نظر اور نظریہ

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے 
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
(ساحر لدھیانوی)
کائنات کا مظاہرہ کرنے کے لیے اورفطرت کی بنائی گئی خوبصورت دنیا کو دیکھنے کی خاطر نگاہ یا نظر کا ہونا ضروری ہے ۔نظر کا تقاضا یہی ہے کہ یہ نظارہ قائم کر سکے اور نظارہ خود میں فطرت کا بے انتہا مظاہرہ رکھتا ہے جس کی لا تعداد وسعتیں کبھی تصویر جاناں کا روپ دھارلیتی ہے تو کبھی خیالات کی حسین وادیاں پیدا کرتی ہیں جن سے عام نظر یا نگاہ کا سفر نظریہ اور نظریات کی وسعی و عریض جہاں میں مسکن ڈالتی ہے جس کی نہ کوئی صورت ہوتی نہ ہی کوئی سیرت جو نہ کوئی خاکہ کھینچتی ہے اور نہ ہی کوئی ڈراما کھیلتی ہے ۔اس کے کھیلنے کا ہنر بھی نرالا ہے جو خیالات کی تمام دہلیزیںپار کر جاتا ہے تو زندگی کی نئی تعبیریں سامنے آتیں ہیں جن کی گہری نسبت انسانی مزاج، اس کی دانشمندی، اس کی بزلہ سنجی اور اسی طرح کے مختلف لسانی ، علمی، ادبی، تجرباتی ،مشاہداتی، تجزیاتی معاملات سے متعلق ہوتی ہیں ۔
نظر لفظ کے ساتھ مختلف صفتیں اور اِسمیں جوڑی گئی ہیں جن کی بدولت نئی لفظی ترکیبیں سامنے آئیں ہیں جن سے کبھی کبھار لسان دان لفظوں کا سوداگر بن کر ان کا سودا بھی انوکھی جملہ بندی اور لسانی کھیل کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ آئیں ہم بھی تھوڑی دیر کے لئے اس کھیل کے تماشائی بن جاتے ہیں ۔ 
’’ نظر ہی نظر میں ‘‘ کا استعمال اکثر و بیشتر اہل علم و ادب کرتے ہیں۔ یہ متعلق فعل ہے جس کے معنی ہیں ’’آنکھوں کے اشارے میں ‘‘ آنکھوں کے سامنے آنکھوں آنکھوں میں ۔ بعض اوقات یہ جملہ محاوراتی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ نکالا جاتا ہے آنکھوں میں دیکھنا ، اشاروں میں ہی دیکھنا ۔غرض یہاں نظر کو دوسری نظر کا محتاج گردانا جاتا ہے اور یہ دوسری نظر خود شخص کی ہو سکتی ہے ، اس کے دشمن کی ہو سکتی ہے ، اسکے دوست کی ہو سکتی ہے ، یا اس کے محبوب کی ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ دوسری نظر محبوب کی ہے تو یہ ہزار ہا بار پاک بھی ہے اور صاف بھی ۔اس نظر کا کوئی اندزہ ہی نہیں کر سکتا کیونکہ محبوب کی نظر کبھی جھیل کی گہرائی کی سی وسعت رکھتی ہے تو کبھی سمندر جیسا منظر ،کبھی دریا کی روانی اپنے اندر سمو دیتی ہے اور کبھی تمام حدود کو توڑ کر لامکان کا سا نقشہ پیش کرتی ہے جہاں سے عاشق کی نظر حد نگاہ کو بھی عبور کر کے نظر بازی کا ثبوت دیتی ہے جہاں سے آدمی مردم شناس بن کر نکلتا ہے اور صاحب نظر بن کر ہر اس نظر کو ’نظر انداز ‘ کرتا ہے جو اس کی طرف یا اس کے محبوب کی طرف اٹھتی ہے ۔ 
نگاہ ناز کے سودا کا بھی عجیب عالم ہے جہاں سودا گری کا ہر اصول نفع و نقصان کی قیود سے ہر وقت آزاد رہتا ہے جس میں سوداگر اور خریدار ایک دوسرے پر فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں۔ اب اگر سوداگری کی عمر پختہ پن کو پہنچ جاتی ہے تو مدون ہو جانے کا عمل قریب تر نظر آتا ہے۔ اس طرح سے اس نظر آنے کا عمل نظریہ کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کا تمام تر دارومدار شہر دل کی کاروباری منڈی پر مبنی ہے جہاں کا موسمی حال مستقبل کی کامیابی کا اندازہ طے کرتا ہے کہ کس قدر سیلابی ریلوں کو روکا جا سکتا ہے ،زلزلوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے، طوفانوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ، سونامی کو ٹالاجا سکتا ہے یا کہ سنگ ساری کو روکا جا سکتا ہے ۔
