جبل ِنور سے رخصت ہو کرہماری گاڑی کا رُخ اب تاریخ ا سلامی کے ایک اور سنگ ِ میل غار ثور کی جانب تھا۔ غار ِثور ہجرتِ مدینہ کے تعلق سے تاریخی یادگار ہے ۔ ہمارے ملتانی گائیڈ نے ہجرت کی روشنی میں اس غار کی اہمیت بیان کر نا شروع کیا ۔ چلتی گاڑی میں جبل نور اور حرا کی جلوتیں ہمیںکبھی قریب سے کبھی دور سے اپنے تعاقب میں دکھائی دے رہی تھیںگویایہ دونوں بھی ہمارے ساتھ محو سفر تھے۔چند ہی ثانیوں میں غار ثور ہماری آنکھوں کی تراوت بننے والی تھی ۔ شوق کا پنچھی حسب ِ عادت گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ اس ادھیڑ بُن میں ا پنے فکر وتجسس کے چراغ جلا رہا تھا کہ آخر اس میں اللہ کی کیا مشیت ہے کہ ایک پتھریلی کوٹھری ۔۔۔ غارِ حرا۔۔۔ کونزول گاہ ِ وحی بنی اور خالق ِکائنات نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ابدی ( کلام اللہ ) سونپ دیا جس کی تبلیغ وتنفیذ میں تیراں برس تک آپ ؐمکہ کے سنگلاخ زمین میں تن من دھن سے سرگرم عمل رہے ۔ قرآن پیش کر تے ہوئے آپ ؐپر بیک وقت تائید و حمایت کے پھول بر ستے رہے اور مخاصمت ومخالفت کی سنگ باریاں بھی ہوتی رہیں ۔ گردش ِزمانہ کایہ چکر کاٹ کرایک کمین گاہ۔۔۔غارِ ثور۔۔۔ کو اللہ نے آپ ؐ کی حفاظت کا بیڑااُٹھایا ۔ ایک غار میں ہدایت ِقرآن کا نزول ،دوسرے غار میں حفاظت کا سا مان۔ شوق کا پنچھی ہدایت وحفاظت کے انہی دو تاریخی ابواب کی ورق گردانی میں محو ہوا۔
قرآن کریم میں غارِ ثور میں آپ ؐکی روپوشی کا اشارتاًذکر ہے۔ اللہ مسلم اُمہ کو متنبہ کر کے فرماتا ہے: تم (حق کے بولا بالا کے لئے )نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اورگروہ کواٹھائے گا اور تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے ، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اگرتم لوگ پیغمبر ؐ کی مدد نہ کروگے تو یاد رکھو اللہ ان کی اس وقت میں مدد کر چکا ہے جب کا فروں نے ان کو اس حال میں جلاوطن کیا تھا کہ جب وہ دو شخصوں میں کا دوسرا تھے۔ جس وقت یہ دونوں ( مراد محمدالرسول اللہ ؐ اور صدیق اکبر حضرت ابوبکر صدیق ؓ) غار ( ثور ) میںتھے ،اس وقت یہ پیغمبر ؐ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ کچھ غم نہ کر بالیقین اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ؐ پر سکون ِ قلب نازل فرمایا اور اپنے پیغمبر ؐ کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے۔ ( سورہ توبہ۔۴۰)
اس آیت کے مطالب ومفاہیم کی پرتیں کھولئے تو باور ہوگا کہ غارِ ثور تاریخ اسلام میںایک معرکتہ الآراء واقعے کا چشم دید گواہ ہی نہیں بلکہ رسول اللہؐ کے واسطے غیبی مدد واعانت کا ایک تاریخ ساز معجزہ بھی ہے ۔ اس آیت میں اللہ واشگاف کرتاہے کہ اے دنیا کے انسانو! میرے کام کی انجام دہی، میری مشیت کی تکمیل ، میری مرضی کانفاذ تمہاری نا سے رُکتا ہے نہ تمہاری ہاں سے چلتا ہے ، یہ تمہاری تائیدسے مشروط ہے نہ تمہاری نافرمانی سے اس پر کوئی اثر پڑنے والا ہے ۔