نزع سے پہلے ۔۔۔

بیٹے ! کہاںجارہے ہو ۔والد نے بیٹے سے پوچھا
دفتراورکہاں ۔آپ روزیہی سوال کرتے ہیں۔کتنی دفعہ کہاکہ دفترجارہاہوں ۔دفترجارہاہوں ۔ہزاربار کہا کہ جب میں گھرسے نِکلوں توپیچھے سے آواز نہ دیاکریں، یہ بدشگونی ہوتی ہے ۔بنتے کام بگڑجاتے ہیں مگرآپ کوکون سمجھائے۔ آپ مانتے ہی نہیں ۔آپ توایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ کہاں جارہے ہو؟ کیوں جارہے ہو؟ کیاکام ہے ؟کب آئوگے ؟۔تنگ کردیا ہے آپ نے ۔بیٹے نے تڑاخ سے جواب دے کر باپ کا منہ توڑ دیا۔ 
پرسوں بھی آپ نے یہی کیا ۔میں سری نگر کسی کام سے جارہاتھا اورآپ نے پیچھے سے آواز دی ۔کہاں جارہے ہو؟ ۔میں نے جان بوجھ کراس کاجواب نہیں دیا کیوں کہ مجھے یقین تھاکہ ضرورکچھ انہونی ہوگی۔نجمہ نے بھی اُسی وقت کہاتھا کہ آج احتیاط کرنا اِس بُڈھے نے پھرپیچھے سے آواز دی۔پھروہی ہوا جس کامجھے ڈرتھا۔ ہمارے جہازکاٹائر رن وے پرہی پھٹ گیا ۔ہم بال بال بچ گئے ۔خُداکیلئے اب آئندہ ایسانہ کرنا۔
باپ بے چارہ دم بخودہوکر رہ گیا ۔جب ذرااپنے آپ کو سنبھالا تو بیٹے سے کہا۔بیٹے !ایسا کیوں سوچتے ہو؟باپ بیٹے کوآواز دیکرپوچھے ۔یہ کیاکسی بُری چیز کاپیشہ خیمہ ہوتاہے؟۔میں اِسی لئے کہتاہوں ۔قرآن پڑھو قرآن کی تفسیر پڑھو ۔احادیث پڑھو اوراُن پرعمل کرو۔ زندگی سنورجائے گی۔ یہ چڑچڑا پن دُورہوجائے گا ۔والدین کے ساتھ اچھے سلوک کی اہمیت کاپتہ چل جائے گا اور اپنی غلطیوں کااحساس ہوجائے گا۔ آپ میرے پاس دوگھڑی بھی نہیں بیٹھتے ہو ۔ مجھ سے کوئی بات نہیں کرتے ہو ۔میراحال نہیں پوچھتے ہو ۔ایسے میں، میں کس سے باتیں کروں ،کس کواپنادُکھڑا سُنائوں۔میں بھی تواکیلے بیٹھے بیٹھے تنگ آجاتاہوں۔یہ با ت ذہن نشین کرلوکہ حضورؐنے ماں کارُتبہ تین مرتبہ اورباپ کا رُتبہ ایک مرتبہ بیان کیاہے ۔ماں توتیری چلی گئی جس کے قدموں کے نیچے تیرے لئے جنت تھی ۔وہ آپ نے حاصل کی یانہیں ،میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔لیکن باپ، جس کوحضورؐنے جنت کادروازہ قراردیاہے،کا تونے وہ حق اداہی نہیں کیا۔اب آپ اس دروازے کو کس طرح پھلانگتے ہو ۔یہ تم تک ہے ۔ ماںباپ کے فرائض کو اہمیت دو اپنی ماں کوروزانہ فاتحہ اور تلاوتِ قرآن اوردروُوشریف پڑھ کر بھیجو۔ثواب ملے گا ۔ وہ انشاء اللہ جنت نشین ہے ۔ والدنے آرام سے سمجھایا۔
اندرکمرے سے نجمہ بول پڑی ۔ تم بھی اُسی کے پاس چلے جاتے تو ہماری خلاصی ہوجاتی۔ ہم نے کیا تنگ کیاہے ؟۔یہ تمہاراوہم ہے۔اچھی طرح کھاتے پیتے ہو اورکیاچاہیئے؟۔
