آج کل سوشل میڈیا پر جو بات توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، وہ ہے نمبرات کی بھرمار۔ دسویں اور بارویں جماعتوں کے نتائج جونہی نکل کر سامنے آئے، سوشل میڈیا اور اخبارات میں صرف ایک ہی بحث چھڑ گئی کہ کس طالب علم نے کتنے نمبرات حاصل کئے ہیں۔ ہر گھر اور ہر کوچہ میں طلاب اس ذہنی پریشانی کا شکار ہو گئے آخر یہ کیا ہے۔ جس آدمی نے آج تک قلم بھی نہ اٹھایا تھا، وہ بھی دوسروں کے مارکس دیکھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں مصروف ہوگیا۔ ہر سو ایک ہی بات دامن گیر ہوگئ کہ میرے بچے نے کتنے نمبرات حاصل کئے ہیں۔ ہمسائیگی میں رہنے والے اس لڑکے اور لڑکی نے کیا کمال کیا وغیرہ۔ کچھ طلاب برابر کا ہندسہ پار کرکے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے ۔ اس کے برعکس کچھ طلاب کے نتائج اُمید کے ناموافق ہونے کے نتیجے میں ذہنی افراتفری کا شکار ہوگئے ہیں۔ لگ بھگ تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے، جب سے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ تو اس ماحول میں نتائج کے آنے کے بعد ایسا رویہ اختیار کرنا کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کی نشانی نہیں ہوسکتی ہے۔ کیوں طلاب کو صرف نمبرات کے ترازو میں تولا جاتا ہے؟ کیا تخلیقی ذہن کوئی معنی نہیں رکھتا ہے؟ کیا ایک طالب علم موجودہ رَو سے ہٹ کر اپنے جوابات ترتیب نہیں دے سکتا؟ کیا صرف دوسروں کے لکھے ہوئے جوابات ہی کامیابی کی ضمانت ہے؟ اس مضمون میں اس مسئلہ کی بات ہوگی۔
اس سارے صورتحال کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہیں۔ پہلی وجہ ہے فرسودہ تعلیمی نظام۔ ہمارے یہاں ہر سال ایسے طلاب پاس ہوکر نکل کے آتے ہیں، جو زندگی کے اصل مسائل سے مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں۔ ان کے پاس ہنر کی کمی ہونے کی وجہ سے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی لوگ نمبرات کے پیچھے پڑے ہیں، جن کی آج کے ترقی یافتہ زمانے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ اور اس کے علاوہ زندگی کے اُتار چڑھاو سے مقابلہ کرنا ہی تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ 5G کی دوڑ میں ہم آج بھی اسی دنیا میں جی رہے ہیں، جہاں پر بنا سوچے سمجھے کتابوں کو یاد کرنا ہی علم کہلاتا ہے۔ دوسرا ہے مادیت۔ تعلیم کو جب بھی مادیت کا ذریعہ بنایا جاتا ہے، تو تعلیم صرف نام اور نمبرات تک محدود رہتی ہیں۔ تعلیم کے ذریعہ جتنا پیسہ اور شہرت کمائی جائے، آج کی تعلیم کا بنیادی مقصد بن گیا ہے۔ بچوں کو یہ بات شروعات سے ہی ذہن میں بٹھائی جاتی ہے کہ تم کو آخر میں پیسے کمانے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر اور سول سروز آفیسر بننا ہی تعلیمی کا اصل مقصد ہے۔ اس حالت میں تعلیم محدود مفاد کا شکار ہوجاتی ہے۔ تیسرا ہے دکھاوا۔ اس بیماری نے تعلیم کو بربادی کا سبب بنایا ہے۔ عام طور پر طلاب اس لئے پڑھتے ہیں تاکہ ان کی عزت بڑھ جائے۔ لوگ ان کا ذکر کرتے پھرے۔ ہر محفل میں ان کا تذکرہ ہوتا رہے۔ ان کے لئے جگہ فراہم کی جائے۔ عزت کے پھول برسائے جائیں۔ اس کا سیدھا اثر پڑھائی کے محدود ہونے تک نکل کے سامنے آتا ہے۔ چوتھا ہے آخرت کی فراموشی۔ جو شخص آخرت کی تیاری کرتا ہے، وہ اس تعلیم کا پیاسا ہوتا ہے جو دائمی زندگی کا باعث ہوں۔ وہ تعلیم جو اللہ تعالیٰ کو جاننے میں اور خود کو پہچاننے میں معاون ہوں، اس تعلیم کو حاصل کرنا ہی باعث ثواب اور ترقی کا ضامن ہے۔ مگر ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ایک دن اللہ کے حضور کھڑا ہونا ہے۔ وہ ہم سے پوچھے گا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ پھر بھی ہم اس کے برعکس اعمال کرتے ہیں اور جانے انجانے میں ایسی تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو آخرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ وقت کی پُکار ہے کہ تعلیم کو ایک چاہت کی طرح حاصل کیا جائےجو باعث سکون ہو، نہ کہ باعث اضطراب۔ انفرادی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے طلاب کو پڑھایا جائے۔ فرسودہ سوالات اور جوابات سے طلاب کو دور رکھا جائے۔ اُن کو چیزوں کی اصلی حالت میں دکھانے کی کوشش کئی جائے۔ زندگی کے مسائل کیسے حل ہوں، وہ طریقے بتائے جائیں۔ فراست کیسے بڑھتی ہے وہ باتیں سکھائی جائیں۔ چیزوں سے اوپر اُٹھ کر دیکھنا، تعلیم کہلاتی ہے۔ جیتنا پڑھائی کا بنیادی مقصد ہے، مگر ایک خوبصورت طریقہ سے ہارنا بھی تعلیم کہلاتی ہے۔ پڑھا لکھا آدمی ہار کر بھی ہاتھ ملاتا ہے اور جیت کے وقت بھی اپنی اَنا کا پجاری نہیں بنتا ہے۔ پڑھائی زندگی بنے نہ کہ کچھ مخصوص احداف کی آماجگاہ۔
(مدرس حسینی پبلک اسکول ایچ ایم ٹی زینہ کوٹ، سرینگر)