تکان کی چادر میں
چھوٹا سا اک گھونسلہ ہے یہاں
وقت کی ڈال پہ میرا
زندگی بھر کے ہنگاموں کو سمیٹے ہوئے
تنکے تنکے پہ کہانی ثبت کئے
جہاں خاموشیوں کو گویائی کھلائی ہے میں نے
نہتے پنکھوں میں اڑانیں پروئی
رُتوں کے تغیّر وتبدل کی جدول سجائی
میقات کی ٹِک ٹِک سے
رنگ، خوشبو، ہوائیں، بجلیاں،دندھ، دھوپ ، بارشیں
چلے گئےسب
اپنا اپنا تماشہ دکھا کر
بوجھل کررہا ہے اب میرے وجود کو
اپنے خالی پن کا احساس
وہ توتلی خاموشیاں، وہ نازک معصوم پنکھ
اپنی اپنی دِشائیں لے کر
منزلوں کی تلاش میں نکلے
اپنے خوابوں کے گھونسلے
مٹھی میں سموئے
اور میں ….!
اپنی تکانیں اوڑھ کر سونا چاہتا ہوں
اپنی یادوں کے گھونسلے میں
دیر تلک سوچوں کا سفر پسارے
خلاؤں سے کہہ دو
سارے روزن بند کرلے ..!
علی شیدّا
( نجدہ ون) نپورہ اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
کر چکے جنگ بہت!
کر چکے جنگ بہت آئو یہ جرأت بھی کریں
نفرتیں بھول کے کچھ شرحِ محبت بھی کریں
کون سی جنگ تھی ایسی جسے ہم بھول سکیں
m
کون سی جنگ تھی‘ دونوں کو نہ آیا ہو زوال
کون سی جنگ تھی‘ انجام نہ تھا جس کا ملال
کب بھلا جنگ ہوئی اور نہ چلیں بندوقیں
m
کب نہ شہروں پہ ستم توپوں نے کُھل کر ڈھائے
کب بھلا گائوں نہ سنگینوں کی زد پر آئے
جنگ بھڑکی تو یتیموں کی صدائیں گونجیں
m
چیخ بیوائوں کی اٹھّی تو گئی تا بہ فلک
درد میں ڈوب گیا دلّی سے لاہور تلک
امن کیا چیز ہے اب بیٹھ کے ہم تم سوچیں
m
جنگ سے امن ملے‘ یہ کبھی ممکن ہی نہیں
آگ سے آگ بجھے‘ یہ کبھی ممکن ہی نہیں
اب کے ہم ایسے ملیں‘ مسئلے حل کر کے اُٹھیں
m
بدگمانی لئے سرحد پہ رہیں اب نہ کھڑے
فیصلہ کر لیں کہ کشمیر نہیں ہم ہیں بڑے
انتظار نعیم
E-45 ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا ،
نئی دہلی۔۱۱۰۰۲۵
فون؛9810841086
میری منزل بتا
سفر کا آغاز کروں
قدم قدم ہی سہی
چشمِ نم ہی سہی
دل میں غم ہی سہی
راستے سے بے خبر بھی چلوں
میں تو پا بہ سر بھی چلوں
ہر خوشی کو وار کر
خواہشوں کو ہار کر
اپنی خاطر جو نہیں
تیری خاطر ہی سہی
تیری خاطر بھی نہیں
یوں ہی چلتا چلوں
پر اے جانِ ستم
یہ جو چلنا ہوا
اس کی روحِ سوا
ہے وہ جوشِ وفا
اِس کا ہر اک قدم
اِس میں ہر اک ستم
اُس کا مارا ہوا
ہو نہ تجھ کو خبر
اور غرض بھی نہیں
پر اے جانِ ستم
میرے سفر کے لئے
مجھ کو اتنا بتا
کہ ہے منزل کہاں
شھزادہ فیصل منظور خان
جی-ایم-سی 8492838989
محبوب کاانتظار
میرے محبوب کوآناہے شاید
کہ خوشبوسی اچانک آرہی ہے
مجھے ہرچیزاپنی لگ رہی ہے
جو لگتی تھی کبھی بیگانہ جیسی
یہ موسم بھی سہاناسالگے ہے
یہ ویرانہ بھی آبادی لگے ہے
بہت بے چین ہوں میں صبحدم سے
صبح سے ہی لگی ہیں درپہ آنکھیں
وہ میرادِل رُباجس وقت آئے
بچھائوں راہ میں اس کی میں آنکھیں
یہ دِل کیوں آج بیٹھاجارہاہے
کہیں آنا ہی اک افواہ نہ نکلے
مگردیکھا جواُس کویوں اچانک
زباں سے بات تک بھی نہ نکلی
خموشی ہی زبان بن کے یہ بولی !
’دلؤ معشوق میانیٔ پوش وتھرئی ‘
(میرے معشوق آ!میں تیرے لئے پھولوں کی سیج سجائوں)
عثمان حنفی
(بی ۔ای آنرز)B.E (Hon)
موبائل نمبر؛8825051001