نظر

منظور ملک
خالق کون و مکاں نے انسان کو آنکھیں دے کر اس پر سب سے بڑا احسان کیا کیونکہ آنکھوں کے بغیر روشن دنیا کی رنگینی،خوبصورتی ،چمک دمک ،چمن ،پھول ،گلستان ،نخلستان ،حسن ،رعنا ئی ،بہار ،خزان ،نور ،ظہور ،شجر ،نباتات ،سمندر ،پہاڑ ،زمین ،آسمان ،سورج، چاند ،جھلمل تارے ،ستارے ،خوبصورت نظارے وغیرہ وغیرہ نہ دیکھ کر محظوظ ہوتا اور نہ ہی محسوس کرپاتا ۔کہا جاسکتا ہے کہ نظر ظاہر اور باطن کے درمیان وہ دروازہ ہے ۔جو باطن کو دنیا کے لطیف‌مناظر اور خوبصورت احساسات سے مالامال کرتا ہے ۔اس کے بغیر تخیل کی پرواز ناممکن ہے ۔مطلب صاف ہے نظر صرف دیکھنے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ نظر بصیرت سے جڑی ہے اور بصیرت ہی کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے ۔نظر کا تعلق شعور سے بھی ہے اور دل کے اندر پیدا ہونے والی خواہشات سے بھی ۔نظر خوبصورتی اور بدصورتی کا امتیاز ہے۔

نظر ہی کی بنیاد پر انسان نے چاند کو دیکھا اور پھر چاند پر جاکر اس کی پیمائش بھی کی ۔نظر ہی کی بدولت انسان نے مشاہدات کئے اور مختلف العنوان کے تفریحی و غیر تفریحی ایجادات کیں۔نظرعشق کی شروعات ہے اور حسن کی پہچان بھی ۔حسن کی پیمائش نظر سے ہوتی ہے پھر دل میں عشق کا بگل بجنے لگتا ہے اور عاشقی کی شروعات بھی ۔گویا نظر عاشق اور معشوق کو جنم دیتی ہے ۔معشوق کی ایک نظرکے لئے تڑپنا اور اگر نظر پڑ جائے تو اس سے زخمی ہوکر نڈھال ہوجانا عاشق کا مقدر ہوتا ہے ۔ ایک عاشق کو نظر انداز کرنے کے دکھ ، اور دیکھے جانے پر ملنے والے ایک گہرے ملال سے گزرنا ہوتا ہے ۔یہ بھی نظر کا ہی فسانہ ہے۔غرض نظر قدرت کا وہ تحفہ ہے جو کوئلوں کی کان میں ہیرے کو پہچانتی ہے اور نظام قدرت کا بھرپور جائزہ بھی لیتی ہے ۔اس نظر میں پوشیدہ شر بھی ہے اور خیر بھی ۔پیار اور خلوص سے دیکھو گے تو نظر دعا بن کر ہزاروں تکلیفوں کی دوا بن جاتی ہے ۔اسی نیک اور پاکیزہ نظر کو ڈاکٹر اقبال نے یوں دہرایا۔

نگاہے مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں‌زنجیریں

اس شعر کی رو سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے نظر محض دیکھنے کا عمل نہیں ہے ۔نظر کا تعلق نور سے ہے اور نور خدا کی بارگاہ اقدس سے خارج ہوتا ہے ۔جو انسان خدا کے طے شدہ ‌قوانین کے تحت زندگی گزار لیتا ہے اس کی نظر میں تاثیر پیدا ہوتی ہے اور وہ تاثیر خدا کی بارگاہ اقدس سے اجازت طلب کرتی ہے ،جو کبھی کبھی فوراً مل جاتی ہے یعنی دعا قبول ہوجاتی ہے اور حقدار کی عارضی پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں ۔اگر اس شعر کو ظاہری معنٰی پر محمول کیا جائے گا تو کسی کی بھی نگاہ سے تقدیر نہیں بدلا کرتی۔اور کلام کے باطنی معنٰی پر توجہ ڈالی جائے گی تو بات اس طرح نکل کر آئے گی ’’نگاہ مرد مومن ‘‘ سے مراد  جذبہ ایمان ،بہادری ، قوت ،ارادے کی پختگی، یا مومن کی فراست مراد ہو سکتی ہے۔ مومن کی فراست کا مطلب یہ ہےکہ وہ  خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ بات صاف ہے کہ نگاہ صاف و پاک ہو تو تقدیر معلق میں بدلاو دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ تقدیر مبرم بدلتا نہیں ہے۔

