ندیم احمد میر
حضرت محمدؐ دنیائے انسانیت کے آخری عالمی اور دائمی نبی ہیں۔آپ کی مخاطب پوری دنیا اور تمام اہلِ مذاہب ہیں۔آپ کا پیغام آفاقی ہے اور آپ پوری دنیا کو ایمان و اخلاق کی روشنی فراہم کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیارے کلام میں’’سراجا منیرا‘‘ کے پُر کشش لقب سے نوازا ہے۔ان کی زندگی میں ایسی کشش اور جاذبیت ہے کہ مسلمان تو کیا غیروں کو بھی اس کا لوہا منوانا پڑا۔جس شخص کی تعريفيں خود اللہ رب العٰلمین کرے ،اُن کی زندگی کی پھر تصويريں کھینچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ایک شخصیت کی سب سے زیادہ پہچان اللہ رب العٰلمین ہی کو ہوتی ہے۔دنیا میں واحد ایک ذات ہے جو محمد عربیؐ کی شخصیت سے پوری طرح واقف ہیں وہ اللہ جل و اعلیٰ ہی کی ذات ہے۔دنیا محمد عربیؑ کو کہاں جانتی تھی،ان کا تعارف ہمیں سب سے پہلے خود اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے پاک کلام میں کرایا۔تین بڑے پیغمبروں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یہ سب رسول ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کے درجے بلند کیے۔اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی مدد فرمائی۔‘‘(البقرہ:253)
کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ مذکورہ آیت میں’’ورفع بعضھم درجات‘‘میں اشارہ حضرت محمدؐ کی طرف ہے،جو تمام انبیاء و رسل کے کمالات کے جامع ہیں۔انہیں خداوند قدوس کی طرف سے وہ مقامات عطا کئے گئے،جن کی بلندیوں اور وسعتوں کو تصور میں لانا مشکل ہے۔ان کا کوئی ثانی نہیں،وہ رہتی دنیا تک قرآن کی عملی تفسير ہے۔وہ حضرت عائشہؓ کی بزبانی’’کان خلقہ القرآن‘‘کی چلتی پھرتی تصویر تھے یعنی آپ کے اخلاق سراپا قرآن تھے۔
رب العٰلمین نے آپ کی خاطر’’ورفعنا لک ذکرک‘‘کا مزدہ سناکر آپؐ کی شخصیت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجا دیا۔پیغمبروں میں اتنی فوقیت و برتری دینے کے بعد بھی آپﷺ انکساری اور خوئے دلنوازی کے پیکر تھے۔دنیا میں اتنا اعلیٰ وارفع مقام ملنے کے بعد بھی حضورؐ نہایت ہی سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔وہ اپنے جوتوں کی خود مرمت کرتے،اپنی بکریوں کا دودھ دوہتے۔آپؐ نے اس دنیا میں رہتے ہوئے کبھی اس دنیا سے دل نہیں لگایا،کبھی اس دنیا سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی،اس دنیا کی معمولی سی معمولی راحت بھی اپنے لئے پسند نہیں کی۔
حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات نبیؐ کے پہلوئے مبارک پر پڑگئے تھے،نبیؐ بیدار ہوئے تو میں آپؐ کے پہلو کو جھاڑنے لگا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس بات کی اجازت کیوں نہیں دیتے کہ اس چٹائی پر کچھ بچھا دیں؟ نبیؐ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا،میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار کی سی ہے جو تھوڑی دیر سایہ لینے کے لیے کسی درخت کے نیچے رکا پھر اسے چھوڑ کر چل پڑا۔(مشکوۃ : 442)
ایساہی حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ (ایک دن)میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضورؐ کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے،آپؐ کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضورؐ کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے نشانات ڈال دی تھیں،نیز آپؐ نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی،میں نے(سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر)عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپؐ کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالی کی بندگی نہیں کرتے۔حضورؐ نے فرمایا:ابن خطاب! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو(جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو؟یاد رکھو یہ اہل فارس و روم(اور تمام کفار)وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں(جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا(مشکوۃ:447)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:ایک انصاری عورت نے دیکھا کہ آپ ؐ کا بستر نہایت ہی کھردرا اور موٹا ہے، چنانچہ اس عورت نے ایک بستر جس میں اون بھرا ہوا تھا بھیج دیا،آپؐ نے اس بستر کو دیکھا تو نہایت اصرار کے ساتھ اس کو واپس کر دینے کے لئے کہا،پھر آپ ؐ نے حضرت عائشہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:خدا کی قسم! اگر میں چاہوں تو سونے چاندی کے پہاڑ ساتھ چلا کریں (مشکوۃ:521)
