نفرت انگیز تقاریر

 عام طورپر جب کسی شخص کا نا حق قتل ہوتا ہے یا ناحق کسی شخص پر حملہ ہوتا ہے یا کسی شخص کو گولی یا بندوق سے مار دینے کی دھمکی دی جاتی ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کارروائی ایک فرد یا ایک شخص کے خلاف ہوئی، لیکن پروردگار عالم نے اپنی کتابِ مقدس میں فرمایا ہے: ’’ایک کا قاتل سب کا قاتل ہوتاہے‘‘۔ اس سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی کسی ایک شخص پر حملہ کرتا ہے یا دھمکی دیتا ہے تو صرف ایک شخص پر حملہ نہیں کرتا، ایک شخص کو دھمکی نہیں دیتا بلکہ ساری انسانیت پر حملہ کرتا ہے اور سارے انسانوں کو دھمکی دیتا ہے۔ کتابِ الٰہی میں فرمایا گیا ہے کہ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بخش دی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کا بقا اور احترام اس بات پر منحصر ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسان کی جان اور عزت و آبرو کا احترام موجود ہو اورہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقا اور تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل ہمدردیِ نوع کے جذبے سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کادشمن ہے۔کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو تمام افرادِ انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسانی کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقا کا انحصار ہے‘‘۔ 
دہلی میں فساد سے پہلے اور فساد کے بعد جو کچھ ہوا یا جو کچھ ہورہا ہے وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ عدلیہ کا کردار آہستہ آہستہ قابل گرفت اور افسوسناک ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے بار ایسوسی ایشن کے صدر دُشیانت دیو نے عدلیہ کی سست روی اور غیر مستعدی پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’"Jstice no done – Judiciary should have acted with greater alacrity in cases involving hate speech" ۔ان کا یہ مضمون انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں  (3مارچ) شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’27 فروری 2020ء کو بی جے پی کے لیڈروں کی جو نفرت انگیز تقریریں ہوئیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنا دستوری فرائض سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ وقت آچکا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو بتایا جائے کہ یہ دستوری اور آئینی طور پر کتنا اہم اور ضروری ہے‘‘۔ مضمون نگار نے آگے کی سطروں میں لکھا ہے کہ جب کوئی پارلیمنٹ کا ممبر یا وزیر دستور کی وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’ میں سچائی پر قائم رہوں گا اور ہندستان کے دستور کی وفاداری کروں گا اورجو بھی میری معلومات میں فیصلے کیلئے لایا جائے گا بغیر کسی خوف، جانبداری، بغیر کسی غلط خواہش اور جذبۂ شفقت کے اپنی پوری ایمانداری اور سے بہتر صلاحیت کے ساتھ دستور کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی کروں گا‘‘۔ دستور کی دفعہ 21کے مطابق ہر ایک جج پابند ہوگا کہ کوئی شخص اپنی زندگی اور ذاتی آزادی سے محروم نہ ہو۔ جو قانون دستور کی جانب سے مسلم ہے اس کا پاس اور لحاظ رکھا جائے‘‘۔ 
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر پر مشتمل ایک بنچ نے مرکزی حکومت کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا کہ ’’نفرت انگیز تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے وقت سازگار نہیں ہے ۔ امن وامان کو یقینی بنانے کی اس وقت ضرورت ہے۔ سماعت ملتوی کردی گئی اور 13 اپریل کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ عدالت یہ سمجھنے سے قاصر رہ گئی کہ دہلی میں40 سے زیادہ انسانی جانوں کا تلف ہوا اور 200سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ ہزاروں مکانات، دکانیں  اور کارخانے تباہ و برباد ہوئے۔ مرکزی حکومت کے تحت جس کے کنٹرول میں دہلی کی ریاست آتی ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن اور حیران کن ہے کہ حکومت کی طرف سے موزوں وقت کی بات کہی جارہی ہے۔ عدالت دستور کی گارجین اور دہلی کے شہریوں کی سرپرست ہے۔ اسے مستعدی سے کام لینا چاہئے تھا۔ قانون کا نفوذ مناسب وقت اور مناسب دن کیلئے ٹال نہیں دیا جاتا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ انتظامیہ پورے طور پر ناکام ہو ، ایسی حالت میں عدالت کو چاہئے کہ وہ حکومت کی مشنری کو عملی قدم اٹھانے پر زور دے‘‘۔ 
یہی دہلی پولس ہے کہ جن لوگوں نے مرکزی حکومت پر تنقید کی تھی ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے میں کسی موزوں وقت کا انتظار نہیں کیا۔ کنہیا کمار اور ہرش مندر جیسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی ایک دستوری بنچ کے مقدمے کیدار ناتھ سنگھ بنام حکومت بہار (1962ء) میں ججوں نے غدارِ وطن کی دفعہ 124A (sedition under Section 124 A.) کے متعلق کہا کہ ’’بطور تبصرہ و تنقید ایک شہری کا حق ہے کہ حکومت کے بارے میں جو کچھ چاہے لکھ سکتا ہے، کہہ سکتا ہے ۔ اس وقت تک جب تک حکومت کے خلاف عوام کو تشدد برپا کرنے کیلئے اکسائے نہیں اور نہ ہی بدنظمی پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کرے۔ مزید لکھا گیا کہ الفاظ، تحریر یا گفتگو وغیرہ سے جب عوام میںبدنظمی اور بدامنی پیدا ہو تو عوامی مفاد کیلئے قانون دخل انداز ہوسکتا ہے‘‘۔ 
نہارندو دت مجمدار بنام سلطان برطانیہ کے مقدمے میں 1942ء میں فیڈرل کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا لب و لباب بھی سپریم کورٹ کے 1962ء کے فیصلے کے مطابق ہے۔ ’’2013ء میں للیتا کماری بنام حکومت اتر پردیش کا جو فیصلہ ہوا تھا اس کو بھی دہلی ہائی کورٹ نے بالکل نظر انداز کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ دفعہ 154 کے مطابق ایف آئی آر درج کرنا ضروری ہے ۔ اگر قابل دست درازی جرم (cognisable offence)ہے اور اس کیلئے کوئی ابتدائی تفتیش کی اس معاملے میں ضرورت نہیں ہوتی‘‘۔ 
(دہلی پولس کو چاہئے تھا کہ بغیر کسی انتظار کے فوراًاس قابل دست درازی جرم کے خلاف ایف آئی آر درج کرے مگر پولس نے نہ صرف کوتاہی برتی بلکہ طرفداری اور جانبداری کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے پورے ملک میں اور پارلیمنٹ میں مظاہرے ہورہے ہیں اور شاید اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک کہ پولیس چار شرپسندوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ نہیں چلاتی)۔  
���
موبائل نمبر؛9831439068، E-mail:[email protected],