بہو!کوئی بات نہیں ۔کون پہلے جاتاہے یہ تواللہ کوہی خبر ہے ۔ اتناتوطے ہے کہ ہرایک کو ایک نہ ایک دِن ضرور جانا ہے ۔ ضروری یہ ہے کہ کیالیکرجانا ہے ۔ خیر تم سے کیاگِلہ کروں ۔میرابیٹا میرے ساتھ بیٹھتا ۔بات چیت کرتا تو یہ سب دیکھ کر تُم بھی کبھی دومیٹھے بول بولتی ۔چائے یاپانی کے لئے پوچھتی ۔ جب بیٹے نے ہی لاپرواہی برتی توتم سے کیا گلا۔خیر!بہت گذرگئی تھوڑی رہ گئی۔ یہ بھی گذرجائے گی ۔ تم پربھی بڑھاپاآئے گا اس سیڑھی پر ہرایک کو چڑھنا ہے، چاہے کسی کی مرضی ہو یا نہ ہو۔ والدبولتاگیااور اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے گئے ۔ جب ذرااپنے آپ کوسنبھالا تو قدرے اطمینان سے کہا۔ سوچتاہوں اپنے دوست طفیل کے ہاں جائوں ۔وہ نوکری کوخیرباد کہہ کراب مستقل طوراپنے گھرآیاہے۔اُس نے میری پریشانی اور تم دونوں کے برتائو کی کہانی محلہ داران کی زبانی سُن لی ہے اورمجھے اپنے ساتھ رہنے کی رکھی ہے ۔ اُس کاگھرکیاپُرسکون ہے ۔کیادِل پسند ماحول ہے ۔کیااُسکے بیٹے بہویں کیاپوتے پوتیاں، دیکھ کررشک آتاہے کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ماحول ہوتا ۔ کچھ روزپہلے جب اُن کے گھر گیا توطفیل کے بڑے بیٹے نے اُس سے کہا ۔ آپ کے بال بہت لمبے ہوگئے ہیں ۔کل نائی کو اِدھر ہی بُلواتاہوں ۔ وہ آپکے بال بنائے گا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بلکہ چاچاجی کے بال بھی بنائے گا، اُنکے بال بھی لمبے ہوگئے ہیں۔ اُدھرایک بچہ سکول سے آیا۔ سبھوں کو سلام کیا۔کسی نے عربی پڑھنی شروع کی ۔ اِدھربڑی بہو نمازسے فارغ ہوئی ۔ اُدھردوسری بہو، جوکھانابنانے میں مصروف تھی، اندرآئی اورسب کوکھانے کیلئے کہا۔ پھر سبھی نے اکٹھے دسترخوان کے اِردگرد بیٹھ کرکھاناکھایا۔ یہ دیکھ کرمیری طبیعت بہت خوش ہوگئی ۔یہی اللہ اور رسول ؐ کافرمان ہے۔کاش ! ہمارابھی ایسا ماحول ہوتا۔ 
یہ سب سُن کردونوںمیاں بیوی نے یک زبان ہوکر بڑے تڑاخ سے کہاکہ جایئے نا پھراُنکے ہی گھر، دیر کس بات کی ہے۔ وہاں آپ کوسکون اورآرام ملے گا کیونکہ یہاں پرتوآپ کے ساتھ بہت ظُلم ہورہاہے ۔
یہ سُن کرباپ کھڑا ہوا اور گھر سے نکل پڑا۔جاتے جاتے بیٹے کوایک پرانی بات یاددلانی چاہی، جس کااُس نے آج تک گلہِ نہ کیاتھا۔ باپ نے کہا ۔بیٹے ! آپکوشائد یادنہ ہو ۔میں نے کافی عرصہ پہلے ایک روحانی بزرگ کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی تھی ،اتوار کا دن تھا۔ سوچاتھا کہ آپ کوچھٹی ہے ۔پھراسی طرح ہراتوارکوآپ کویاددِلاتا رہا مگرآج تک آپ نے میری تمنا پوری نہ کی ۔ اچانک میراایک واقف کار میرے پاس آیا اور بولا اگرآپ کوفلاں بزرگ کے پاس آنا ہوتو میں آپکولینے آئوں گا اورتب تک انتظارکروں گا جب تک آپ واپس نہ آجائیں۔ ہم دونوں وہاں گئے۔قریباً دوگھنٹے بعدواپس آئے ۔ اُس نے مجھے واپس یہاں چھوڑا ۔میں نے اُس کاشکریہ ادا کیا ۔میری کیامجال تھی کہ میں اسکوایک کپ چائے کیلئے پوچھتا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہاتھا کہ اندرسے بہونے آواز لگائی ۔کس لئے اس بزرگ کے پاس جاناتھا ضرورہمارے لئے کوئی جادوٹونا کرواناتھا۔ یہ سُن کر میرا سرچکرا گیا۔ سوچامیری ٹانگیں قبرمیں لٹک رہی ہیں ۔میں یہ حرکت کروں گا ؟۔
بہو کی اس بے رُخی کی داستان سن کر بیٹے سے کہا۔ بس ! اب میں ایک پل بھی یہاں نہیں رہ سکوں گا۔ بیٹھو اس گھرمیں آپ ہی سکون کے ساتھ ۔والد نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے گھر سے باہر قدم نکالااورسیدھے طفیل کے گھر کی طرف نکل گیا۔
 نہیں توکون روک رہاہے آپ کو۔ جایئے ۔ آرام سے جایئے ۔ ہماری خلاصی کریں۔ وہ بولے جارہی تھی ۔بیٹابیوی کے آگے بُت بناکھڑا رہا ۔ وہ برابراپنی خاموش زبان سے ہاں میں ہاں ملارہاتھا۔
طفیل نے اپنے دوست کودیکھ کر بڑے تپاک سے خوش آمدید کہا اورگلے مِلتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گیا۔ بھائی صاحب! یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اب ہم دونوں مزے سے زندگی کے باقی ماندہ دِن گذاریں گے۔ اہل خانہ سے سرفراز کاتعارف کراتے ہوئے طفیل نے بولاکہ میں اورسرفراز تقریباً ایک ہی وقت میں ملازم ہوئے تھے۔ میں توسیدھے ہیڈکلرک بھرتی ہوا مگرسرفرازچپراسی تعینات ہواکیونکہ وہ پڑھالکھانہیں تھا۔ میں ترقی کرتے کرتے جنرل منیجر کی کرسی تک پہنچا اوریہ ہیڈکلرک بن گیا ۔اس نے نوکری کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کی اورپرائیویٹ طور پر میٹرک بھی پاس کیا جس کی وجہ سے محکمہ نے چپراسی سے ترقی دے کر اسے کلرک پھرہیڈکلرک بنایا۔
اب سرفراز نے اپنی داستان سُنائی کہ اُس نے کس طرح اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر معمولی سی تنخواہ کے سہارے اپنے بیٹے کوپڑھایا لکھایا۔پہلے بی اے اور پھر MBA کروایا۔کسی طرح ہاتھ پیرمار مارکر اسے ملازمت دلوائی اور اُس کی شادی کی ۔مکان بنایا ۔شادی سے پہلے اُس کوگاڑی خرید کردی۔ پھرآگے جاکریہ بھی بتایاکہ کس طرح دن مہینے اور سال گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے میں ناخوشگوار تبدیلی آنا شروع ہوئی جس میں اسکی بیوی نے اس کی بڑی حوصلہ افزائی کی۔وہ میرے بیٹے سے میرالڑکا بنا اورمجھ کوناقابلِ برداشت بوجھ سمجھنے لگا۔ یہاں تک کہ حالات ایسے بنادیئے گئے کہ مجھے اپناہی گھرچھوڑناپڑا۔خیر۔۔
دوسرے دِن صبح دونوں دوست لان میں چائے پی رہے تھے کہ طفیل نے سرفرازسے کہا ۔ اب پراناقصہ بندکرو۔آئوایک نیاسفراکٹھے شروع کرتے ہیں ۔طفیل نے کہا۔ سنوسرفراز میری تجویز پرفوری عمل کرو۔ آپ فلاں وکیل، جوکہ میرااچھی طرح واقف ہے،سے ملیں ۔اُسکو بتائیں کہ یہ میری جائیداد ہے جس کومیں نے خود اپنی محنت سے اپناپیٹ کاٹ کراپناخون پسینہ بہاکر بنایا ہے ۔یہ بھی بتانا کہ میںاس تمام اثاثہ سے میری طرح کے ستائے ہوئے بوڑھے اشخاص کیلئے ایک مرکزبناناچاہتاہوں اوراُسکی دیکھ بھال کسی ایماندارشخص کے سپرد کرناچاہتاہوں ۔اُس کانام میں نے ’’سینئر سٹیزنز ویلفیئر سنٹر ‘‘سوچا ہے ۔کواپریٹیومحکمہ سے اسکی رجسٹریشن کروائیں گے ۔ عدالت سے باقاعدہ تصدیق کروائیں گے ۔اُس کاباقاعدہ منشور تیارکریں گے وغیرہ وغیرہ ۔اس میں میرے بیٹے اورکسی رشتہ دار کا کوئی دخل نہ ہوگا۔ 
طفیل نے کہاکہ ایساکرنے سے تمہارے بیٹے اوربہوکادماغ ٹھکانے آئے گااور پھرآگے جاکر آپ جیسے ستائے ہوئے لوگوں کواس سے بڑی راحت ملے گی۔ کوئی بھی بوڑھے والدین سے چھیڑچھاڑ اورنارواسلوک کی جرات نہ کرے گا۔
اس بات کی بھنک کسی طرح بیٹے کولگی ۔ وہ ہانپتا ہوا اپنی بیوی کوساتھ لے کر طفیل کے ہاں اپنے والد کومنانے آیا۔ دونوں نے یک زبان ہوکرکہاابوچلونا گھر۔غُصّہ تھوک دو۔ہم سے بڑی بھول ہوئی ہے ۔ ہم معافی مانگتے ہیں۔آگے سے ایسا بالکل نہ ہوگا ۔ہم توبہ کرتے ہیں۔ آپ کے بغیر گھرویران سالگ رہاہے ۔ 
بیٹے اوربہوکوپتہ چل گیاتھاکہ اب مکان دوکان وغیرہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ دونوں نے اب طفیل سے مداخلت کی درخواست کی مگرانہوں نے کہاکہ یہ آپ کااورآپکے والد کے درمیان کانجی معاملہ ہے مجھے اس میں دخل نہیں دیناچاہیئے کیونکہ مجھے پورے معاملہ کی بالکل خبر نہیں ہے۔ سرفرازنے اس بارے میں مجھ سے کچھ زیادہ نہیں کہا ہے۔صرف ایک بار جب میں نے پوچھاتھا توسرفراز کچھ کہنے سے پہلے ہی دھاڑیں مارمار کر رونے لگاتھا۔پھراسکی حالت دیکھ میں بھی روپڑا اور اسکوصرف اتنا کہا کہ آج کے بعداس بات کوبالکل نہیں چھیڑوں گا۔جوہوناتھا ہوگیا۔اس نے صرف یہ کہا کہ میں نے اپنی ہڈیوں اورگوشت پوست کوپگھلاکرروزفاقہ کشی کرکے اپنے بیٹے کو پڑھایالکھایا۔نوکری دلوائی۔شادی کروائی اورکارخریدکردی اورمکان بناکردیا۔ اسکے عوض اس نے مجھے کیادیا؟۔کچھ بھی نہیں۔یہ میرے مرنے کاانتظار کررہے تھے۔مجھے دس دس دن تک کھانسی رہتی ۔یہ دس روپے کی کھانسی کی دوائی تک نہ لایابلکہ ایک بار جب ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کے والدصاحب کوکھانسی ہے تواس نے کہاکہ یہ سگریٹ پیناچھوڑتے ہی نہیںکھانسی کیسے ٹھیک ہوگی۔ہزاردفعہ کہالیکن یہ مانتے ہی نہیں ۔حالانکہ میں نے کبھی سگریٹ کوہاتھ تک نہیں لگایاہے۔ پیناتودُورکی بات۔