میں اپنا کارخانہ ٔ قدرت چلانے کے لئے ایسے ایسے سامان کرتاہوں کہ دیکھ کر تم کو اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی پر ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ آئے گا ۔ غارِ ثور اسی آنکھوں حقیقت کا شاہد عادل ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تبلیغ واشاعت میں کیا کیا محنتیں کررہے ہیں ، کون کون سے ستم اٹھا رہےہیں، شوق کا پنچھی قبل از ہجرت مکی زندگی کی یہی جھلکیاں دیکھ رہاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسلام کے بے تکان سفر میں دن رات ایک کر رہے ہیں ۔ آپ ؐ تیراں سال سے جہد مسلسل کے ساتھ مکہ کی سنگلاخ زمین کو اسلام کے آب ِحیات سے سیراب کر کے اسے توحید و نیک عملی کی لہلہاتی کھیتی میں بدلنے کا فقیدا لمثال عزم بالجزم رکھتے ہیں ، آپ ؐ دن کا چین رات کا آرام کھو چکے ہیں ، کوئی پل کوئی لمحہ تبلیغ ِحق کی راہ میں صرف کئے نہیں گزرتا، ایک جانب اللہ سے مسلسل لولگائے ہوئے ہیں ،دوسری جانب اصلاح احوال اور انسانیت کا دفاع کر نے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں ۔ آپ ؐ کار ِنبوت کے لئے اہل مکہ سے کوئی معاوضہ چاہتے ہیںنہ کوئی شاباشی ، صلے کی تمنا ہے نہ ستائش کی آرزو ، بے لوث انداز میں ہر شخص کو صرف قرآن کے سایہ دار پناہوں میں کھینچ لانے کے لئے بے تاب وبے قرار ہیں ۔ محض فی سبیل اللہ کفار ومشرکین کو دہکتے جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے اُنہیں کمر سے پکڑتے جارہے ہیں ، کسی لومۃلائم اور بغض وعناد کی آندھیوں کی پرواہ کئے بغیر کل جہاں کوگوشہ ٔ عافیت میں لانے کے لئے اپنی تمام تر مخلصانہ کا وشیں بروئے کار لا رہے ہیں۔اِدھر خلوص و استقامت ، صبروقرار ،ایثار و قربانی ، انسان دوستی اور خدا خوفی کا یہ نبوی مزاج ہے، اُدھرمکہ کے گرانڈیل کفار آپ ؐ کے پیغام کو رد کر رہے ہیں ، بڑی بے دردی کے ساتھ آپ ؐ کو تکلیفیں ایذائیں دے رہے ہیں ، آپ ؐ کے جانثار پیرو کاروں کا قافیہ ٔ حیات تنگ کر رہے ہیں ، ان کو بہ جبر شرک وبت پرستی کی طرف پھیرنے کے لئے خوف ودہشت کے اوچھے ہتھکنڈے آزماتے جارہے ہیں ، مسلمان سماجی مقاطعہ، شعب ابی طالب کے سہ سالہ ترکِ موالات ، ہجرتِ حبشہ اور دیگر کڑی آزمائشوں کی بھٹی میں تپ تپ کر مس ِخام سے کندن بنتے جارہے ہیں ۔ کوتاہ نگاہ اورنا معقول کفار اپنی تمام زور زبردستیوں، دست دارزیوں اور یلغاروں کے باوجود شکست کھارہےہیں ۔