نظر نظر کا فرق ہوتا ہے حسن کا نہیں اقبال

محبوب جس کا بھی ہو جیسا بھی ہو بے مثال ہوتا ہے

اس شعر پر جب نظر پڑتی ہے تو نظر کا ایک اور فلسفہ سامنے آجاتا ہے وہ فلسفہ یہ ہے کہ دیکھنے کا انداز سب کا مختلف ہوتا ہے ۔مجنوں کو کالی لیلیٰ میں حسین جلوے نظر آئے اور اس کے عشق میں مبتلا ہو کر فنا ہو گیا ۔اسی طرح نظر میں شر کا پہلو بھی ہوتا ہے ۔کسی کی نظر دعا بنتی ہے تو کسی کی نظر بیماری کا سبب بن جاتی ہے ۔جی ہاں یہ نظر بد کی بات ہورہی ہے ۔نظر بد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ انسان کو قبر کی دہلیز تک پہنچا سکتی ہے اور اونٹ کو ہانڈی میں سمیٹ سکتی ہے ۔ کبھی کبھی ایک انسان کی نظر دوسرے انسان کی خوشیوں کو کھاجاتی ہیں اور سکون کو بھی ۔ایسی نظروں میں مقناطیسی طاقت ہوتی ہے اور شیطانی حمایت بھی۔نظر بد سے کیا کیا ہوتا ہے ۔ایک صحت مند انسان اچانک بغیر کسی وجہ سے جسمانی کمزوری محسوس کرتاہے۔ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اپنے سر کو بھاری محسوس کرتا ہے۔اُسے بغیر کسی وجہ سے بھوک لگنا ختم ہو جاتی ہے اُس کے چہرے کا رنگ پیلا یا زرد ہونا شروع ہو جاتا ہے چھوٹی اور معمولی باتوں پربھی پریشانی اسے گھیر لیتی ہے اور اُس کی ہمت کو شدید نقصان پہنچاتی ہے، اُسے سینے میں جکڑن اور بھاری پن محسوس ہوتا ہے جسم پر سُستی طاری ہو جاتی ہے اور کام کرنے کی صلاحیت ختم ہو۔جاتی ہے سر میں مستقل درد رہنا شروع ہو۔جاتا ہے یا وہ درد شقیقہ کو ایک ہی رنگ سے تعبیر کرتا ہے ۔۔ نظربد لگنے کی صورت میں آدمی اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملنا پسند نہیں کرتا ،کاروبار یا املاک میں نقصان ہونا شروع ہو جاتا ہے۔نظر کے یہ کرشمے عجیب بھی ہیں اور مضر بھی ۔

نظر  اس نظر سے شر بھی پہنچ سکتا ہے اور خیر بھی ۔اس نظر کا تعلق آنکھوں سے بھی ہے یعنی بصارت یا دیکھنے کی صلاحیت سے ۔ نظر سے دنیا کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اس کی پیمائش کی جاسکتی ہے اور خوبصورت مناظر کا دیدار بھی ۔نظر کی قدر اس انسان سے پوچھو جو اس سے محروم ہے ۔جس کی دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔جس کے لئے دن رات میں کوئی فرق نہیں ہے ۔جو دنیا کی رنگینیوں سے ناآشنا ہے اور خوبصورت مناظر دیکھنے سے قاصر ۔جو اپنی دنیا کا دن رات خود طے کرتا ہے ۔جس کے  لئے گورا یا کالا ،نیلا یا پیلا ،سبز یا لال اور ذرد یا گلابی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔ اس طرح کے انسانوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے، جس نے ہمیں بصارت کی اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے کہ ہم سب کچھ دیکھ بھی سکتے ہیں اور چن بھی سکتے ہیں ۔آنکھوں میں خدا کا نور پہنچتے ہی ہمیں کائینات کی تخلیق اور زیبائش کے راز نہ صرف نظر آتے ہیں بلکہ سمجھ بھی آتے ہیں ۔اسی لئے ہمیں اپنی نظر کا صدقہ دوسروں کو خیر‌پہنچانے سے ادا کرنا چاہیے ۔تاکہ آنکھیں بند ہونے کے باوجود بصیرت موجود رہے ۔

( قصبہ کھُل کولگام،9906598163)