پرویز یوسف
اب وہ کسی سے بات نہیں کرتی ‘چڑچڑی سی رہتی ۔ہر وقت غصہ اُس کی ناک پر رہتا ‘ہر ایک سے لڑتی پھرتی رہتی ۔نادرہ کی نانی ‘پیر صاحب سے اُن کی پوتی کے بارے میں مخاطب ہوئی۔پیر صاحب نے اس بزرگ خاتون کی طرف دیکھ کر بس اتنا کہا :کوئی بات نہیں بی۔۔۔۔آپ کل اپنی پوتی کو ساتھ لایئے گا ۔یہ کہہ کر پیر صاحب اپنے باقی مریدوں کے ساتھ مصرو ف ہو گئے ۔کچھ دیر بعد وہ بڑی بی۔۔۔۔ وہاں سے چل دی ،میں بھی اپنا کام ختم کر کے وہاں سے چل دیا۔اگلے روز مجھے پھر پیر صاحب سے ملنے جانا تھا میں پیر صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں دیکھتا ہوں کہ یہ بڑی بی اور ان کی پوتی نادرہ سڑک کے بیچوں بیچ کسی بات پہ بحث کر رہے ہیں ۔بڑی بی۔۔۔۔۔ نے نادرہ کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور وہ اسے زبر دستی کھینچ کر لے جانے کی کوشش کر رہی ہے ۔یہ دیکھ کر میں ان کے پاس گیا اور نادرہ سے پوچھا کیا بات ہے بیٹا؟تم کیوں دادی جان کو تنگ کر رہی ہو؟میرا اتنا ہی پوچھناتھا کہ نادرہ جھٹ سے بولی دیکھئے نا مجھے نہیں جانا پیر صاحب کے پاس، پر دادی جان مجھے زبردستی لے جا رہی ہے ۔کیوں نہیں جانا تمہیں پیر صاحب کے پاس ؟میں نے فوراََ پوچھ لیا ۔نادرہ یہ سن کر خاموش ہوگئی اور کسی گہری سوچ میں پڑ گئی ۔شاید وہ خود اس سوال کاجواب نہیں جانتی تھی۔یا پھر کوئی ایسی وجہ تھی جسے وہ بس اپنے آپ تک ہی محدود رکھنا چاہتی تھی ۔کئی مہینے گزر گئے او ر کرونا جیسی وبائی بیماری ایک بار پھر واپس آن پڑی ۔میں کسی ضروری کام سے مارکیٹ گیا ہوا تھا اتفاق سے میری نظر ایک ایسی لڑکی پر پڑی جو پورے بازار میں واحد لڑکی تھی جو چہرے پر ماسک لگائے بغیر تھی،باقی سب لوگوں کے چہرے ماسکوں سے ڈھکے ہوئے تھے ۔میں اُس کے نزدیک سے گزرا تو معلوم پڑا کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ نادرہ ہی ہے ۔اس نے بھی مجھے فوراََ ہی پہچان لیا ۔میںنے باتوںہی باتوں میں اُسے کہا :
’’ارے نادرہ بیٹا ‘کرونا وائرس کا قہر چل رہا ہے اور یہ کیا تم نے اپنے چہرے پر ماسک نہیںلگایا‘‘۔
میرا یہ کہنا ہی تھا کہ اُس کی آنکھیں بھر آئیں اور تھرتھراتے ہوئے اُس کے لبوں سے بے ساختہ خلیل الرحمٰن قمرؔ صاحب کے یہ اشعار نکلے؎
ایک چہرے سے اُترتی ہے نقابیں کتنی
لوگ کتنے ہمیں اک شخص میں مل جاتے ہیں
وقت بدلے گا تو اس بار میں پوچھوں گا اسے
تم بدلتے ہو تو کیوں کیوں لوگ بدل جاتے ہیں
میں نے اس کے منہ سے ادا ہونے والے اشعار غور سے سُنے اور میں دھنگ رہ گیا ۔میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ آخر کیاسوچ کر نادرہ نے یہ اشعار منہ سے ادا کیے۔میں نے بنا کچھ سوچے سمجھے اُس سے پہلا سوال یہی کیا :
’’کون ہے وہ جس نے ہماری پھول جیسی نادرہ کو شعر کہنے پر مجبور کیا ‘‘۔
