نماز میں سورتوں کی قرآنی ترتیب کا لحاظ رکھنا بعض علماء فرض یا واجب سمجھتے ہیں۔ اس کا ادراک احقر کو حال میں پیش آئے ایک واقعہ سے ہوا۔ایک مسجد میں مغرب کی نماز حسب معمول ادا کی گئی۔ نماز کے اختتام پر ایک عالم صاحب کھڑے ہوئے اور یہ فتوی صادر فرمایا کہ نماز نہیں ہوئی کیوں کہ سورتوں کی ترتیب کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ امام صاحب جو خود ایک عالم ہیں ، نے بلا کسی ردوکد کے فوراً ہی نماز کے اعادہ کا اعلان کردیا اور ان عالم صاحب کو ہی امامت کے لئے آگے بڑھا دیا۔ چنانچہ نماز دوبارہ ادا کی گئی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی امام صاحب سے یہ سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آخر کیا غلطی ہوئی ،جس کی وجہ سے نماز دہرانے کی نوبت آئی اور نہ ہی ان علماء نے اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس کی جبکہ مسجد وسیع ہونے کی وجہ سے بہت سے مصلیان ان کے آپسی مکالمے کو سن نہیں سکے تھے اور پورے معاملہ کو سمجھ نہیں پائے ۔ احقر بھی مسجد کے ایک گوشے میں تھا اور علماء کی وضاحت کا منتظر بھی لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور اس سے پہلے کہ میں نوافل واذکار سے فارغ ہوتا ،لوگوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ استفادہ عام کے لئے اس مسئلہ کی وضاحت کی جائے۔
احادیث و آثار سے یہ بات ثابت نہیں کہ نماز میں سورتوں کی قرآنی ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے بلکہ جو چیز ثابت ہے ،وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ آپ خود ملاحظہ کرلیں۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ایک رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، آپؐ نے سورۃ البقرۃ کا آغاز کیا، میں نے (دل میں) کہا : آپؐ سو آیات پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ ؐ آگے بڑھ گئے، میں نے (دل میں) کہا: آپؐ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے (یعنی نصف ایک رکعت میں اور نصف دوسری میں)، آپؐ آگے پڑھتے گئے، تو میں نے (دل میں) کہا : آپؐ اس کے اختتام پر رکوع کریں گے مگر آپؐ نے سورۃ النسآء شروع کردی، اس کو پورا پڑھا، پھر آپؐ نے آل عمران شروع کردی، اسے پورا پڑھا، آپؐ ٹھہر ٹھہر کر قرأت فرماتے تھے، جب آپؐ ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی تو آپؐ سبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی) آیت سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو (اللہ سے) پناہ مانگتے، پھر آپؐ نے رکوع فرمایا اور سبحان ربی العظیم کہتے رہے یہاں تک کہ آپؐ کا رکوع بھی قیام کے برابر ہوگیا، پھر آپؐ نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا، پھر اس کے بعد رکوع کے برابر طویل قیام کیا پھر سجدہ کیا اور سبحان ربی الاعلیٰ پڑھا اور آپؐ کا سجدہ بھی آپؐ کے قیام کے برابر طویل تھا۔‘‘۔ ( صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا، بابُ استِحْبَابِ تَطْوِیلِ الْقِرَائَ ۃِ فِي صَلَاۃِ اللَّیْلِ، رقم الحدیث ۱۸۱۴ ؛ نیزسنن نسائی، کتاب التطبیق، رقم الحدیث۱۱۳۳)۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آپؐ نے نماز کی پہلی رکعت میں پہلے سورۃ البقرۃ تلاوت کی پھر سورۃ النسآء پڑھی، پھرآل عمران جب کہ قرآنی ترتیب میں سورۃ آل عمران پہلے ہے اور سورۃ النسآء بعد میں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ سورتوں کی قرآنی ترتیب کا لحاظ رکھنا قرأت میں لازم نہیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا ضرور ہی خیال رکھتے۔ اس حدیث سے بعض لوگ یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ یہ تو رسول پاک ﷺ کے نوافل کا عمل ہے، چنانچہ نوافل میں یہ درست ہوسکتا ہے لیکن فرائض میں نہیں! تو آئیے فرائض کی مثال بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک صاحب (کلثوم بن ہدمؓ) قباء کی مسجد میں لوگوں کی امامت کیا کرتے تھے۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ جو (سورۃ الفاتحہ کے بعد) نماز میں پڑھی جاتی ہے، شروع کرنے کا ارادہ کرتے تو اس کا آغاز قل ھو اللہ احد سے کرتے ، جب اس سے فارغ ہوجاتے پھر کوئی دوسری سورۃ اس کے ساتھ پڑھتے تھے۔ وہ ہر رکعت میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے بات کی اور (اعتراضًا) کہا کہ تم اس سورۃ (اخلاص) سے ابتدا کرتے ہو، پھرہم نہیں دیکھتے کہ وہ تمہارے لئے کافی ہوتی ہے یہاں تک کہ تم دوسری سورۃ بھی (اس کے ساتھ ضرور) پڑھتے ہو، یا تو تم صرف اُسی سورۃ کو پڑھو یا اُسے چھوڑ دو اور صرف دوسری سورۃ پڑھا کرو۔ انہوں نے کہا کہ میں تو اسے نہیں چھوڑسکتا، اگر تمیں پسند ہوتو میںاسی طرح تمہاری امامت کروں گا اور اگر تم اسے ناپسند کرتے ہو تو میں تمہیں (نماز پڑھانا) چھوڑ دوں گا۔ وہ لوگ انہیںاپنے درمیان سب سے افضل خیال کرتے تھے، اس لئے انہوں نے ان کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی امامت کوپسند نہیں کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ اے فلاں! اپنے ساتھیوں کی بات ماننے سے تمہیں کس چیز نے روکا اور ہر رکعت میں اس سورۃ کو لازم قرار دے لینے کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہؐ ! میں اس سورۃ سے محبت رکھتا ہوں۔ تو آپؐ نے فرمایا: اس سورۃ کی محبت تمہیں جنت میںداخل کردے گی ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، بابُ الْجَمْعِ بَیْنَ السُّورَتَیْنِ فِي الرَّکْعَۃِ)۔
اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ سورتوں کی قرآنی ترتیب کا لحاظ رکھنا قرأت میں لازم نہیں ،کیوں کہ انصاری صحابیؓ جب بھی نمازپڑھاتے تھے تو ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعدپہلے سورۃ اخلاص پڑھتے پھر کوئی اور سورۃ پڑھتے، جس میں ترتیب کی خلاف ورزی لازمی طور پر ہوتی تھی۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب یہ بات بتائی گئی تو آپؐ نے انہیں اس سے منع نہیں کیا بلکہ سورۃ اخلاص کی محبت کی وجہ سے انہیں جنت کی بشارت بھی دے دی۔ گویا آپؐ نے ان کے اس عمل کو برقراررکھنے پر مہر لگادی۔
صحیح بخاری کے اسی باب میںجس میں مذکورہ بالا حدیث ہے: عبداللہ بن سائبؓ کی روایت ہے کہ احنف بن قیسؓ نے (فجر کی) پہلی رکعت میں سورۃ الکہف پڑھی اور دوسری میں سورۃ یوسف یا یونس پڑھی اور یہ ذکر کیا کہ میں نے حضرت عمرؓ کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے، انہوںؓنے انہی دو سورتوں کو صبح کی نماز میں پڑھا تھا ۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، بابُ الْجَمْعِ بَیْنَ السُّورَتَیْنِ فِي الرَّکْعَۃِ)۔ یہ تو ہر شخص کے علم میں ہے قرآن شریف میں سورۃ الکہف اٹھارہویں نمبر پر ہے جب کہ سورۃ یونس دسویں اور سورۃ یوسف بارہویں نمبر پر ہے۔ اگر قرأت میں ترتیب لازم ہوتی تو یہ اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کے برعکس نہیں کرتے۔
مذکورہ بالا احادیث اور آثار صحیحہ سے یہ بالکل واضح ہے کہ نماز میں سورتوں کی قرآنی ترتیب کا لحاظ رکھنا لازمی نہیں ہے اور خلاف ترتیب پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔ اس سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، یہی امام بخاریؒ کا موقف ہے۔ جن فقہاء نے ترتیب کا لحاظ رکھنے کی وکالت کی ہے ،اُن کے نزدیک بھی یہ مستحب ہے اور اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے ۔ علامہ وھبۃ الزحیلیؒ اپنی مشہور تصنیف الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں رقمطراز ہیں: ’’و یندب باتفاق الفقھاء أن یکون ترتیب السور في رکعتین علی نظم المصحف، فتنکیس السور مکروہ‘‘ یعنی فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ رکعتوں میں سورتوں کی ترتیب مصحف (قرآن) کی ترتیب کے مطابق رکھنا مستحب ہے، سورتوں کو الٹ کر پڑھنا مکروہ ہے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، دارالفکر، دمشق، ۱۹۸۵ء، جلد اول، صفحہ ۶۹۹)۔