اللہ اسلام کی تائید و حمایت میں ایک نیا باب کھول رہاہے، اب دین کی گونج کہیں سست رفتاری سے کہیں برق رفتاری سے مکہ کے ریگزاروںا و ر سنگلاخوں سے باہر دیگر بستیوں سمیت مدینہ کی گلیوں میںسنی جارہی ہے ۔ بیرونِ مکہ بعض بااثر اور ایثار پیشہ مسلمان مکی مسلم اقلیت کی تکالیف کا ازالہ کر نے کے لئے دعوت دے رہے ہیں ہمارے یہاں آیئے ہم دیدہ و دل فرش ِ راہ کریں گے۔ قبیلۂ دوس کے رئیس طفیلؓ بن عمرو اپنے قلعہ کی پیش کش کر تا ہے کہ آپ ؐ یہاں تشریف فرما ہوجائیں، آپ ؐ تجویز کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے مگر ان کے تئیں اظہار ِ تشکر کر تے ہیں ۔ بنی ہمدان کا ایک مسلمان بھی اسی نوع کی پیش کش کرتاہے مگر اپنے قبیلہ کو اطلاع دینے یا انہیں اعتماد میں لینے کے وعدے سے جاتا ہے اور اُن کے واپس پلٹنے سے قبل ہی بار گاہ ِ الہٰیہ سے ہجرت کے لئے قرعۂ فال مدینہ (یثرب)کے حق میں نکلتاہے۔مدینہ میں یہودی اقلیت کے علاوہ اوس وحزرج کے دو متحارب قبائل بود وباش رکھتے ہیں، اللہ ان دو حریف قبائل کودھڑا دھڑ اسلام گلے لگانے کی توفیق دیتا ہے ۔ یوں مکہ میں اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے اسلام کو تیراں سال بعد مدینہ میں اپنے پیر جمانے کی ایک جائے پناہ ملتی ہے۔ مدینہ بطور دار الہجرۃ منتخب ہونے سے تاریخ کی کایا پلٹ جاتی ہے، اب اسلام ایک ناقابل تسخیر مذہبی قوت ہونے کے بین بین اولین اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈال کر تہذیبی اور سیاسی قوت ہونے کا درجہ ٔ اعزاز بھی حاصل کر جاتاہے۔ مکی مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ِ حق بیان سے حکم ملتا ہے کہ اپنے عقیدے کے دفاع اور اللہ کی رضا جوئی میں اپنے وطن ِمالوف ، مال ومتاع اور رشتہ وپیوند کوتج کر دارالحرب مکہ سے دار الامان مدینہ کی جانب ہجرت کریں۔ مسلمان بغیر کسی چوں وچرا کے ایمان کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں خوشی خوشی دیتے ہیں ۔ توحید کی سرشاری نے انہیں مادی لذائذ اور دنیوی مفاد ات سے بے نیاز کیا ہواہے ، ان کا عقیدہ ہی دنیا میں ان کا سب قیمتی سرمایہ، ان کااثاث البیت، ان کی جاگیر و میراث ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پردیس میں جانا اُن کے لئے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ وہاں بھی اُن کے لئے نت نئے آلام ومصائب اور ہموم و غموم کی بارشیںہونا بعیدازامکان نہیں مگر چونکہ ان کا سر آپ ؐ کے خلق ِعظیم اور کامیاب قیادت نے اونچا کر دیا ہے، وہ سوال و جواب کئے بغیر لبیک یارسول اللہ ؐ کہتے ہیں۔توحید اُن کے قلب و ذہن میں جاگزیں ہے ،اس لئے ان کی گردن ایک اللہ کے سوا کسی درویش ، کسی سردار، کسی بادشاہ، کسی دنیوی طاقت، کسی مادی مفاد ، حتیٰ کہ طاقتور قیصر وکسریٰ تک کے سامنے ذرا بھی خم ہو نے کو تیار نہیں ، یہ کلمہ خوان سمع وطاعت ، نظم و ضبط اور اپنے ہادی ورہبر صلی ا للہ علیہ وسلم کے ابروئے چشم پر حق کی خاطر سمندر تک میں کودنے کو تیار ہیں۔ اکثر صحابہ کبار ؓ توکل علی ا للہ کر کے بے سروسامانی کی حالت میںمدینہ کی جانب ا پنا رخت ِ سفر باندھتے ہیں۔ ہجرت مدینہ سے البتہ کفاران ِ مکہ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے ہیں۔