروں نے ایسا معاشی نظام ترتیب دیا ہے کہ the Bretton Woods سے لے WTO اور IMF نے ہمارے مُردہ جسموں سے ایک ایک بوند چوس کر رقص مستانہ کا ماحول قائم کیا ہے۔ Dollar اور Adam Smith کا سرمایہ درانہ نظام ایک انسان کو جانور بنانے پر تلا ہوا ہے۔ Profit اور Market Economy کے جنون نے capitalists کو تو دیوانہ بنایا ہی تھا، اب ہم بھی اس دیوانگی کے اتنے خوگر ہوگئے ہیں کہ رشتے ناطے، مذہب، عزت، بےعزتی، سیاست، وغیرہ ساری چیزیں اب the Invisible Hand کے آستانے پر ذبح ہوگئے ہیں۔ John Perkins کی کتاب” The Confessions of an Economic Hitman” میں اس بات کی مثالیں ملتی ہیں کہ کیسے economic institutions دنیا کی معیشت کو manipulate کرتے ہیں۔ہاں! مصنف کی باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات سے انکار کی گنجائش ممکن نہیں ہے کہ big corporations نگران کا بھی اور راہزن کا بھی رول ادا کرتے ہیں اور پوری دنیا میں حالات کو بگاڑ دیتے ہیں، جس کی ایک مثال نوجوانوں کا بےروزگار ہونا ہے۔ ان دو وجوہات کے علاوہ، جیسے کہ مندرجہ بالا سطروں میں اس بات کا مختصر ذکر کیا گیا ہے کہ حکومتی پالیسیاں بھی نوجوانوں کو توڑ کر رکھتی ہے۔ جب سیاست کسی حدتک صاف ہوتی ہے تو فیصلے بھی صاف ہوا کرتے ہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں لوگوں کی ذہنی پختگی جانچنے کے بجائے ان کا حساب لگایا جاتا ہے۔ اس سے خالص اور کھوٹا الگ کرنا محال ہوجاتا ہے۔ یہی نمبرات کی بنا پر حکومتی اداروں کو چلانے والے ایسے کارِبد انجام دیتے ہیں کہ قابل اور محنتی لوگ، خاص کر نوجوانوں چکی کے دو پاٹوں میں پستے رہتے ہیں۔ جو بھی کوئی لیڈر اَن پڑھ لوگوں کی وجہ سے کرسی پر براجمان ہو، وہ کیسے قوم کی ناؤ کو بھنور سے نکال سکتا ہے۔ ان حالات میں عقل سوچنے سے قاصر ہوتی ہے کہ اس قسم کے لوگ قوم کا کیا بھلا کرسکتے ہیں۔
پوری دنیا automation اور replacement کی طرف رواں دواں ہے۔ نوجوانوں کو انسان سمجھتے ہوئے اور ان کی خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ منشیات، چوری، آن لائن فراڈ، جنسیاتی بیماریاں، خاندانوں کا تہس نہس ہونا، بزرگوں کی بےقدری، چھوٹوں سے شفقت کا فقدان، ذہنی امراض میں اضافہ، بے قراری، وغیرہ جیسی مہلک برائیوں کو کسی حدتک روکنے کے لئے ہم سب کو جامع اور پائیدار اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ نوجوانوں کے اندر پائے جانے والی طاقتوں کا بھرپور استعمال ہوسکے۔ ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کی بےروزگاری بنیادی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مل کر اپنا ایک الگ بلاک تعمیر کرسکتے ہیں ،جس میں ایک ملک کی ضروریات کو دیکھ کر وسائل کا بہتر سے بہترین استعمال کیا جاسکے۔ دنیا پر چھائے ہوئے نظام کے متضاد تو نہیں، اس کی ہمسائیگی یا پھر parallel میں ایک ٹھوس ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو نوجوانوں کی بہبودی کا حلف اٹھا سکے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو بھی اپنے اندر ضروری تبدیلیاں لانی ہوگی۔ نوجوانوں کو خود ہی اپنی راہوں کا تعین کرنا ہوگا۔ زمانے کی باریکیوں سے روشناس پوتے ہوئے نوجوانوں کو محنت و مشقت کرکے اپنے لئے سامان مہیا کرنے ہونگے۔ نصف سے زیادہ نوجوان سماج پر بوجھ بن گئے ہیں۔ کھانا،پینا، دھونا، رونا، سونا، گھومنا یا پھر اپنے کمرے تک محدود ہونا نوجوانوں کا بنیادی مشغلہ ہے۔ اس بوجھ کو کب تک کندھوں پر اٹھایا جاسکتا ہے۔ زخموں سے چور نوجوانوں کے کندھے اب جواب دینے لگے ہیں۔ ان کندھوں میں پھر سے جان ڈالنے کے لئے ہم سب کو سوچ سمجھ کر ایسا ماحول ترتیب دینا ہوگا کہ اگر وصال صنم نہیں ہوتا ہے، مگر وصال خدا ضروری ہونا چاہیے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ نوجوانوں کی زندگیوں پر رحم کرے، ان میں دانائی اور صبر جمیل کے اوصاف پیدا کریں۔ ضروری چیز یہ ہے کہ نوجوانوں کو عالمی اور ملکی سطحوں پر ہونے والی تبدیلیوں پرگہری نظر رکھنی چاہیے کہ چیزیں کیونکر پیدا اور کیسے تبدیل ہورہی ہیں۔اللہ کرے ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تابناک ہو۔
(رابطہ: حاجی باغ، بڈگام 7006031540)