نظامِ وراثت | مردو زَن برابر کیوں نہیں؟

 عام طور پر تصورکیا جاتا ہے کہ میراث کے اندر عورتوں کا حصہ مرد کے مقابلہ میں نصف ہے، یعنی مردوں کو جتنا ملتا ہے عورتوں کی اس کا آدھار دیا جاتا ہے، جبکہ عدل کا تقاضہ یہ تھا کہ مردو زن میں تفریق کے بغیر دونوں کو برابر ملے، مگر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کا تصور جہالت اور اسلام کے احکام اور میراث کے قواعد وضوابط سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے زن کو بہن اور بیٹی تک محدود رکھا ہے جنہیں بیٹے اور بھائی کے مقابلہ پر آدھار ملا کرتاہے جبکہ شریعت میںزن عام ہے خواہ بیٹی یا بہن کی صورت میں ہو یا ماں کی صورت میں یا بیوی کی صورت میں یا دادی کی صورت میں یا پوتی کی صورت میں یا علاتی واخیافی بہن کی صورت میں ، ان عورتوں کو میراث میں کتنا ملتا ہے، مردوں کے برابر یا کم یا زیادہ ، اس کی تفصیل سے پہلے سرسری نگاہ عورتوں کی اس صورتحال اور میراث میں ان کے استحقاق پر ڈال لیتے ہیں، جن کا سامنا انہیں اسلام سے پہلے اور اس کے بعد دیگر مذاہب میں تھا۔ 
یہودی مذہب میں عورتیں میراث سے یکسر محروم تصور کی جاتی ہیں، خواہ وہ ماں کی صورت میں ہوں یا بہن کی صورت میں یا بیٹی کی صورت میں یا اس کے علاوہ صورت میں، البتہ مرنے والا اپنے پیچھے کسی مرد کو نہ چھوڑے اور صرف عورتیں ہی ہوں تب انہیں مستحق قرار دیا جاتا ہے۔ مثلا بیٹی اس وقت وارث ہوگی جبکہ بیٹا نہ ہو، اگر بیٹا ہے تو بیٹی کو کچھ نہیں ملے گا۔ ان کی مذہبی کتاب میں صراحت ہیکہ جو کوئی مرد وفات پائے اور اسے کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی ملکیت بیٹی کی طرف منتقل کی جائے گی۔ (سفر العدد ، اصحاح ، 11-1:27) البتہ بیوی کسی حال میں بھی شوہر سے میراث نہیں پائے گی۔ رومیوں کے نزدیک عورتیں مرد کے برابر ترکہ میں حصہ دار ہوتی ہیں، خواہ وہ کسی بھی درجہ میں ہوں البتہ بیوی کو شوہر کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا، یعنی ان کے نزدیک زوجیت وراثت کے اسباب میں سے نہیں ہے، اور یہ اس وجہ سے کہ کسی کی میراث دوسرے خاندان کی طرف منتقل نہ ہو، کیونکہ ان کے نزدیک میراث کے استحقاق کی بنیاد اس پر ہے کہ مال ودولت اور پورا سرمایہ مرنے والے کی فیملی اور اس کے خاندان ہی میں باقی رہے، مختلف خاندانوں میںتقسیم ومنشتر نہ ہو، مثال کے طور پر اگر کوئی عورت مرتی ہے تو اس کا وہ ترکہ جو اسے باپ سے ملا تھا، وہ اس کے بھائیوں میں تقسیم کیا جائے گا، اور خود اس عورت کے لڑکے لڑکیاں اس میںسے کچھ نہیں پائیںگے، مرنے والا اگر اپنے پیچھے لڑکے اور لڑکیاں (عورت ومرد) چھوڑتا ہے تو دونوں کو برابر حصہ ملے گا۔ 
طورانیوں ، کلدانیوں ، سریانیوں، فینقیوں ، اشوریوں، یونانیوں، اس طرح کے دیگر مذاہب وسماج میں بڑے لڑکے کو والد کا درجہ حاصل ہوتا تھا، اور اگر بڑا لڑکا موجود نہ ہو تو ان میں جو زیادہ فہم وفطین اور عمر دراز ہو وہ وارث ہوتا تھا، اس کے بعد دیگر بھائیوںکا پھر چچائوں کا درجہ ہوتا تھا، اسی طرح ان کے نزدیک درجہ بندی تھی، اور اس میں اتنی توسیع تھی کہ سسرالی خاندانوں اور پورے قبیلے تک کو میراث میں درجہ بدرجہ حصہ دار سمجھا جاتا تھا، مگر عورتیں اور نا بالغ بچے میراث سے محروم ہی رہتے تھے۔قدیم مصریوں کے نزدیک میراث کا نظام قرابت ورشتہ داری پر قائم تھا، اور مرنے والے ہر رشتہ دار کو اس کے ترکہ میں حصہ دیا جاتا تھا۔ مثلا ماں، باپ ، بیٹا، بیٹی ، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، بڑے چھوٹے اور مرد وزن میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی تھی۔ 