و ہ اس میں چھپا یہ خطرہ بھانپ لیتے ہیں کہ اسلام کے خلاف اُن کی جنگ میں اب مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہونے کو ہے کیونکہ مدینہ کا محل وقوع اہل مکہ کی شامی تجارت کے لئے شہ رگ جیسی ا ہمیت رکھتا ہے۔ ایک بار مسلمان مدینہ کے قضا وقدر کے مالک بنتے ہیں تو کفارانِ مکہ کے تجارتی قافلوں کی خیر نہیں ۔ اسی خدشہ کے تحت مشرکین ِ مکہ کی جانب سے مسلم مہاجرین کی حوصلہ شکنی کو مہمیز ملتی ہے ، وہ نہیں چاہتے کہ مکی مہاجرین کو مدینہ میں مجتمع ہو کر مکہ کے لئے معاشی مسائل پیدا کر نے کا بے خوف حوصلہ ملے۔ درج ذیل تین تاریخی واقعات اس حوالے سے حقائق کی مزید گرہ کشائی کرتے ہیں ۔
یہ ابو سلمہ رضی ا للہ تعالیٰ ہیں جو بیعت عقبہ کبریٰ سے ایک برس قبل ہجرت کرنے کے لئے اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے کے ہمراہ بسوئے مدینہ روانہ ہوتے ہیں۔ یکایک اُن کے سسرال والے نمودار ہوکر اُن کی زوجہ محترمہ کو یہ کہہ کر ان سے جبراً جدا کر تے ہیں آپ کیونکر ہماری نورِ نظر بیٹی کو شہر شہر گھماتے پھریں؟ ابوسلمہؓ کے گھروالے یہ منظر دیکھ کر تاؤ کھاتے ہیں اور ان جابروں سے کہتے ہیں جب تم نے ا پنی لڑکی کو واپس لیا تو ہم اپنے بچے کو اس آدمی کے ہمراہ کیوں دربد ر چھوڑدیں؟ دونوں اطراف سے معصوم بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس پر حق جتایا جاتا ہے کہ کھینچا تانی میں بچے کا کومل ہاتھ اُکھڑ اجاتاہے۔ بہر حال ابوسلمہ ؓ کے اہل خانہ بچے کو حاصل کر کے ہی رہتے ہیں ۔ یوں چشم فلک بہ نگاہ ِ حسرت دیکھتا ہے کہ ایک کنبے کے تین افراد کی تین الگ الگ راہیں ہوجاتی ہیں۔ ابو سلمہ ؓ تن تنہا ایمان کے تقاضا پورا کر تے ہوئے بوجھل دل اور اشک بار آنکھوں سے مدینہ منورہ کی راہ لیتے ہیں ۔ اُم سلمہ ؓ اپنے بچے اور شوہر نامدار سے بچھڑ کر برابر ایک سال تک ابطح جہاں اس کا کنبہ بکھرا تھا، صبح تاشام رو دھوکر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کے اہل خانہ میں سے کسی کے دل میں رحم ڈالتا ہے جو اُم سلمہؓ کے میکے والوں کو سمجھاتا بجھاتا ہے کہ اپنی لاڈلی بیٹی کو مدینہ اپنے شوہر کے پاس جانے دوتو وہ مجبوراً رضامند ہوجاتے ہیں۔ اُم سلمہ ؓ اپنا بچہ دوھیال سے جوں توں لاتی ہیں ، اسے گود میں بٹھائے اللہ بھروسے تنہا مدینہ روانہ ہوجاتی ہیں۔ اللہ اللہ !پانچ سو کلو میٹر طویل سفر طے کر نے کے اس ایمان افروز منظر پر فرشتے بھی عش عش کر تے ہوں گے۔ جب آپؓ تنعیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ اُن کی مشایعت کرکے انہیں قُباء کی آبادی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے اس مسلم بستی میں آپ کا شوہر ہے، ا س میں چلی جائیں ،ا للہ آپ کو برکت دے ۔ ان دعائیہ کلمات کے ساتھ وہ مکہ کو روانہ ہوتا ہے ۔ اُم سلمہ ؓ زندگی بھر ؑعثمان بن ابی طلحہ کے احسان، شرافت اور انسانیت کی تعریفیں کر تی رہتی ہیں ۔
