وفورِ کیف
تیرا حُسنِ فطرت ہے دیدنی یہی تیری شانِ جلال ہے
اُٹھی جس بھی جانب نظر کوئی ہوئی طبع اُس کی نہال ہے
کیا زمیں کے تیرے یہ نقش ہیں کیا نشیب اِن کے فراز ہیں
کہیں کیف پرور ہیں وادیاں کہیں کوہ کا ڈیرا کمال ہے
جو بسیط اِن میں ہیں بستیاں ہیں مقیم اِن میں کچھ ہستیاں
ہیں وہ غرق تیری تلاش میں تُو ہی اُن کا مشرق شمال ہے
تیرا نُور پھیلا ہے خُشک و تر اِک اِسی کا سایہ ہے سربہ سر
ہے نگاہوں سے تو مخفی کیوںیہی سب کا تجھ سے سوال ہے
اے عُشاقِؔ احقر گُماں نہ کر تُو قریب ربؔ کے ہے خُوب تر
یہ فریب خود کو نہ دے میاں یہی خامِ تیرا خیال ہے
عُشاق کشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
نظم
آنکھیں تیری قصیدہ
چہرہ تیرا رُباعی
جس نے تمہیں تراشا
کیا خوب وہ خدائی۔
اے نظم جیسی لڑکی
مشکل تیری جدائی۔
تم شاعری سی دلکش
ہر لفظ میں سمائی۔
مطلع ہیں تیرے پاؤں
مقطع تیری اونچائی
پلکیں لگے ہیں قطعہ
اَبرو تیرے خطائی
تم ہو بہو غزل ہو
شاعر نے جو سجائی
آنچل تیرا فلکؔ سا
خوشبو تیری صبائی
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھتر گام کشمیر