فرض نمازوں سے فراغت کے بعد تکبیر (اللہ اکبر)، تحمید (الحمد للہ) ، تسبیح (سبحان اللہ)، تہلیل (خصوصاً چوتھا کلمہ)، استغفار، آیت الکرسی، معوذتین، سورہ اخلاص اور چند دیگر اذکار و ادعیہ کا نبی کریمﷺ کی بتائی ہوئی خاص مقداروں میں اہتمام کرنا۔ بڑی فضیلت والا عمل ہے۔ہمارے دیار میں بہت سے اللہ والے لوگ ان اذکار مسنونہ کا خوب اہتمام کرتے ہیں جو یقیناً ایک اچھی اور قابل تعریف بات ہے۔ البتہ ہمیں سب سے پہلے ذکر وازکار کے سلسلہ میں قرآنی ہدایات اورسنت نبوی ؐ کو دیکھنا چاہیے کہ یہی ہمارے اولین مرجع ہیں۔اللہ رب العزت نے نماز کے سلسلہ میں (جسے اپنی یادکے لئے قائم کرنے کا حکم دیا ہے) فرمایا: (ترجمہ) : ’’نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے‘‘۔ (بنی اسرائیل : ۱۱۰)۔ اسی طرح ذکر کے سلسلہ میں ارشاد باری ہے: (ترجمہ): ’’اور اپنے رب کا ذکر کیا کراپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے نہ ہونا‘‘۔ (الاعراف: ۲۰۵)۔ صاحب تفسیر مدارک، شیخ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفیؒ اس آیت کی تفسیر میںلکھتے ہیں کہ ’’یہ آیت اذکار کے متعلق عام ہے ۔خواہ قراء ت قرآنی، دعا، تسبیح، تہلیل وغیرذالک جو بھی ہوعاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اس حال میں (ہو) کہ تم گڑگڑانے والے ہو اور ڈرنے والے ہو۔ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ) جہر سے کم کلام کرنے والے ہو کیونکہ اخفاء میں زیادہ اخلاص ہے اور تفکر و تدبر کے لئے زیادہ خوب ہے‘‘۔ (تفسیر مدارک (اردو)، مکتبہ العلم، لاہور، جلد ۱، صفحہ ۱۰۳۷)۔
اسی طرح دعا کے سلسلہ میں ارشاد ربانی ہے: (ترجمہ): ’’تم لوگ اپنے رب سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی وہ (اللہ تعالیٰ) حد(ادب) سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الاعراف : ۵۵)۔ علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتیؒ اس آیت کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں: ’’علماء کا اجماع ہے کہ سری ذکر افضل ہے اور ہاں چند مقامات میں جہری ذکر کی ضرورت ہے جیسے اذان، اقامت، تکبیرات تشریق، امام کے لئے نماز میں تکبیرات انتقال (نیز تکبیر تحریمہ)، اگر نماز کے اندر کوئی حادثہ ہوجائے تو مقتدی کا سبحان اللہ کہنا، حج میں لبیک کہنا وغیرہ‘‘۔ (تفسیر مظہری (اردو)، دارالاشاعت، کراچی، ۱۹۹۹ء، جلد ۴،صفحہ ۲۱۷)۔ آگے ’’ہدایہ ‘‘کے حواشی کے حوالہ سے تکبیر ات تشریق کی حد بندی میں امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین (یعنی امام یوسفؒ اور امام محمدؒ) کے مابین اختلاف کے تعلق سے علامہ ابن ہمامؒ کی رائے نقل کرتے ہیں: ’’اور ذکر میںاصل اخفاء ہے ۔۔۔ اور جب جہر اور اخفاء میں تعارض پڑجائے(دونوں کا روایتی ثبوت ملتا ہے) تواخفاء قابل ترجیح ہے(لہٰذا صاحبین کے قول پر فتویٰ (جو جہر کے قائل تھے) تقاضہ ترجیح کے خلاف ہے) ، سری ذکر افضل ہے، صحابہؓ اور تابعینؒ کا اسی پر اتفاق رہا ہے‘‘۔ (حوالہ بالا، صفحہ ۲۱۸)۔ ذکر و دعا میں اخفاء کے پسندیدہ ہونے کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ایک صالح بندے یعنی زکریا علیہ السلام کے تذکرہ میں بطور تعریف فرمایا ہے: (ترجمہ)۔ ’’جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘۔ (مریم: ۳)۔قرآن کریم کی مذکورہ آیات کے علاوہ ذکر خفی کا پسندیدہ ہونا اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے جسے امام بخاریؒ نے ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے ، جب ہم کسی وادی میں اترتے تو تہلیل (لا الٰہ الا اللہ) و تکبیر (اللہ اکبر) کہتے اور ہماری آواز بلند ہوجاتی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (ترجمہ)۔ ’’اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو کیوں کہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ وہ تمھارے ساتھ ہی ہے۔ بیشک وہ خوب سنتا ہے اور انتہائی قریب ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْجِھَاد، بابُ مَا یُکْرَہُ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي التَّکْبِیْر)۔ اسی طرح ایک روایت حضرت سعد بن وقاصؓ سے مسنداحمد میں نقل ہے جس سے ذکر خفی کا افضل ہونا واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: (ترجمہ)۔ ’’بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو‘‘۔ (مسند احمد ، مطبوعہ دارالحدیث، قاہرہ، ۱۴۱۶ھ، جلد ۲، صفحہ ۲۸۳، حدیث ۱۶۲۳)۔ محدثین نے اس حدیث کی اسناد کو صحیح قرار دیاہے ۔
مذکورہ قرآنی آیات اور احادیث سے یہ بات تو بالکل واضح ہوگئی کہ ذکر خفی، ذکر بالجہر کے مقابلہ میں افضل ہے۔اب آئیے دیکھیں کہ نماز کے اختتام پر رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کا کیا طرز عمل تھا۔ اس سلسلہ میںصحیحین میں ابو معبد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’ میں نبی کریمﷺ کی نماز کے ختم ہونے کو تکبیر (اللہ اکبر) کی وجہ سے پہچان لیتا (یعنی سمجھ جاتا) تھا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْاَذَان، بابُ الذِّکْرِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نماز کے اختتام پر بلند آواز سے تکبیر کہتے تھے۔ صاحب’’ مظاہر حق‘‘ نے لکھا ہے کہ کچھ محققین کی رائے ہے کہ’’آنحضرتﷺ کے زمانہ میں نماز کے بعد ایک بار یا تین بار تکبیر کہی جاتی تھی‘‘۔ ( مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ المصابیح از علامہ محمد قطب الدین خاں دہلویؒ، دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۹ء، جلد ۱، ۶۲۱)۔
ابومعبد نے عبداللہ بن عباسؓ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’فرض نمازسے فراغت کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں جاری تھا‘‘۔ نیز ابن عباسؓ نے یہ بھی فرمایا: ’’میں لوگوںکی نماز سے فراغت کو اس ذکر کی آواز سن کر سمجھ جاتا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْاَذَان، بابُ الذِّکْرِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ)۔ اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں لوگ نماز کے بعد ذکر بالجہر کرتے تھے۔ شارح صحیح بخاری، ـعلامہ ابن حجر عسقلانیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعد نماز کے بلند آواز سے تکبیر کہنا اور ذکر کرنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے، اس لئے کہ حضرتﷺ کے زمانے میں اس کا پکار کر پڑھنا ثابت ہوا اور منسوخ ہونا اس کا ثابت نہیں اور یہی ہے مذہب امام ابن حزمؒ کا لیکن دیگر علمائے اسلام کے نزدیک بعد نماز کے پکار کر ذکر کرنا مستحب نہیںبلکہ امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ چاروں مذہبوں وغیرہ کے سب علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا مستحب نہیں۔اس واسطے مختار یہی بات ہے کہ امام اور مقتدی دونوں آہستہ ذکر کریں پکار کر نہ کریںمگر تعلیم کی غرض سے ہو تو جائز ہے اور امام شافعیؒ نے اس حدیث کو تعلیم پر حمل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اصحاب نے تھوڑے دنوں لوگوں کی تعلیم کے واسطے ذکر کو پکار کر کہا تھا، ہمیشہ انھوں نے نہیں پکارا‘‘۔ (فیض الباری اردو ترجمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری از ابن حجرالعسقلانیؒ، مکتبہ اصحاب الحدیث، لاہور ، ۲۰۰۹ء، جلد۲، صفحہ ۴۰)۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، شیخ الحدیث، جامعہ دارالعلوم ، کراچی نے اس حدیث کی وضاحت یوں کی ہے: ’’علماء محققین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ’’رفع الصوت بالذکر‘‘ (یعنی بلند آواز میں ذکر) نبی کریمﷺ کے زمانے میں احیاناً ہوا ہے لیکن عام معمول نہیں تھا اور بعد میں صحابہ کرام ؓ نے بھی اس کو اختیار نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عباسؓ یہ فرمارہے ہیں کہ یہ امر حضورﷺ کے زمانے میں ہوا کرتا تھا یعنی اس وقت نہیں ہے جس وقت (وہ ) دوسروں کو کہہ رہے ہیں‘‘۔ (انعام الباری دروس صحیح البخاری ،مکتبۃ الحراء، کراچی، ۲۰۱۰ء، جلد۳، صفحہ ۵۷۸)۔ وہ آگے فرماتے ہیں: ’’اگرچہ ذکر بالجہر جائز ہے ناجائز نہیں لیکن افضل نہیں، افضل ذکر خفی ہے۔اب بعض عوارض کی وجہ سے اگر ذکر بالجہر کو اختیار کیا جائے تو وہ ایک ابدی حکم نہیں ایک عارضی حکم ہے اور اس کی وجہ سے نہ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذکر بالجہر ناجائز ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ افضل ہے اور قابل تقلید ہے۔ (حوالہ بالا)۔اسی طرح مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری، شیخ الحدیث، دارالعلوم دیوبند نے عبداللہ بن عباسؓ کی مذکورہ روایات کی تشریح یوں کی ہے: ’’ابن بطالؒ جو بخاری شریف کے شارح ہیں فرماتے ہیں:تمام مذاہب خواہ ان کی پیروی کی جاتی ہو جیسے مذاہب اربعہ یا ان کی پیروی نہ کی جاتی ہو جیسے دیگر مجتہدین ، سب اس پر متفق ہیں کہ نماز کے بعد تکبیر یا کوئی دوسرا ذکر جہراً کرنا مستحب نہیں، صرف ابن حزم اس کو مستحب کہتے ہیں، ابن بطالؒ کا یہ قول حاشیہ میں ہے مگر غیرمقلدین ابن حزم کا قول نہیں لیتے حالانکہ وہ ان کے امام ہیں اورحضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں: نبیﷺ نمازوں کے بعد ہمیشہ جہراً ذکر نہیں کرتے تھے بلکہ آپؐ نے گاہ بہ گاہ جہراً ذکر کیا ہے اور تعلیم کی غرض سے کیا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ نماز کے بعد کیا اذکار کرنا چاہئیں۔ حضرت امام شافعی ؒ کا قول بھی حاشیہ میں ہے اور قیمتی بات ہے‘‘۔ (تحفۃ القاری شرح صحیح بخاری از مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری، مکتبہ حجاز، دیوبند، ۲۰۱۱ء، جلد۳، صفحہ ۱۶۸-۱۶۹)۔