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک میراث کا کوئی مستقل نظام یا سسٹم نہیں تھا، بلکہ وہ مشرقی اقوام  کے طریقہ پر ترکہ کی تقسیم کرنے کی کوشش کرتے تھے، ان کے نزدیک میراث کا حق دار صرف وہی مرد ہوا کرتا تھا جو ہتھیار اٹھا سکتا اور خاندان کا دفاع کرسکتا ہو، عورتوں اور بچوں کو محروم رکھا جاتا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں میںجنگ وجدال ، لوٹ مار اور قتل وغارت گری عام تھی، اس لئے جو لڑنے کے قابل ہوتے وہی میراث پانے کے بھی اہل سمجھے جاتے تھے، ان کے نزدیک ایک سسٹم یہ بھی تھا کہ وہ زبردستی عورتوںکو بھی میراث سمجھ کر اس کے مالک بن بیٹھے تھے  ، وارث آتا اور باپ کی بیوہ پر کپڑا ڈال دیتا اور کہتا کہ میں نے اسے وراثت میں پالیا ہے، گویا وہ جس طرح باپ کی میراث میں مال پاتا تھا، اسی طرح اس کی بیوہ کو بھی پاتا تھا، اب اسے اس پر مکمل اختیار وملکیت حاصل ہوجاتی تھی، وہ چاہتا تو خود اس سے شادی کرکے ماں کو مہر کے بغیر بیوی بنا لیتا، یا جس سے چاہتا اس سے شادی کردیتا ، اورمہر خود رکھ لیتا، یا اس پر پابندی عاید کردیتا ، نہ خود شادی کرتا اور نہ کسی سے کرنے کی اجازت دیتا، عورتوں پر روا رکھے جارہے ان مظالم وبربریت کا اسلام نے خاتمہ کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھوِ، انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیںدے رکھا ہے، ان میںسے کچھ لے لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں انکے ساتھ اچھے طریقہ سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کردے ۔ (النساء:19)
البتہ عرب بھی مصریوں اور رومیوں کی طرح بعض صورتوں میں عورتوں کو نہ صرف وارثت میں حصہ دار بناتے تھے بلکہ مرد کے برابر انہیں حصہ دیتے تھے۔
اسلام سے پہلے عورتوں کی یہی حالت تھی ، انہیں اسی طرح کے ظلم وستم کا سامنا تھا، ان بگڑے ہوئے نظام اور سڑے گلے قوانین کی وجہ سے عورتوں کو سماج میںکوئی مقام حاصل نہیں تھا، غلامی کے طوق وسلاسل ان کی گردن پر پڑے تھے، وہ نہ اشیاء کی مالک ہوسکتی تھیں، نہ وراثت پاسکتی تھیں، بلکہ اموال کی طرح وہ خود دوسروں کی میراث بن جاتی تھیں، اس ظلم وناانصافی  اور جبرا کرہاًکے اندھیرے میں اسلام کا شمع روشن ہوا اور اس نے عدل وانصاف کے ذریعہ عورتوں کو ان کا حق دیا اور یہ طے کردیا کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں، جنہیں نہ پامال کیا جاسکتا، اور نہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے، اسی طرح ان پر کچھ ذمہ داریاں اور حقوق بھی ہیں، جسے نظر انداز نہیں کرسکتی ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں میراث کی تقسیم کا نظام کسی انسان نے نہیں بلکہ خود خالق کائنات نے بنایا ہے، اس لئے ہمیں غور کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظام میں بڑی باریکی انصاف اور حد درجہ توازن ہے، جس کی حکمت وگہرائی تک رسائی حاصل کرنا کسی انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
تمہارے باپ ہوں، یا تمہارے بیٹے ، تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہیں یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں، بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔ (النساء: 11)
اسلام نے میراث کی تقسیم میں حاجت وضرورت کو مد نظر رکھا ہے، جسے حاجت زیادہ تھی، اسے زیادہ حصہ دیا اور جسے حاجت کم تھی، اسے کم حصہ دیا، اسی لئے لڑکوں کو زیادہ اور ماں باپ کو کم دیا ہے کیونکہ لڑکے اور آنے والی نسل کو ابھی آگے کی زندگی کے مراحل طے کرناہے جبکہ والدین زندگی گذار کر اب رخت سفر باندھنے والے ہیں، اسی لئے چند صورتوں میں عورتوں کے مقابلہ پر مردوں کو دگنا دیا گیا ہے، کیونکہ لڑکا کل کسی کا شوہر بنے گا، جس کے مہر کی ادائیگی بھی اس پر واجب ہوگی، اور بیوی کے اخراجات کی ذمہ داری بھی اس پر عائد ہوگی ، پھر بچے ہوںگے جس کے اخراجات اسی کو برداشت کرنے ہوںگے، دوسری طرف اس کی جو بہن ہے وہ کل کسی کی بیوی بنے گی جسے مہر بھی ملے گا اور اس کی تمام تر ضروریات واخراجات کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہوگی، اس پر کوئی مالی بوجھ آئندہ پڑنے والا نہیں ہے۔
اسلام نے وراثت کو مال کے اندر محدودرکھا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی اور چیز کے اندر وراثت جاری نہیں ہوتی، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، اسی طرح اسلام نے زوجیت کے رابطے اور تعلق کی بھی قدر کی اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور زوجین کے درمیان زندگی میں جو الفت ومحبت اور شفقت ورحمت کا معاملہ ہوتا ہے، اسے بھی وراثت کا سبب قرار دیا ہے، سابق کے بعض سسٹموں کی طرح اسے نظر انداز کرنا پسند نہیںکیا ہے۔ 
اسلام نے قرابت ورشتہ داری کو بھی وراثت کا سبب قرار دیا ہے، روم،ویونان کے قوانین کی طرح اسے نظر انداز نہیں کیا ہے، اسلام نے واضح کیا ہے کہ خاندان کے افراد کے ساتھ اس کے گہرے روابط ہیں اور اس کا تقاضہ ہے کہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے کہ انسان کو خاندان کے افراد سے بل ملتا اور زندگی میں ان کے ساتھ انس ومحبت کے ساتھ مل جل کر زندگی گذارنے کی حاجت ہوتی ہے، اسی لئے خاندان کا ہر فرد دوسرے کی مدد کرنے ‘ان کی خدمت کرنے اور داد ودہش کا معاملہ کرنے پر سعادت وخوشی محسوس کرتاہے، مگر ان قرابت داروں کے درمیان بھی تفاوت ہوتا ہے، سارے رشتہ دار یکساں نہیں ہوتے، اسی لئے اسلام نے وراثت میں اس کا بھی پورا پورا لحاظ رکھا ہے، قدیم مصری قانون میں تمام رشتہ داروں کو یکساں حیثیت حاصل تھی، اسلام نے اسے مسترد کیا، اور واضح کیا کہ مورث اور شتہ داروں کے درمیان کے تعلقات متفاوت ہوتے ہیں، کوئی یہی رشتہ دار ہوتاہے یا کوئی بعید، اس قرب وبعد کے اعتبار سے ان کے حق وراثت میں تفاوت رکھا گیا، مثلا لڑکوں کو  والدین پر فوقیت حاصل ہوگی، اور والدین کو بھائیوں پر اور اسی طرح فرانسیسی ورومی قانون کی طرح اسلام نے بھائیوں کے درمیان بھی مساوات ویکسانیت نہیں رکھا، بلکہ اس میں تین درجے رکھے ہیں ہیں، ماں زاد بھائی، باپ زاد بھائی، (علاتی واخیافی) اور سگے بھائی، ایک ہی ماں باپ سے اس میں اقوی واقرب کی رعایت کی گئی ہے۔
اولاد میںکون بڑا ہے اور کون چھوٹا ، اسے اسلام میں کوئی حیثیت حاصل نہیں ، بلکہ سارے بھائی برابر ہیں، یہودی مذہب اور بھارت کے ہندو مذہب میں لڑکا کے رہتے ہوئے لڑکی کو محجوب ومحروم قرار دیا گیا ہے ، مگر اسلام نے ان بچیوں کو محروم نہیں کیا بلکہ انہیں بھی وارث قرار دیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میںمردوں کا حصہ بھی ہے، اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ کرمریں) خوہ وہ مال کم ہو یا زیادہ اس میں حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ (النساء: 7)
اس سے ہمیںبخوبی اندازہ ہوگیا کہ اسلام نے وراثت کا جو نظام بنایا ہے وہ بہت ہی متوازن جامع اور ایسا منفرد نظام ہے جو انسانی سماج اور اس کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے، اور اس میں انسان کی حاجتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ 
اسلام کے نظام وراثت کا امتیاز ہے کہ وہ انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خالق کائنات کا بنایا ہوا نظام ہے، جس میں مکمل توازن واعتدال اور زمین حقائق کو سامنے رکھ کر حصے مقرر کئے گئے ہیں، عورتوں کو اسلام نے وارث بنایا  اور ترکہ میں اسے حصہ دار قرار دے کر یہ واضح کیا ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی نہ صرف انسان ہیں بلکہ وہ مردوں کی طرح دو پاٹوںمیں سے ایک پاٹ ہیں، وہ بھی مردوںکی طرح مال وزر کی مالک بننے اور اس میں تصرف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور اسے آباد کرنے کا انہیں مکلف بنایا ہے، اس کے اندر وہ صلاحیتیں رکھی ہیں، جس سے وہ اللہ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچا سکیں اور ان پر ڈالی گئی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں، یہ خلافت وذمہ داریاں انسان کو ملی ہیں، اور انسان صرف مرد کا نام نہیں بلکہ اس میں مرد وزن دونون شامل ہیں، فطری طور پر ہر انسان مال سے محبت کرتا اور اس کا مالک بننے کی خواہش رکھتا ہے، اس میں مرد وعورت کی تفریق نہیں ، یہ ہر دو صنف کی فطرت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یقیناانسان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے۔ اور یقینا وہ خود بھی اس پر گواہ ہے ، یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے۔ (العادیات:6-8)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
اور تم میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو۔ اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو۔ (الفجر: 19-20)
مال وزر کا مالک بننے میں مردوں کی طرح عورتوں کو حق دے کر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ مردوں کی طرح وہ بھی نیک کاموں میں خرچ کرکے حصہ لے سکتی اور اللہ کی رضا وخوشنودی اس راہ سے بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ 
دیگر مذاہب کی طرح ترکہ میں صرف مردوںکو حصہ دار یا وارث بنانے اور عورتوںکو محروم کرنے کی صورت میں مردوں کے اندر عظمت وبڑائی اور عورتوں پر برتری کا احساس اور انانیت وتسلط کا جذبہ ہوسکتا تھا جس سے وہ عورتوں پر ظلم وناانصافی کرسکتے، ان کے حقوق کو پامال کرسکتے انہیں حقوق سے محروم کرسکتے، اور اپنی خواہشات کا تختہ مشق انہیں بنا سکتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وارث بنایا اور ترکہ میں انہیں بھی حصہ دار بنایا تاکہ مردوں میں احساس برتری کا جذبہ کبھی انگڑائی نہ لے۔
مردوں کے ساتھ عورتوں کو وارث بنا کر اللہ تعالیٰ نے دولت وثروت کو ایک جگہ مرکوز ہونے سے روکا اور چاہا ہے کہ یہ مال مرنے والے کی اولاد وذریت میں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور وہ سے سب اس سے مستفید ہوں، یہ متروکہ مال ایک دو یا چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہے۔
عورتوں کو ترکہ میں حصہ دار قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے خاندانی تعاون وتکافل کو بھی فروغ دینا چاہا ہے تاکہ مرد ہو یا عورت کوئی محرومی وبے بسی کا شکار نہ بنے۔ 
