وادی کشمیرمیںذہنی تنائوسے پیدا ہونے والے امراض ، خود کشی کے واقعات اور منشیات کے استعمال کے حوالے سے جس طرح چونکا دینے والے انکشافات سامنے آرہے ہیں ،اُن سے وادی کے ذی حس طبقہ کی نیندیں اُچٹ جانی چاہئیں ۔نفسیاتی امراض میں مبتلاء لوگوں کے بارے میں جو اعداد و شمار ا ٓرہے ہیں ،ان پر اگر چہ کئی لوگوں کو اعتراض ہے لیکن اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا کہ رواں نامساعد حالات کے چلتے وادی میں روز افزوں نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔اس سلسلے میں کئی مقامی اور بین الاقوامی رضاکار تنظیموں نے سروے کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کرہ ارض کے اس خطہ میں نامساعد حالات میںنہ صرف جوانوں کی ایک کثیر تعداد ذہنی طور سو فیصد توانا نہیں بلکہ بچے ،بزرگ اور خواتین بھی اعصابی اضمحلال اورذہنی تنائو کے شکار ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق پر تنائو صورتحال اور تشدد کے واقعات نے کشمیری سماج کے قلب وذہن پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خودکشی کے واقعات اور نشہ آور اشیاء کے استعمال میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا جب مقامی اخبارات میں خودکشی اور منشیات کے استعمال سے متعلق خبریں شائع نہ ہوتی ہوں ۔اس ساری صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ نوجوان نسل نے ذہنی تنائو سے چھٹکارا پانے کیلئے منشیات کا سہارا لینا شروع کیا ہے جو انہیں اندر ہی اندر سے دھیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور خاموشی سے یہ زہر نوجوان نسل کو ذہنی اور جسمانی طور مفلوج بنارہا ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک مقامی رضاکار تنظیم کی طرف سے کرائے گئے سروے میںیہ بات سامنے آئی ہے کہ وادی کے کالجوں اور سکولوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی ایک اچھی خاصی تعداد کونشہ آور اشیاء کی لت پڑ چکی ہے لیکن یہ المیہ ہے کہ قومی سرمایہ کو اس بھنور سے نکالنے کی کوشش کرنا تو دور ،انہیں اس لعنت سے چھٹکارا پانے کی ترغیب بھی نہیں دی جارہی ہے۔جموںوکشمیرمیں سر کاری یا غیر سر کاری سطح پر ذہنی یا نفسیاتی امراض سے متعلق کوئی مخصوص طبی یا تحقیقی ادارہ قائم نہیں ہے اور یہ صورتحال اس طرح کے امراض میں اضافے کی ایک اور وجہ ہے۔گوکہ نفسیاتی امراض کا ایک سپتال سرینگر کے کاٹھی دروازہ علاقہ میں قائم ہے لیکن مذکورہ ہسپتال کی حالت ا نتہائی ناگفتہ بہہ ہے اور وہ خود ارباب اقتدار کی توجہ کا طلبگار ہے۔اس سنگین مسئلہ پر قابو پانے کیلئے کونسلنگ بھی ایک کارگرہتھیار ثابت ہو سکتا تھا لیکن پولیس محکمہ کی جانب سے چند علامتی ڈی ایڈکشن کیمپوں کوچھوڑ کر ارباب اقتدار نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی ،نتیجہ ہمارے سامنے ہے ،کشمیری سماج کا توازن بگڑ رہاہے ،ہر کوئی اپنی ہی ایک الگ دنیا میں مگن ہے ،ذہن مفلوج ،قلب مضطرب ،کیفیت ناراحتی کا عجیب سا احساس ،اکیلا پن ،خوف اور نامعلوم مخلوق کا ڈر، چند ایسی شکایات ہیں جو عوام کی غالب اکثریت میں پائی جاتی ہیں۔ کشمیر میں نفسیاتی امراض کے معالجین کے کلینکوں پر روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ علاج و معالجہ اور طبی مشوروں کیلئے آتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں بھی ذہنی طور منتشر لوگوں کو مفید مشوروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انہیں سینکڑوں روپے کی ادویات تجویز کی جاتی ہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ پھر ضدتنائو کی دوائیاں کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں اورمرتے دم تک یہ دوائیاں ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔دوائیاں دینا اور لیناکوئی حل نہیں ہے ۔موجودہ صورتحال ہمارے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر ہم آج نہیں جاگے تو کل تک یہ طوفان اپنے ساتھ ہمارا سب کچھ بہا لے جائے گا اور ہمارے پاس ماتم کرنے کیلئے کچھ نہیں ہوگا۔اس ضمن میں حکومتی سطح پراس بڑھتے ہوئے ناسور پر قابو پانے کی غرض سے جہاں جدید طبی و تحقیقی اداروں کا قیام ناگزیر بن چکا ہے وہیں غیر سر کاری اور عوامی سطح پر زور دار بیداری اور کونسلنگ مہم بھی چلانی ہوگی ۔ساتھ ہی ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہوگا جس میں رہ کر لوگ احساس تحفظ کے شکار نہ ہوں ۔