شیخ مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے بخاریؒ کی مذکورہ روایتوں کی تشریح میں یہ فرمایا ہے : ’’حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ رحمہم اللہ اس کو (یعنی تریب کی خلاف ورزی کو) خلاف اولیٰ اور مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں۔ امام احمدؒ کی بھی ایک روایت یہی ہے۔ امام احمدؒ اور امام مالکؒ کی ایک ایک روایت امام بخاری رحمہم اللہ (کی روایت) کے مطابق بھی ہے۔‘‘ ۔ وہ آگے فرماتے ہیں : ’’حنفیہ کا کہنا یہ ہے کہ مصحف عثمانی کی ترتیب پر اجماع ہے اور یہ ترتیب اگرچہ اجتہادی ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو آنحضرتؐ کے عمل پر ہی مبنی فرمایا ہے، لہٰذا اس کا اعتبار مستحب ہے، اور اس کے خلاف کرنا خلاف اولیٰ ہے۔‘‘(انعام الباری دروس صحیح بخاری شریف ، افادات شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ، ضبط و ترتیب محمد انور حسین، مکتبۃ الحراء، کراچی، ۲۰۱۰ء، جلد ۳، صفحہ ۵۳۴)۔
مفتی اعظم محمد کفایت اللہ دہلوی نوراللہ مرقدہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے مغرب کے وقت اول رکعت میں سورہ فلق اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی تو نماز صحیح ہوئی یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ’’قرآن مجید کی ترتیب بدل کر الٹا کرنا مکروہ ہے، یہ کراہت قصداً پڑھنے کی صورت میں ہے، نماز تو ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اور بلاقصد پڑھ لی جائے تو کراہت بھی نہیں اور نماز بلاکراہت درست اور صحیح ہے۔‘‘ (کفایت المفتی، دار الاشاعت، کراچی، ۲۰۰۱ء، جلد ۳، صفحہ ۴۵۲-۴۵۳)۔
بعض احناف اس مسئلہ میں یہ موقف رکھتے ہیں کہ سورتوں کی ترتیب کا لحاظ رکھنا واجبات تلاوت میں سے ہے، واجبات نماز سے نہیں۔مفتی سیدعبد الرحیم صاحب لاجپوریؒ سے سوال کیا گیا کہ امام نے پہلی رکعت میںسورۂ کافرون پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۂ کوثر یا سورۂ صیف پڑھی تو اس طرح قرآن کی ترتیب کے خلاف پڑھنے سے نماز درست ہوگی یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ترتیب سور واجبات تلاوت میں سے ہے، واجبات نماز سے نہیں، لہٰذا اس طرح پڑھنے سے سجدہ سہو نہیں، ہا ں عمداً اس طرح پڑھنا مکروہ ہے، نسیاناً پڑھے تو مکروہ بھی نہیں ، بحوالہ (درمختار) شامی، جلد ۱، صفحہ ۵۱۰۔‘‘ (فتاویٰ رحیمیہ، دار الاشاعت، کراچی، ۲۰۰۹ء، جلد ۵، صفحہ ۸۵)۔
دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی اس مسئلہ میں یہی موقف اختیارکیا ہے۔ ایک فتوے کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں: ’’نماز میں قرأت کے دوران سورتوں کی ترتیب کی رعایت رکھنا قرأت کے واجبات میں سے ، نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے، فرض نمازوں میں قصداً قرآن مجید کی ترتیب کے خلاف قرأت کرنا مکروہ تحریمی ہے، یعنی جو سورت بعد میں ہے اس کو پہلی رکعت میں پڑھنا اور جو سورت پہلے ہے اس کو دوسری رکعت میں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، مثلاً پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ کوثر پڑھی گئی تو قصداً پڑھنے کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی اور اگر سہواً یا غلطی سے ترتیب کے خلاف پڑھا تو نماز بلا کراہت درست ہوجائے گی لیکن دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہوگا،کیوں کہ ترتیب واجبات قرأت میں سے ہے نہ کہ واجبات نماز میں سے، نفل نماز میں قصداً قرآن مجید کی ترتیب کے خلاف قرأت کرنا مکروہ نہیں ہے، تاہم ترتیب سے پڑھنا بہتر ہے۔‘‘۔اس تحریر کے بعد اس فتوے کی تائید میں الدرالمختار و حاشیہ ابن عابدین (ردالمختار) سے اقتباسات نقل کئے گئے ہیں۔ (فتوی نمبر: ۱۴۴۰۰۱۲۰۰۲۵۳، دارالافتاء، جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)۔
مذکورہ فتاوی کی روشنی میں بھی دیکھیں تویہ بات بالکل واضح ہے کہ نماز میں سورتوں کی قرآنی ترتیب کا لحاط رکھنا کسی کے نزدیک بھی نماز کے فرائض یا واجبات میں سے نہیں ہے۔ جو بھی اختلاف ہے وہ کراہت اور عدم کراہت کاہے۔ اس لئے کسی نے بھی ترتیب کی خلاف ورزی پر سجدہ سہو یا نماز کے اعادہ کا حکم نہیں لگایا۔ خلاصہ کلام یہ کہ سورتوں کی ترتیب کا نماز میں خیال رکھا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض علماء کا موقف ہے لیکن اس کی خلاف ورزی پر سجدہ سہو یا نماز کے اعادہ کی بالکل ضرورت نہیں۔اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔ آمین!