ندیم احمدخان
منشیات کا استعمال کشمیر کو درپیش چیلنجز میں سے ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کے سدباب کیلئے ہمہ جہت کاوشوں کی ضرورت ہے۔ منشیات کی عادت نہ صرف عادی افراد کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے معاشرے کا تانا بانا بھی بکھر جاتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد کے دماغ، جسم اور روح پر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ منشیات کی عادت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ منشیات کی وبا نے جس طرح نئی نسل کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں۔ کشمیر کے طول وعرض میں اس وبا نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ گھر وں کے گھرتباہ و برباد ہو رہے ہیں، اُن گھروں میں جن کے سربراہ منشیات کے عادی ہیں ،میںفاقوں کی نوبت آگئی ہےاور بچے برباد ہو رہے ہیں۔ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ پڑھ لکھ کرباروز گار اور معاشرے کا اچھا شہری بن جائے، مگر یہاں تواس کے برعکس ہو رہا ہے۔ کالجوں اور بڑی درسگاہوں میں منشیات کی فروخت بھی جاری ہے۔
آج مختلف چوراہوں پر نشے میں مبتلا افراد فٹ پاتھوں پر نظر آتے ہیں۔جو ہمارے اپنے معاشرے کا حصہ ہیں، آہستہ آہستہ نشے کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں۔ ان کو نشے کی لت کیوں لگی یہ الگ کہانی ہے۔ ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہم ان کے لئے کیا کریں،اُن کی دلجوئی کس طرح کریں اور ان کو ایسے ہسپتالوں میں داخل کروائیں جہاں وہ منشیات کو چھوڑ کر تندرست ہو کر پھر سےاپنے معاشرے کے لئے مفید شہری بن سکیں۔ اسلام نے ہر قسم کے نشہ کی ممانعت کی ہے۔ وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ دار اس کی وجہ سے فقیر ہو گئے ہیں۔ظاہر ہے کہ جو نشہ لوگ میں مبتلا رہتے ہیں ،وہ مختلف بیماریوں کے باعث ساری زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر گزار نے پر مجبور ہو جاتے ہیںاور پھر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں۔ کشمیر میں ایسے واقعات بھی ہوچکے ہیں جن میں نشئی افراد نشہ کے لیے خرچہ نہ ملنے پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ نشئی افراد اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز اور غیر قانونی کام کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔وہ تو محلہ کے باہر کھڑی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں کے شیشے یا پھر ویل کپ، چھوٹے بڑے سپےئر پارٹس، گلیوں کے گٹروں کے ڈھکن اور سرکاری ٹیوپ لائٹس تک بھی چوری کر لیتے ہیں۔ منشیات میں حشیش، ہیروئن، بھنگ ٹرینکولائزر، کوکین اور اوپیم وغیرہ عام ہیں۔جو کہ مہنگے داموں پر دستیاب ہوتی ہیں۔منشیات کی عادت کے سادہ سے اثرات میں جسمانی خارش اور قبل ازوقت موت بھی ہو سکتی ہے، دوسری طرف مضر اثرات سے متاثرہ فرد کو زندہ رہنے کے لئے منشیات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ نشے کی عادت ایک سنگین مسئلہ ہے، حتیٰ کہ اگر عادی فرد نشہ آور ادویات بھی استعمال کر رہا ہو پھر بھی مضر اثرات انتہائی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال فیشن بن گیا ہے۔ تمباکو، چرس، شیشہ، افیون کے ساتھ’’ آئس‘‘ پینے کا رجحان نہ صرف لڑکوںمیں بلکہ لڑکیوں میں بھی بڑھتا چلاجا رہا ہے۔ وہ ان کے نقصانات سے بے خبر بطورِ فیشن اور خود کو تسکین دینےکے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ عموماً نوجوان اپنے دوستوں یا ملنے جلنے والوں کی ترغیب پر نشہ شروع کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ نیا کر رہے ہیں،اُن میں یہ شعور نہیں ہوتا کہ ان کا یہ قدم اُنہیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ امیر سوسائٹی کے نوجوان آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات کا استعمال کر رہے ہیں، جبکہ مڈل کلاس کے نوجوان فارماسیوٹیکل ڈرگز، چرس، پان، گٹکا، نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ نشے کا عادی شخص درد ناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے۔ ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے کی لعنت کو نہ صرف اپنا رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لئے بھی اذیت اور ذلت و رُسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔
حال ہی میں ایک خبر سننے کو ملی کہ جنوبی کشمیر کے ایک شادی شدہ جوڑے نے منشیات پر تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ اس شخص نے میڈیا کو بتایا کہ ’’ میری بیوی نے مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ یہ صرف ٹیبلٹ ہیں جو میں ڈپریشن کے لیے لیتا ہوں۔‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی نے بھی یہی منشیات لینا شروع کر دی اور جلد ہی وہ دونوں نشے کے عادی ہو گئے، اور پیسے حاصل کرنے اور مزید منشیات خریدنے کے لئے اپنی ہر چیز فروخت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے زیورات، اپنی زمین، اور دیگر سامان سمیت اپنی جائیداد بیچنا شروع کر دی، جس کی قیمت مجموعی طور پر ایک کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ مدد کے لئے نشے کے علاج کی سہولت (اے ٹی ایف) کا دورہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ دونوں نے اپنی لت پر قابو پانے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں ابتدائی شکوک و شبہات کا اظہار کیا، لیکن مضبوط ارادے، مناسب رہنمائی، مشاورت اور اے ٹی ایف میں علاج کے ساتھ ، انہوں نے کامیابی سے صحت یاب ہونا شروع کر دیا ہے۔
لوگوں کو اس حوالے سے درست انداز میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیماری کی صورت میں بھی وہ ضرورت سے زیادہ استعمال سے بچیں اور طبی پیچیدگیوں کا شکار نہ ہوں۔ نشے کی عادت کے مضر اثرات کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے، اس لئے متاثرہ فرد کو جتنا جلد ہو سکے طبی امداد دی جانی چاہئے۔ اس حوالے سے کافی تحقیق ہو چکی ہے کہ منشیات کی عادت کس طرح افراد اور معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جو شخص منشیات استعمال کر رہا ہو، اس کی طبیعت میں کچھ خاص تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور اقدام کر رہے ہیں لیکن نشے کی وبا بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ نشے کے خلاف آگاہی کے لئے مختلف این جی اوز بھی اقدام کرتی رہتی ہیں تاکہ عوام کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جا سکے اور میڈیا کو بھی چاہئے کہ وہ نشے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پروگرام کرے تاکہ معاشرہ صحت مند ہو ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر سختی سے عمل کیا جائے اور کم عمر بچوں کو سگریٹ فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی سخت اقدام کیا جائے کیونکہ سگریٹ نوشی کے بعد وہ آہستہ آہستہ دیگر نشے کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آج بڑے بڑے قبرستانوں میں دیکھ لیں یا سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر نشے کے عادی دنیا سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پھر ایک اچھے شہری بن سکیں۔ جب تک زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران منشیات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ کردار ادا نہیں کریں گے، اس وقت تک اس سنگین صورت حال پر قابو پانا مشکل ہے۔ حکومت، والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت اور نگرانی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور انہیں منشیات کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ اگر نوجوان نسل کو اس لت سے نجات نہ دلائی گئی تو پھر انہیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ بچوں کا کردار اور ان کا مستقبل ان اداروں اور اساتذہ کے پاس امانت ہوتا ہے، وہ اس کی مکمل پاسبانی کا اہتمام کریں اور کوئی ایسا چور دروازہ کھلانہ رہنے دیں، جہاں سے کسی کے بچے یا بچی کو نشے کی لت پڑ سکے۔ نوجوان جو ہماری قوم کا مستقبل ہیں اگر یہ ہی تندرست اور صحت مند نہیں ہوں گے تو ہمارا مستقبل کیسا ہو گا؟
[email protected]