آپؐ کے بستر کی نوعیت یہ ہوتی تھی کہ ایک کپڑا تھاجسے دو تہہ کر لیا جاتا تھا،ایک دفعہ حضرت حفصہؓ نے اسے چار تہہ کرکے بچھادیا،آپ ؐ نے اسے تہجد میں بیداری کے لئے مخل بتلا کر اسے پہلی حالت میں لوٹادینے کے لئے کہا (ترمذی)
آپ ؐ نے اس حد تک اپنے لئے زہد و قناعت کی زندگی پسند فرمائی تھی اور جو چیز اپنے لئے پسند فرمائی،اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہؐ نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا دنیا میں اس طرح ہوجا جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔عبداللہ بن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے شام ہوجائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو،اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے۔(بخاری:6416)
مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات مترشح ہوئی کہ آپؐ نے امیری کے بجائے فقیری سے زندگی سجا لی تھی۔اگر ہم سچ مچ میں نبی رحمتؐ کو اپنا آئیڈیل(IDEAL) تسلیم کرتے ہیں تو ہمارا طریق بھی امیری کے بجائے فقیری ہی کا ہونا چاہئیے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے بیٹے جاوید کو نصیحت کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کو یہی پیغام ان الفاظ میں دیا ہے کہ:
مرا طریق امیری نہیں،فقیری ہے
خودی نہ بیچ،غریبی میں نام پیدا کر!
آج چو طرفہ ملتِ اسلامیہ پر باطل کی یلغار ہے اور وہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے پر تُلے ہوئے ہیں،نبی رحمتؐ کی ذاتِ مبارکہ کو بھی بار بار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ان حالات میں کرنے کے کام کیا ہیں،یہ ایک ایسا سوال ہے جسے تشفی بخش جواب ملنا چاہئیے چونکہ اس نے محمدؐ کے امتی کو بے چین کر رکھا ہے۔اس سوال کا جواب بڑے ہی دلنشین انداز میں ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی نے اپنے ایک کتابچہ بنامی ’’اسوہ رسولؐ اور ہم‘‘میں اس طرح دیا ہے:
ہماری مسلم کی خیریت اسی میں ہے کہ وہ اب سے ہوش میں آجائے،وہ اب سے اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرے۔وہ دنیا کی رنگینیوں پر فریفہ ہونے کے بجائے آخرت کی نامرادیوں سے بچنے کی فکر کرے۔
رحمتہ للعالمینؐ کی امت ہونے کی حیثیت سے اس زمین پر وہ اپنے رتبہ و مقام کو سمجھے اور دنیا کی قوموں میں ایک داعی اور رہنما کی امت کی حیثیت سے اپنا تعارف کرائے،رحمتہ للعالمینؐ کی سیرت کو وہ اپنے لیے مشعل راہ بنائے اور زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں وہیں سے رہنمائی حاصل کرے،وہ دل کی گہرائیوں سے آپ ؐ کو ہی اپنا پیشوا اور اپنا آئیڈیل (IDEAL) سمجھے۔
رحمتہ للعالمینؐ کی تڑپ اور بے قراریوں کے ساتھ وہ اس بھٹکتی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لئے میدان میں آئے اور اس کی ہر زیادتی اور بدسلوکی کا جواب محبت اور پیار سے دے،وہ اس کے ہر پتھر کے جواب میں وہی بات کہے،جو رحمتہ للعالمینؐ نے اس وقت فرمائی تھی جب میدان احد میں آپؐ زخمی اور آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوگئے تھے۔(رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون)
وہ حبِ دنیا کی بیماری سے اللہ کی پناہ مانگے اور پوری بے لوثی سے اس زمین پر اپنا قائدانہ روال ادا کرے وہ حتی الامکان زہد و قناعت کی زندگی اختیار کرے کہ اس کے بغیر قائدانہ رول ممکن نہیں۔وہ اپنے اندر دین کے لیے غیرت و حمیت پیدا کرے اور اپنے قول و عمل سے اس کی سچی اور کامل نمائندگی کرے۔
مختصر یہ کہ رحمتہ للعالمینؐ کی سچی،مخلص اور باحوصلہ امت کی حیثیت سے وہ منظر عام پر آئے۔پھر وہ دیکھے،کس کس طرح رب کریم کی رحمتیں اس پر سایہ فگن ہوتی ہیں اور کس کس طرح عزت و کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔
ail:[email protected]