محدثین کے مذکورہ بالا تشریحات سے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ یہ مسئلہ جائز و ناجائز کا نہیں بلکہ افضلیت اور استحباب کا ہے اور علامہ ابن حزمؒ کے علاوہ علماء سلف میں کوئی بھی اس ذکر بالجہرکے استحباب کا قائل نہیں۔ محدثین کا ابن عباسؓ کی روایت سے یہ اخذ کرنا کہ ان کے زمانہ میں ذکر بالجہر جاری نہیں تھا، قرین قیاس معلوم ہوتا ہے، نیز امام شافعیؒ کا اس کو تعلیم پر محمول کرنا ہدایات قرآنی اور صحابہ کرامؓ کے بعد کے عمل سے تطبیق کی بہترین صورت ہے۔ امام مالکؒ کا نماز بعد ذکر بالجہر کے بارے میں فتویٰ یہ اشارہ دیتاہے کہ اس عمل پر صحابہ کرامؓ کے قائم رہنے کا کوئی ثبوت اُنہیں نہیں ملا اور ان کے زمانہ میں بھی یہ عمل مدینہ میں رائج نہیں تھا، حالانکہ ان کا زمانہ صحابہؓ کے زمانے سے بہت دور کا نہیں ہے اورانہیں مدینہ کے کئی کبار تابعینؒ سے ملاقات اور تحصیل علم کا شرف حاصل ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ اس عمل پر قائم رہتے تو آثار میں اس کے شواہد ضرور ملتے۔ مذکورہ بحث سے یہ مسئلہ بہت حد تک واضح ہوچکا ہے لیکن یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذکر بالجہرکے بارے میںتمام فقہی مسالک کی آراء بھی پیش نظر رکھ دی جائے۔ اب ایک آخری اور اصولی بات جس کو اگر اپنا لیا جائے تو ہمارے بہت سے مسلکی اختلافات کا یوں ہی خاتمہ ہوجائے۔ ’’مظاہر حق جدید‘‘ میں نیت کے مسائل کی بحث میںفقہ کا ایک اہم اصول لکھا ہے، وہ یہ ہے: ’’فقہ کا قاعدہ ہے کہ جب کسی چیز کے سنت یا بدعت ہونے میںعلماء کا اختلاف ہو یعنی بعض یہ کہیں کہ یہ بدعت ہے اور بعض کہیں کہ سنت ہے تو احتیاط اس جگہ یہ ہے کہ ایسی چیز کو ترک کر دینا ہی مناسب ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں بھی ایسا ہی نقل کیا گیا ہے، اسی طرح اگر سنت و مستحب ہونے میں بھی اختلاف ہوتو (اس عمل کو) ترک کردینا ہی اولیٰ ہے‘‘۔ (مظاہر حق جدید ، دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۹ء ، جلد۱، صفحہ ۷۷)۔
مذکورہ تمام دلائل کے بعد بھی اگر کوئی صاحب ذکر بالجہر کو اختیار کرنا ہی چاہیں توان کے لئے راقم کا مشورہ یہ ہے کہ وہ سلام کے بعد ایک بار یا تین بار (جیسا کہ صاحب مظاہر حق نے لکھا ہے) صرف تکبیر متوسط آواز سے کہہ لیں اور باقی اذکار کو آہستہ پڑھیں ۔ اس طرح ان کے اعتبار سے ذکر بالجہر کی سنت بھی ادا ہوجائے گی، دیگر مصلیان کو نماز و ذکر کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہ ہوگا اور وہ دیگر مسالک کے فتوؤں کی زد میں آنے سے بھی بچ جائیں گے۔اللہ سے دعا ہے کہ تمام امور میں وہ ہمیں اپنی منشاء کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت کرے ۔ نیز علم کی ترجمانی میں ہونے والی لغزشوں سے بھی درگزر فرمائے۔ آمین!
رابطہ : سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
ای میل : [email protected]
موبائل09471867108