اسی طرح ایک بار مجھے بلڈپریشرکی وجہ سے چکرآیا ۔ میں سڑک پر گرگیا۔دوکاندار نے اسکو فون کیاکہ سرفرازصاحب کوچکرآیاہے ۔اسکوآکرڈاکٹرکودکھائو ۔پتہ ہے اس نے کیاکہا ۔ اسکوپانی وانی پلائو۔ منہ پرپانی کے چھینٹے مارو ۔ٹھیک ہوجائیںگے ۔ انکوپہلے بھی ایسے چکرآئے ہیں۔یہ واقعات ایسے سینکڑوں واقعات میں سے کچھ تھے جوسرفراز نے طفیل کوسنائے تھے۔ 
سرفرازنے یہ غیرمعمولی قدم بہت مجبور ہوکر اور اپنے دِل پر بھاری پتھر رکھ کر اُٹھایاہے ۔ورنہ وہ دنیاوی اوردینی سوجھ بوجھ رکھتاہے۔اس نے یہ ضروری سمجھاکہ اپنی اولاد اور اسکی بیوی کویہ سبق سکھائے ۔
رات کاکھاناکھانے کے بعد سرفرازمعمول سے ذراجلدی ہی سونے کوچلاگیا کیونکہ ا س کواپنی طبیعت ناسازلگ رہی تھی ۔بات کرنے کوبھی دِل نہیں چاہ رہاتھا ۔باقی لوگ بھی اپنے اپنے کمروں میں سونے کوچلے گئے۔
بسترپرلیٹتے ہی سرفرازنے سوچناشروع کیا کہ میرے اس فیصلے کی عمل آوری کے بعداب یہ کہاں رہیں گے ۔گاڑی کے بغیرکس طرح باہرنکلیں گے ۔کیسے دفترجائیں گے ۔اُن کوتو بڑی بے عزتی اورکھجالت کا سامنا ہوگا۔یہ سوچتے سوچتے سرفراز نے اورزیادہ کمزوری محسوس کی ۔چھاتی میں درد اورگھُٹن محسوس ہونے لگی ۔گھبراہٹ بڑھنے لگی ۔ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں نمودارہونے لگیں ۔اسکی سانس تیزہونے لگی ۔اس نے طفیل کوآواز دی اورکہا کہ کھڑکیاں اوردروازے کھول دو۔مجھے سانس لینے میں دِقت ہورہی ہے۔میرادم گھٹ رہاہے ۔بھائی میرے !لگتاہے میراآخری وقت قریب آگیاہے ۔
گھبرائونہیں ۔میں آپ کوہسپتال لے جائوں گا ۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔آپ اللہ پر بھروسہ رکھو۔طفیل نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نہیں طفیل ۔مجھے کہیں نہیں لے جائو۔جوہونا ہے یہاں ہی ہونے دو۔آپ وہ کاغذات لائو جومیں نے وکیل سے تیارکروائے تھے اوربیٹے اوربہوکو بلاکراُن کوپڑھ کرسنائو ۔دونوں طفیل کافون سُن کر دوڑتے ہوئے سرفرازکے کمرے میں آئے ۔طفیل نے سرفرازکی لکھی ہوئی وصیت اُن کوسُنائی ۔اس کے بعدسرفرازنے طفیل سے کہا کہ
 اب ان کاغذات کوپھاڑدو ۔یہ کہتے کہتے گھبراہٹ اوربڑھ گئی ۔سانس اورتیزہوگئی ۔پسینے چھوٹنے لگے ۔
میں بچنے والانہیں ہوں ۔تیرامیرااتناہی ساتھ لکھاتھا ۔طفیل کوخُداحافظ کہتے ہوئے کلمہ ٔ شہادت پڑھااور اُس کے ساتھ ہی سرفرازکی روح قفصِ عنصری سے پروازکرگئی۔اِناللّہِ واِناّالہِ راجعو ُن۔
 
رابطہ؛8825051001