بہ آمدہ سالِ نَو 2019
غنیمت ہے کہ سالِ نَو کا سوُرج
حِصارِ وقت سے آزاد ہو کر
مِثالی جِسم کا چہرہ لِئے اب
اُبھر آیا ہے پھر نَو خیز سورج
نئی اِک صبح کا اعلان کر کے
جہانِ زیست کو باور یہ کر دے
مَیں چھایا پھِر سے ہوں جامہ بدل کر
ضیا پاشی کیا میری سحر کُن ہے
مَیں اپنے نور کی چادر بکھیرے
عروسِ نوَ کی صورت باغ و بَن کو
متاعِ نور سے نوران کر کے
حیاتِ نَو کو یہ بتلا رہا ہوں
مِرا ہم عصرِ رفتہ بھول جائو
یہ عصرِ نَو میں ابدی ہو چُکا ہے
بہت مایوس کُن تاریخ اِس کی
مزاج اس کا بہت ہی فتنہ گر تھا
رقم اس میں تھی قوموں میں تفاوت
کہیں مندر کہیں مسجد کا جھگڑا
شریعت، گائے اور بچھڑوں کا لپھڑا
برس وہ نوٹ بندی کا سبب تھا
کہ حیراں اس سبب پر آپ رب تھا
گِرانی اور بے کاری نہ پوچھو
ہنر مند شیشہ گر دستِ نگر ہیں
پڑا ہے سب کا چولہا ماند یکسر
نہیں دو وقت کی روٹی میسّر
جرائم قتل و غارت لوٹ ماری
تقدّس جنسِ زن کا دائو پر ہے
ہیں بچّے جا بجا پامال صورت
ضعیفوں کا ذہن چکرا گیا ہے
دکھائیں کس کو وہ معدوم صورت
خدا وند سالِ نَو اب شاد کر دے
زمیں پر سب کو یہ آباد کر دے
آمین۔۔۔
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ؛ 9697524469
خدا کو ڈھونڈھنے نکلے
بڑے بھولے بڑے ناداں
خدا کو ڈھونڈھنے نکلے
ارے ڈھونڈا اسے جاتا
نہیں جو پاس ہوتا ہے
تمہیں گھر میں نہیں ملتا
تو جنگل ڈھونڈنےنکلے
نظر آتا نہیں دل میں
تو صحرا میں بھٹکتے ہو
کبھی دریا کبھی ساگر
کبھی پربت، کبھی میداں
تلاشِ یار میں تم تو
یہاں سے واں بھٹکتے ہو
سنو گھر لوٹ کے آئو
وضو کر اپنی آنکھوں کا
عقیدت والے اشکوں سے
محبت والے اشکوں سے
اور پھر۔۔۔۔
گلوں میں دیکھ لے اس کو
پرندوں کی صداوں میں
ستاروں کی ادائوں میں
وہ بچوں کے تبسم میں
ہوائوں کے ترنم میں
وہی ہے دھوپ میں دیکھو
کہ ہر اک روپ میں دیکھو
وہ بارش میں، وہ بادل میں
وہ سورج میں، وہ چندا میں
وہ تتلی کی سجاوٹ میں
وہ آدم کی بناوٹ میں
اگر ہے دیکھنا اس کو
تو خود میں دیکھ لو اس کو
خدا تجھ میں ہی بستا ہے
خدا مجھ میں ہی بستا ہے
فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام،چاڈورہ کشمیر
موبائل نمبر؛9596414645
صدائے مفلس
باڑھ سے راحت ملی تو آ گئے جاڑے کے دن
کیا گزرتی ہے غریبو تم پہ اب کمبل کے بن
تھرتھراتے جسم ہیں لب سے نکلتی ہے صدا
کیا یہی تقدیر ہے ہم مفلسوں کی اے خدا
گھر میں اک دانہ نہیں، کھیتی کرے کیسے کسان
ہاتھ میں پیسہ نہیں، بیٹی کا اب کیسے ہو دان
ایک وہ انسان ہیں جو کھیلتے دولت سے ہیں
ایک وہ انسان تھے جو مر گئے غربت سے ہیں
کون سی نیکی تھی انکی،کیوں ملی ان کو جزا
کیا ہوئی ہم سے خطا، ہم کو ملی ایسی سزا
ان کو تو گاڑی ملی، دولت ملی،عزّت ملی
ہم ذلیل و خوار ہیں،ہم کو فقط ذلت ملی
ہم ابھی زندہ ہیں، رہنے کو نہیں ہے جھونپرا
اور مُردوں کے لئے بنتا یہاں ہے مقبرہ
یادگاروں پر ہزاروں سال تک شمع جلے
اور ہم سڑکوں پہ مر جاتے ہیں گاڑی کے تلے
صاف ہیں کھادی کے کپڑے، آپ لگتے ہیں بھلے
پانچ سالوں بعد آکر آپ ملتے ہیں گلے
آپ کی باتوں میں ہم آتے ہیں، دل مجبور ہے
آپ کا مطلب نکل جائے تو ملنا دور ہے
کیا یہی انسانیت ہے، کیا یہی انصاف ہے
جو کرے تم سے وفا، اسکا ہی پتّہ صاف ہے
تم سے ہی کہتا ہوں میں چپکے کھڑے سنتے ہو کیا
درد سے بسملؔ تڑپتا ہے کرو اس کی دوا
پریم ناتھ بسملؔ
،مہوا،ویشالی،موبائل نمبر؛8294170464
یاد کے قافلے
یاد کے قافلے
درد کے سلسلے
شام کے گائوں میں
سُرمئی چھائوں میں
پھر اُترنے لگے
رخم بھرنے لگے۔
درد کی آنچ سے
شام روشن ہوئی
ایک صورت اُگی
چاند چہرہ کِھلا
نیلی آنکھیں جگیں
اور صورت وہی
بھولی بسری ہوئی
یاد کے دوار سے
چھب دکھانے لگے
جھلملانے لگی۔
بول روٹھے ہوئے
شبد بسرے ہوئے
کچھ کہے اَن کہے
کچھ سُنے اَن سُنے
پھڑ پھڑانے لگے
یاد آنے لگے۔
شام کے گائوں میں
سُرمئی چھائوں میں
چاند چہرا جگا
اور ایسے لگا
تن بدن جان و روح
سرخرو ہوگئے
تن بدن جان و روح
جستجو ہوگئے
تُو ہی تُو ہوگئے
تُو ہی تو ہوکئے
کے ڈی مینی
پونچھ،جموں وکشمیر
موبائل نمبر؛8493881999