عورتوں کا میراث میںجو حق وحصہ ہے وہ ان کی حالتوں کے اعتبار سے مختلف ہے، عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ میراث میں مردوںکا حصہ عورتوں کے مقابلہ پر دگناہے، اور عورتوں کا مرد کے مقابلہ پر آدھا،جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ بہت سی صورتوں میں عورتوںکو مردوںکے برابر ملتا ہے اور بہت سی صورتوںمیںعورتوں کو مردوں سے زیادہ ملتا ہے، بہت سی صورتوںمیں عورتوں کو تو حصہ ملتا ہے مگر مردوںکو نہیں ملتا، صرف چار صوتیں ایسی ہیں جن میں مردوںکو دگنا اور عورتوں کو مردوں کے مقابلہ پر نصف ملتا ہے۔ 
مثال کے طور پر مورث اگر اپنے پیچھے والدین کو اور ایک لڑکا یا دو یا اس سے زیادہ لڑکی کو چھوڑتا ہے تو والدین میں سے ہر ایک کو سدس ملتا ہے، یہاں ماں اور باپ کا حصہ برابر ہے۔
اخیافی بھائیوں اور بہنوں کو انفرادی صورت میں برابر ، سدس اور تعدد کی صورتوں میںثلث ملتا ہے۔ اگر کوئی وفات پاتی ہے اور اپنے پیچھے شوہر ، ماں، اخیافی بھائی، اور سگا بھائی چھوڑتی ہے تو شوہر کو نصف ملتا، ماںکو سدس ملتا، اخیافی بھائیوں اور سگے بھائیوں کو ثلت ملتا ہے، اس ثلت کو وہ آپس میں برابر تقسیم کرنے کے پابند ہوں۔ 
غرض بہت سی صورتیں ہیں جن میں عورتوں کو مردوں کے برابر حصہ ملتا ہے اور بہت سی صورتوں میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ ملتا ہے، جیسے کوئی عورت اپنے پیچھے شوہر کو ، ماں باپ کو، اور دو بچی کو چھوڑتی ہے اور تو دو ثلث تو دونوں بچیوں کو مل جائے گا اگر دو بچیوں کی جگہ دو بچے اگر ہوتے تو انہیں ان سے زیادہ مل جاتا۔
بعض صورتوں میں عورتوں کو تو وراثت میں حصہ ملتا ہے مگر مردوںکو نہیں ، مثال کے طور پر کوئی عورت وفات پاتی ہے اور اپنے پیچھے شوہر کو ماں کو باپ کو، بیٹی کو اور پوتی کو چوتھا، تو ایک قول کے مطابق پوتی کو فرضیت کے طور پر حصہ ملے گا اور یہی پوتی پوتا ہو تو اسے کچھ نہیںملے گا، اس طرح بعض حالتوں میں نانی کو تو ملتا ہے نانا کو نہیں ملتا۔ 
بہر حال تیس صورتوں میں سے صرف چار صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کم یعنی آدھا سب باقی 26 صورتوں میں یا تو مردوںکے برابر ہے یا مردوںسے زیادہ ہے یا عورتوں کے لئے حصہ ہے ،مردوں کے لئے نہیں ہے۔ 
اس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ وارثت کی تقسیم کا عمل اسلام کی نگاہ میں محض قانون وضابطہ نہیں بلکہ خاندان کے مالیاتی سسٹم کا ایک اہم ستون ہے، اور مال کے مالک کے مرنے کے بعد وہ اسے قریب وبعید کو ملحوظ رکھتے ہوئے تقسیم کرتا اور یہ نہیں دیکھتا ہے کہ وارث چھوٹا ہے یا بڑا۔ 
آج ہمیں ایک عجیب وغریب صورتحال کا سامنا ہے۔ مسلمان بہت سے علاقہ میں اپنی بہنوںکو یا خواتین کو حصہ نہیں دیتے اور نہ ہی بہنیں یہ سمجھتی ہیں کہ میکے سے ہمیں ماں باپ کے مال ودولت اور زمین وجائیداد میں حصہ ملے گا۔ درحقیقت یہ تصور ہندوئوں کا ہے جو عورتوں کو یہ کہہ کر میراث سے محروم کردیتے ہیں کہ انہیں شادی کے وقت ہی دے کر رخصت کردیا ہے۔ مگر اللہ نے عورتوں کا حق رکھا ہے ، ہمیں انہیں ان کا حق پورا پورا ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ ورنہ یہ ہماری آخرت کی بربادی کا سبب تو بنے گا ہی ہماری دنیا بھی برباد ہوگی، اور خیر وبرکت کو لے اڑے گی، ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ہمارے دین ومذہب نے ہمیں ایسا نظام وراثت عطا کیا ہے جس میں ہر رشتہ دار کی فرق مراتب کے ساتھ رعایت کی گئی ،اورعورتوں کو ہر سطح پر عزت ورفعت سے سرفراز کیا ہے اور یہی ہمارے دین کا امتیاز ہے۔ 
ای میل۔[email protected]
فون نمبر۔0091-9393128156