“میں نے پرندے کو دیکھا”
میں نے پرندے کو دیکھا
گیتوں کے پنکھ لگائے
بہار کی پہلی دستک پہ
چہکتے ہوئے۔۔۔۔!
میں نے پرندے کو دیکھا
تپتے آنگن کی دھول ڈھوتے ہوئے
پیاس سے مضمحل
ہرے پتوں کی اوٹ میں
رقص کرتے ہوئے
برسات کی بوندوںپہ۔۔۔۔!
میں نے پرندے کو دیکھا
خزاں کے آخری پتے کی
لڑکتی سرسراہٹ پہ
بین کرتے ہوئے۔۔۔!
میں نے پرندے کو دیکھا
جاڑے کی برف پوش ٹہنی پہ
یخ بستہ ہوتے ہوئے ۔۔۔!
میں نے پرندے کو دیکھا
خواب کی آخری سیڑھی پہ
اندھیروں کے خلا میں
نئی روشنی کے گیت گاتے ہوئے۔۔۔!
میں نے پرندے کو دیکھا
آنکھ کے ٹوٹتے آئینے میں
کانچ کی طرح بکھرتے ہوئے
اپنے عکس کو روندھتے ہوئے
میں نے پرندے کو دیکھا۔۔۔!!!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087
یاترا اَمرناتھ جی
پھر وہ شئے اُجلی سی دل کو دیکھکر آتا سکون
ایک درشن سے یہاں ملتا ہے جیوں کا شگون
وادیٔ سندھ بھی تمہارے سامنے تھی سرنگوں
آج بھی دھرتی پہ تیرے نام سے ملتا سکون
دورِ ویدک میں جہاں پائے تھے رُدراؔ کے پر بھائو
آریہ لیکر چلے آئے تھے شیوا کے سبھائو
مت سیا، کُرماولنگ، وایو، سکندا، اَگنی، پران
ہیں یگوں سے پشوپتی کے نام سے جاری گیان
ہے تیری صورت، ویربھدر، بھیرواہ بھی تیری آن
یوگ میں بیٹھے مہایوگی بھی دیکھی تیری شان
ہے سرو، تو بھیم رُدرا، بھائو تیرے ہی صفات
پشوپتی، مہادیو، اُرگا، ایشنا تیری ہی ذات
دامن کوہ ماہِ شراون میں جہاں کُھلتے دوار
سب چلے آتے ہیں جنہوں نے کئے فن سےوِچار
راستے بھی ہیں کٹھن لیتے نہیں چہرے پہ ہار
پالکی لیتا کوئی، پیدل کہیں گھوڑے سوار
یہ کمنڈل پھر سجایا کیا چھڑی کی شان ہے
شیو تیری شکتی کا ہر لب پہ بڑا گُن گان ہے
شفیع شمسی
نیو ہائیٹ، ہمہامہ سرینگر،
موبائل نمبر؛9541413537
منظرِ نور
ہے تراوصل جو روشن ہے ستارا کوئی
تیری بُو باس ہے کہ ہے حسُنِ بہارا کوئی
اب ہے ایسا کہ تیرے شہر کی چاہت میں
پھر رہا دل میں ہے ارمان یہ مارا کوئی
روشنی ہے کہ ترے نور کا ہے یہ منظر
شمعِ محفل میں چھُپا پُر نور شرارا کوئی
مٹ ہی جاناتھا ظلم اور جبر کو اس دنیا سے
ہے محمدؐ سے بھی بڑھ کر اللہ کو پیارا کوئی!
ساری دنیا کو تُو دیکھ سکینہؔ پھر کہہ؟
کیا مدینے سے بھی بڑھکر ہے نظارا کوئی
سکینہ اخترؔ
کرشہامہ کنزر ٹنگمرگ
بیٹیاں
مائیکے میں
چھوٹی چھوٹی باتوں پر
آسمان سر پر اُٹھانے والی
یہ بیٹیاں
اتنی خاموش کیوں
ہوجاتی ہیں۔۔
ماں باپ کو
کوئی تکلیف نہ ہو
یہ سوچ کر
سب کچھ
برداشت کرتی ہیں۔۔۔
یا
بیٹیاں درد کہہ نہیں پاتیں
اور مائیں
سہہ نہیں پاتی
روحی جان
نوگام، سرینگر، کشمیر
گذشتہ شمارے میں شائع شدہ اس نظم پر غلطی سے ثمینہ سحر مرزا کا نام آیا تھا، جس کیلئے ادارہ معذرت خواہ ہے۔