’’کون ہے وہ جس نے تمہارا بھروسہ اس قدر توڑا ہے کہ تمہیں نقاب سے ڈر لگنے لگا ہے ۔وہ میری یہ باتیں سُن کر آنکھیں چُرانے لگی گویا وہ کچھ کہنا نہیں چاہتی ہو ‘مگر اُس کا ضبط ٹوٹ رہا تھا ‘اُس کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہونے ہی والے تھے مگر چہرے پر بناوٹی مسکا ن پیدا کر لی ‘۔۔۔۔ وہ بہت تھک چکی تھی ۔زارو قطار رونے لگی اور پھر میری اور دیکھ کر بولی ہاںمجھے نقاب سے ڈر لگتا ہے ۔نقاب کے پسِ پردہ نقلی چہرہ چھپا رہتا ہے کچھ اس طرح کی صورتِ حال سے میں دوچار ہوگئی ہوں ۔ندیم نامی ایک لڑکا مجھ سے متعارف ہوگیا تھا اور اکثر و بیشتر ہم آپس میں ملتے اور ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ۔ہماری یہ ملاقاتیں محبت میں تبدیل ہوگئی تھیں۔اب ہم ایک دوسرے کو دیکھے اور ملے بغیر مضطر ب رہتے تھے ۔مجھے ایسا لگتا تھا کہ ندیم کے بغیر میری زندگی بے ذوق اور ادھوری ہے ۔کئی بار میں نے اپنا نقاب ہٹا کر ندیم کے ساتھ رو برو گفتگو کی تھی ۔یہ سلسلہ تب اچانک کٹ ہی گیا جب ندیم نے مجھ سے نہ ملنے کے بہانے تراشنا شروع کئے ۔میں حیران و پریشان تھی کہ آخر ندیم کو اچانک ہو کیا گیا ۔میں نے نزدیک سے اُسے پرکھنے کی کوشش کی مگر سمجھ نہ پائی کہ وہ مجھ سے اس قدر اُکتا کیوں گیا ۔ایک بار میں نے ندیم کو ایک دوسری لڑکی کے ساتھ مٹک مٹک کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلتے دیکھا ۔میرے خون میں اُبال آیا اور میں اندر ہی اندر سے تڑپنے لگی ۔ایک بے آب ماہی کی طرح میں تڑپی ۔گھر پہنچ کر میں اپنے کمرے میں زارو قطار رونے لگی ۔آخر مجھ میں کیا کمی ہے جوندیم مجھ سے متنفرہوا۔میں نے آئینے میں جھانکا تو مجھے احساس ہوا کہ ندیم جس لڑکی سے نیا کھیل کھیل رہا ہے وہ بہت ہی خوبصورت اور جاذب نظر ہے ۔شاید کسی اچھے گھرانے سے ہے ۔میں روتے روتے نڈھال ہوگئی اور سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ چہرے دو قسم کے ہوتے ہیں اصلی اور نقلی ۔ندیم نے اب جس چہرے کو پسند کیا تھا وہ مجھے سے حسین اور خوبصورت بھی ہے ۔لوگ چہروں کو دیکھتے ہیں یعنی صورت کو دیکھتے ہیں نہ کی سیرت کو ۔نقاب کے پسِ پردہ نہ جانے کتنے چہرے ہوںگے جو نقلی ہوں گے اور موقع آنے پر اصلی چہرہ نمایاں ہوجاتا ہے تو انسان کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے ۔ندیم کی میٹھی میٹھی باتیں دراصل سراب ثابت ہوئیں اور میں نے چہرے سے نقاب ہٹایا تاکہ اصلی چہرہ سامنے آئے ۔اصل میں کوئی کسی کا نہیںہوتا ۔سب کے چہرے نقابوں سے ڈھکے رہتے ہیں اور ہاں مجھے نقابوں سے ڈر لگتا ہے ‘وہ چاہے ظاہری نقاب ہو یا باطنی ۔یہ کہتے کہتے اس کے منہ سے نقوی صاحب کے یہ اشعار نکل گئے اور وہ یہ کہتے کہتے گھر کی طرف روانہ ہوئی اور میں دیکھتاہی رہ گیا؎
تمہارے وعدوں نے یار مجھ کو ،
تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے۔۔
میں جانتا ہوں میری محبت ،
اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسی۔۔
برستی بارش میں یاد رکھنا ،
تمہیں ستائیں گی میری یادیں ۔۔
کسی ولی کے مزار پر جب ،
دعا کرو گے تو رو پڑو گے۔۔
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ
موبائل نمبر؛9469447331