شہر دل کی سڑکیں کبھی ویرانوں سے ہو کر کے گزر جاتی ہیں تو کبھی ریگستانوں میں سے سر آب کو کھو جنے کی سعی میں لگ جاتی ہیں، بعض اوقات گھنے جنگلوں، خوف ناک سمندر کی لہروں سے بھی راستہ بنانے کی کوششیں جاری رہتی ہیں ۔ ہماری نظر کے لئے امتحان کی گھڑی تب ہوتی ہے جب انجانے میں ہم کسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو ہم پر نظر کجی کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے جو ہم کو دشمن ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔ 
بدقسمتی سے اگر آپ کی دشمنی کو سیاسی رنگ سے نوازا گیا تو آپ کو ریسٹ ہاوس میں یا اپنے خانہ میں نظر بند کر دیا جائے گا تاکہ آپ کی آنکھیں گھر کی کھڑکیوں سے بھی جھانک کر کچھ نہ دیکھ پائیں اور اس طرح سے آپ نظر بوسی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔نظر بوسی کرنے کا فن بھی عجیب مہارت چاہتا ہے ۔اس کے لئے آدمی کا نہایت نظر شناس اور نظر بین ہونا ضروری ہے تاکہ وہ وہ تخیلی سطح پر نظروں سے چومنے کا کام کرے جس سے بعض اوقات نظر آشوبی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور فتنہ پروری کو مختلف شعری اصطلاحوں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 
مجلس غیر میں عاشق اور محبوب کے لئے جس لفظ کا سہارا لینا مناسب سمجھا جاتا ہے اس سے ’’نظر پوشی‘‘ کہا جاتا ہے جس کے عام معنیٰ ہیں آنکھ چرانا، نظر چرانا گویا غیروں پر ان کے داستان عشق کی حقیقت کا واہ نہ ہو جانا بقول مومنؔ   ؎ 
غیروں پر کہی کھل نہ جائے راز دیکھنا 
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا
لیکن تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں جس بھی شخص کو بیرونی سطح پر تاڑ لیتے ہیں اس کے اندرون کا سارا نقل نکال دیتے ہیں اور ایک نظریہ قائم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر کچھ ہی کامیاب قرار پاتے ہیں جن کے یہاں ہنر مندی اور تجربات کی وارداتیں کام آتیں ہیں وہی صاحب نظر کہلائے جاتے ہیں۔ نیز کچھ اشخاص صاحب دل کہلاوانے کی بھی خواہش رکھتے ہیں مگر صاحب دل کو پہچاننا قدرے مشکل معاملہ ہے ۔ حالانکہ حق تو یہ ہے کہ سب سے بہترین اور مکمل نظریہ اہل دل ہی قائم کر سکتے ہیں جنھیں شاید کسی اعلیٰ شعور کی ضرورت درپیش رہتی ہے جس کے لئے علم ہونا ضروری نہیں ، فلسفی ہونا شرط نہیں یا کوئی مبلغ ہونا اہلیت نہیں بلکہ یہ ایک ایسی صلاحیت مانی جاتی ہے جو خدا داد ہوتی ہے جس میں کوئی کسب فیض والا عمل درکار نہیں ہے جس میں کسی امتحان کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی لیکن اگر پڑتی ہے تو وسعت قلب کی۔
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں 
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
(بشیر بدر) 
نظریہ سے یہاں مُراد ’’کسی نقطہ ٔ نظر‘ اصولی مسئلہ یا کسی مظہر کی فرضیاتی تشریح سے ہے ۔عالمی سطح پر ہمارے پاس مختلف نظریے موجود ہیں یا ایسی تھیوریاں جن کو مختلف علماء، سائنسدانوں اور تجربہ کاروں نے رقم کیا جو تحریری صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں جن میں نظریہ ارتقاء دو قومی نظریہ، جوہری نظریہ، موجی نظریہ، نبضی نظریہ، تماسی نظریہ ، تبادلوں کا نظریہ ، تکوینی نظریہ، میکانکی نظریہ ،گھریلو نظریہ،وغیرہ نظریہ کا سفر آگے چل کر نظریات کی وادی میں جب داخل ہوتا ہے تو نئی مختلف تراکیب اور نئے اصولی ، تجرباتی، مشاہداتی فلسفوں کی گونج سنائی دیتی ہے جو کہ الگ الگ نظریات کی بنیاد پر سامنے آتے ہیں جن میں نظریاتی محاز آرائی نظریاتی مملکت، نظریاتی وابستگی، نظریاتی کشمکش، نظریاتی سرحد، نظریاتی جنگ، نظریاتی تعصب شامل ہیں۔ان تمام تر نظریات میں بنیادی طور پر نظریہ کا عمل دخل شامل ہے یا یوں کہیں کہ یہ تمام نظریات اپنی اپنی سطح پر انفرادی حیثیت ،اصولی فکر کی مالک ہیں ۔ ہمارا یہ سوال کہ کیا نظریہ ہر کسی کے لئے ضروری ہے ؟ اب بھی تشنہ طلب ہے۔ دراصل نظریہ کی حد بندی کرنا اس کی صحت کے لئے نقصان رسا ہے، اس لئے اس سوال کا جواب اس طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ہر ذی حس کو زندگی کے نشیب و فراز میں نظر سے نظریہ تک کا سفر گزارنا پڑتا ہے کیونکہ زندگی گزارنا خود میں ایک طویل اور کٹھن نظریہ ہے جس تک کم ہی لوگ کامیابی کی صورت میں پہنچ پاتے ہیں۔ اکثر اشخاص زندگئی کو بسر کرنے کے لئے کوئی نظریہ قائم نہیں کر پاتے لیکن متعدد صورتوں میں گھریلو نظریہ سے بہرحال گزرنا پڑتا ہے ۔ گھریلو نظریہ سے مُراد ’’ وہ نظریہ جو گھر کی سطح تک اثر انداز ہو، مقامی زاویہ نظر ‘‘ جو خود میں کثیر المعنی ہے ۔ 
انسانی آبادی کی نشو و نما میں ایک سماجی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نظام میں مختلف ضمنی معاشرتی تعلقات قائم کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے سے سماجی رابطے وجود میں آتے ہیں اور اس طرح رشتہ داری کی فضائیں استوار ہو جاتی ہیں لیکن ان رشتوں کو سنبھالنے میں جس شعور کی ضرورت پڑتی ہے اس سے سماجی  شعور کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے عام فہم معنٰی معاشرتی حالات اور مسائل یا گھریلو حالات کو سمجھنے اور ان کا آسان طریقہ سے حل نکالنے کے لیے ہر شخص اپنے طور پر کوشش بھی کرتا ہے اور ان کی خاطر ایک نظریہ بھی قائم کرتا ہے جن کے خطوط پر چل کر ان کو نظریہ تک رسائی کے مختلف راستے ملتے ہیں لیکن ان راستوں پر چلنے کے لئے حکمت عملی یا پالیسی کی بھی ضرورت پڑتی ہے ۔کبھی یہ راستے ناہموار یا خاردار ثابت ہوتے ہیں تو کبھی ان راستوں سے گزر کر طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا قائم شدہ نظریہ آدھا ہی راستہ عبور کر پاتا ہے اور وہیں سے رشتوں کے خاتمے کی شروعات ہو جاتی مگر ان خاتموں کے اصول بھی منفرد ہوتے ہیں مثلاً یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے والا معاملہ بھی بعض اوقات سامنے آتا ہے جس میں نہایت سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرنا استلزامی بن جاتا ہے ۔
ہر اک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے 
کبھی تو حوصلہ کر کے نہیں کہا جائے
( ندا فاضلی)
 میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا 
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے 
(بشیر بدر)
(مضمون نگار ڈگری کالج حاجن کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)