حضرت صہیب رومی ؓ ہجرت مدینہ کا عزم باندھ لیتے ہیں ۔ کفار ان کے اٹل عزم وارادے سے جل بھن کر کہتے ہیں کہ جب تم ہمارے پاس آئے تو کنگال و نادار تھے، یہاں آکر مالدار ہوگئے ۔ اب اگر چاہتے ہو کہ اپنی جان اور مال دونوں کو لے کر مدینہ جاؤ مگر کم ازکم مال یہاں چھوڑ نا ہوگا ۔ جناب صہیبؓ فرماتے ہیں چشم ِماروشن دل ِماشاد ، لو میرا مال تمہیں مبارک۔ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملتی ہے تو فرماتے ہیں: صہیب ؓ نے نفع اُٹھایا ، صہیبؓ نے نفع اُٹھایا۔
فاروق عادل رضی ا للہ تعالیٰ عنہ دو اور نومسلموں عیاشؓ بن ابی ربیعہ اور ہشامؓ بن عاص بن وائل کے ساتھ ہجرت پر جاناطے کر تے ہیں۔ حضرت عمر ؓ اور عیاشؓ صبح مقررہ جگہ پر حاضر ہوتے ہیں مگر ہشامؓ کا کہیں اَتہ پتہ نہیں کیونکہ ان کو کفار قبل از روانگی ہی دھر دبوچ لیتے ہیں۔ یہ دومہاجرین قبا پہنچتے ہیں تو ابوجہل اور اس کا بھائی حارث اپنے ماں جائے بھائی عیاشؓ کے پاس آ کر اسے یہ پٹی پڑھاتے ہیں تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک تمہیں دیکھ نہ لے نہ سر میں کنگھی کر ے گی نہ دھوپ چھوڑے سایہ میں آئے گی ۔ عیاش ؓ ماں کی محبت میں یکسر پگھل جاتے ہیں۔ حضرت عمر ؓتاڑ لیتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ وہ عیاش ؓکی فہمائش کر تے ہیں خبردار!بخدا یہ دونوں تمہیں محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔ واللہ اگر ماں کو جوئیں ستائیں تو کنگھی کر لے گی، اور دھوپ کی تمازت اس کے لئے ناقابل برادشت ہوجائے تو سائے میں چلی جائے گی۔ عیاش ؓ یہ نصیحتیں ماننے انکار کر تے ہیں اور ماں کی قسم پوری کرنے کے لئے ان دو فتنہ باز بھائیوں کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوتے ہیں ۔ حضرت عمر ؓ از راہِ اخوت فرماتے ہیں :اچھا میری یہ تیز گام اونٹنی سواری کے لئے لو، یہ عمدہ بھی ہے اور سریع رفتار بھی مگراس کی پیٹھ کبھی نہ چھوڑنا، ان لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت سر زد ہو تونکل بھاگ آنا۔ عیاشؓ اسی اونٹنی پر سوار ہوتا ہے ۔ ایک خاص جگہ پہنچ کر ابوجہل اُن سے کہتا ہے: بھئی میرایہ اونٹ بڑ اسخت نکلا ، کیوں نہ تم مجھے اپنی ا ونٹنی پر پیچھے بٹھا دو۔ عیاشؓ حامی بھرلیتے ہیں اور دونوں اپنی سواریاں زمین پر بٹھا دیتے ہیں تاکہ ابوجہل عیاش ؓکے پیچھے بیٹھ جائے۔ جونہی وہ زمین پرآجاتے ہیںابوجہل اور حارث عیاش ؓ کو دبو چ لیتے ہیں اور رسی سے جکڑ کر مکہ واپس لاتے ہیں ۔ ابوجہل فخر کے ساتھ رسی بندھے عیاشؓ کی نمائش مکہ کی گلیوں میں کر کے چلّا تا جاتاہے: اے اہل ِمکہ! اپنے بے وقو فوں ( خاکم بدہن عازمین ِہجرت مسلمانوں ) کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسے ہم نے اس (نعوذباللہ )بے وقوف کے ساتھ کیا ہے ۔
……………………………
( بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، اِن شاء ا للہ)